خدا خیر کرے
چالیس برس کے انتخابی عمل کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی ووٹر کو احمق یا کم عقل سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔
ملک میں عام انتخابات کی سرگرمیاں اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ انتخابات سے قبل ہونے والے بیشتر معاملات بھی تقریباً با حسن و خوبی انجام پاچکے ہیں۔ خاص طور پر وفاق میں وزیر اعظم اور چاروں صوبوں میں وزرائے اعلیٰ کے تقررجیسے اہم اور حساس مسائل حل ہوچکے ہیں۔ الیکشن کمیشن میں نامزدگی فارم جمع کرنے کا سلسلہ بھی مکمل ہوچکا ہے۔اس طرح انتخابات کے اپنی متعینہ تاریخ پرمنعقد ہونے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نظر نہیں آرہی۔
لیکن پاکستان کے معروضی سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شکوک وشبہات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ حالانکہ گزشتہ برس دسمبر سے مارچ میں اسمبلیوں کی تحلیل تک انتخابات رکوانے کے لیے کئی طوفان اٹھے، مگر سیاسی جماعتوں کے عزم، سول سوسائٹی کے دبائو اور ذرایع ابلاغ کی بصیرت کے باعث جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ساتھ ہی انتخابات کے ملتوی ہونے کے بارے میںسینہ بہ سینہ گردش کرنے والی افواہوں میں بھی کمی آچکی ہے۔مگر اس کے باوجود فضاء میں موجود بوجھل پن ابھی تک کم نہیں ہوا ہے،کیونکہ اچانک رونماء ہونے والا کوئی بھی واقعہ یا سانحہ انتخابات کے التوا کا سبب بن سکتا ہے۔
بہر حال ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ انتخابات اپنے وقت مقرر پر ہی ہوں گے، کیونکہ ان انتخابات کے انعقاد سے پاکستان میں جمہوریت کا تسلسل مشروط ہے۔ لیکن متوشش حلقے انتخابات کے انعقاد،ان کے نتائج اور بعد میں پیدا ہونے والی صورت حال پر کئی سوالات اٹھا رہے ہیں،جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔اول، تجزیہ نگاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ آنے والے انتخابات کے نتیجے میں کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔
دوئم، کوئی بھی سیاسی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی،جس کی وجہ سے ایک بار پھرمخلوط حکومت قائم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔سوئم،گزشتہ پانچ برسوں کے دوران شدت پسند عناصر ماضی کے مقابلے میں بہت مضبوط ہوئے ہیں اور ان کی جارحانہ حملے کرنے کی صلاحیت میں بھی کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔چہارم،ریاستی انتظامی ڈھانچے میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے ووٹنگ ٹرینڈ میںزیادہ تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔جس کی وجہ سے کم از کم دیہی علاقوں میںسابقہ ٹرینڈ برقرار رہنے کا امکان ہے۔
البتہ شہری علاقوں میں نوجوان ووٹ کسی حد تک ہلچل پیدا کرتانظر آرہاہے۔پنجم،کوئی بھی سیاسی جماعت نیا،اچھوتااورٹھوس نتائج کا حامل ایجنڈا پیش نہیں کرسکی ہے۔ششم،سیاسی جماعتوں میں لیڈروں کی آمدورفت نے ان کی نظریاتی حیثیت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ویسے بھی اس وقت کوئی جماعت کسی قسم کی نظریاتی بنیاد نہیں رکھتی۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اب تک جتنے بھی منشور سامنے آئے ہیں، وہ محض نعرے بازی یعنی Rhetoricسے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔اسی طرح جو اتحاد قائم ہو رہے ہیں،ان کی بنیاد نظریاتی کے بجائے سیاسی مفادات پر ہے جن سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
چالیس برس کے انتخابی عمل کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ پاکستانی ووٹر کو احمق یا کم عقل سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ وہ اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹ دیتا ہے اور جن مقاصد کے لیے ووٹ دیتا ہے،ان کے حصول میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہتا ہے ۔عوام کی اپنی اجتماعی دانش ہوتی ہے، جو اربن مڈل کلاس کے دانشوروں کے کلیوں اور فارمولوں سے مختلف ہوتی ہے۔ عوام پاکباز،نیک طینت اور با اصول رہنماء کی اہمیت کو جاننے کے باوجود ایسے رہنمائوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں،جوان کے فوری حل طلب مسائل حل کرسکیں۔
یہ بات طے ہے کہ جب تک ملک میں پٹواری اور تھانہ کلچر موجود ہے اور سرکاری دفاتر میں نوآبادیاتی طرز کا نظام قائم ہے، عوام ایسے افراد کو منتخب کرنے پر مجبور رہیں گے، جو ان اداروں سے جڑے مسائل کے حل میں مدد کرسکیں۔ معاون ومددگار سمجھیں گے۔عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کس کی سند جعلی ہے، کون کرپٹ ہے اور اقربا پرور ہے۔ان کا فوری مسئلہ یہ ہے کہ کون انھیں ان کے فوری مسائل سے نجات دلانے میں فعالیت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہاںعوامی رجحان کے حوالے سے دو مثالیں بہت اہم ہیں۔ متحدہ ہندوستان میں علامہ عطااللہ شاہ بخاری، جید عالم دین، بے مثل خطیب اورباکردارسیاسی رہنماء تھے ۔لوگ ان کے علم،کردار اور پاکبازی کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔
ٹھٹھرتی سرد راتوں میں پوری رات ان کاخطاب سناکرتے تھے اور ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔مگرکبھی انھیں ووٹ دے کر کامیاب نہیں کرایا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مولاناکے سامنے جب بھی کوئی مسئلہ لایا جائے گا وہ اسے حل کرانے کے بجائے اسے اصول وضوابط کی کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کریں گے اورہوسکتا ہے کہ سائل ہی کواس مسئلے سے دست کشی پر مجبور کردیں۔یہی سبب تھا کہ متحدہ ہندوستان میں شاہ صاحب کے عقیدت مندوں نے کبھی انھیں ووٹ نہیں دیا۔کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شاہ صاحب سے علمی فیض حاصل کرنا الگ بات ہے،مگر وہ مسائل جن سے وہ دوچار ہیں،ان کے حل کے لیے شاہ صاحب سے توقع کرنا الگ معاملہ ہے۔
اسی طرح پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ائیر مارشل اصغر خان ایک بے داغ شخصیت کے مالک فوجی سربراہ،منتظم اور سیاسی رہنماء رہے ہیں۔بحیثیت سربراہ انھوں نے فضائیہ کو ناقابل تسخیر بنایا ۔ 1965ء کی جنگ میں فضائیہ کی کارکردگی ان کی محنت کا ثمر تھی،حالانکہ اس جنگ میںفضائیہ کی کمان ان کے بجائے ائیر مارشل نور خان کے ہاتھ میں تھی، جو انھی کی طرح باصلاحیت کماندار تھے۔ مگر یہ پودا ائیر مارشل اصغر خان ہی کا لگایا ہواتھا۔اسی طرح جب انھیں PIAکا سربراہ مقرر کیا گیا تو اسے انھوں نے دنیا کی دس بہترین فضائی کمپنیوں میں سے ایک بنادیا۔
ان کے دامن پر کرپشن، بدعنوانی یا اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں رہا۔ مگر 1970ء کے انتخابات میں وہ راولپنڈی کے حلقے سے پیپلز پارٹی کے ایک قدرے گمنام امیدوار خورشید حسن میر سے50ہزار کے قریب ووٹوں سے شکست کھا جاتے ہیں۔ 1977ء کے انتخابات میں وہ مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کی وجہ سے کراچی کے ایک حلقے سے کامیاب ہوتے ہیں ،مگر اپنے آبائی شہر ایبٹ آباد میں شکست کھا جاتے ہیں۔اس کے بعدہونے والے کسی بھی عام انتخابات میںوہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ دوسری اہم بات یہ کہ آج ملک کے سیاسی منظر نامے پر میاں نواز شریف سمیت جتنی بھی اہم اور بڑی سیاسی شخصیات نظر آتی ہیں،ان میں سے بیشتر نے سیاست کا ابتدائی سبق تحریک استقلال کے مکتب ہی سے حاصل کیا۔
پاکستان کی چالیس برس کی انتخابی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تواندازہ ہوتا ہے کہ جب تک جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے،علامہ عطااللہ شاہ بخاری جیسا جید عالم اور ائیر مارشل اصغر خان جیسا شفاف کردار کا لیڈر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام رہا۔جب کہ جعلی ڈگری رکھنے والا شخص اس لیے دوبارہ بھاری اکثریت سے منتخب ہوجاتا ہے، کیونکہ وہ علاقے کے لوگوں کے تھانہ کچہری کے مسائل حل کرنے میں ان کی معاونت کرتاہے۔اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ 11مئی کو ہونے والے انتخابات میں نتائج کچھ زیادہ مختلف ہوں گے۔
اس کا ایک اہم سبب یہ ہے کہ ریاست کا انتظامی اور سماجی ڈھانچہ ابھی تک سابقہ خطوط پرہی استوار ہے، جس کی وجہ سے خاندان،برادری اور قبائلی شناخت کا تصورکمزور نہیں پڑا ہے۔یہی سبب ہے کہ چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر سیاسی جماعتیں اپنے نمایندوں کے انتخاب میں ان پہلوئوں کو بہت زیادہ اہمیت دے رہی ہیں۔اس کے علاوہ سول بیوروکریسی کا کردار بھی تبدیل نہیں ہوا ہے اور گزشتہ تیس برسوں کے دوران سول بیوروکریسی جس انداز میںسیاسیائی(Politicise) ہے،اس کی وجہ سے بھی انتخابی نتائج زیادہ مختلف ہونے کی توقع کم ہے۔
لیکن اس سلسلے میں چند خوشگوار اقدامات سامنے آئے ہیں۔اول،گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ذرایع ابلاغ نے عوام کی فکری تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس نے ریاست کو درپیش مسائل کا ترجیحی اور نمایندگی کے حوالے سے جنم لینے والے معاملات کا تقابلی جائزہ پیش کرکے مجموعی عوامی دانش کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔دوئم،اعلیٰ عدلیہ کے اقدامات کے نتیجے میں بددیانت، خائن اورکرپٹ عناصر کے اسمبلیوںمیں پہنچنے کے امکانات خاصی حد تک کم ہوئے ہیں۔ سوئم،الیکشن کمیشن پہلی مرتبہ خود کوassertکررہاہے اور انتخابات کو شفاف بنانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
ان اقدامات کے نتیجے میںبہتری کے امکانات ہیں۔ انتخابات کے دن ہونے والے روایتی تشدد اور اسلحے کے زور پر دھاندلی سے قطع نظر قبل از انتخابات (Pre-Election) دھاندلیوں پر کافی حد تک قابو پانے کی کوشش کی گئی ہے۔جس کے عام انتخابات پر نمایاں اثرات مرتب ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے۔چہارم، شہری علاقوں میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعدادکے رجسٹر ہونے کے باعث بعض چونکادینے والے نتائج سامنے آنے کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔
مگر جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے کہ جب تک انتظامی ڈھانچہ پرانے خطوط پر استوار رہے گا، ووٹنگ ٹرینڈ میںکسی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔اس لیے ہمارے خیال میں 2013ء کے انتخابات تبدیلی کی طرف پیش رفت ضرور ہوں گے، مگر تبدیل شدہ منظر نامہ پیش نہیں کرسکیں گے۔ البتہ اگر یہ سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ جاری رہتا ہے،تو یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ2018ء کے انتخابات اس ملک کے سیاسی اور انتخابی منظر نامے میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا مظہر ثابت ہوں گے۔