شام کی بگڑتی صورت حال
بشار حکومت کو گرانے کے لیے سب سے موثر طریقہ ایک عام ہڑتال ہے جو سارے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دے گی۔
شام کی بشار حکومت گزشتہ دہائی سے ہی نجکاری اور سامراجی نوازی کی جانب گامزن ہو چکی تھی۔ بے روزگاری، افراط زر اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا تھا۔ ایسی صورت حال میں شامی عوام نے تیونس اور مصری عوام سے متاثر ہو کر انقلاب کی جانب پیش قدمی کی۔ مگر بہت جلد انقلاب شام خانہ جنگی میں تبدیل ہو گیا۔ اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ بشار حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی شام میں خانہ جنگی شروع ہو جائے۔
آزاد شامی فوج کے کئی حصے جہادی عناصر کے ساتھ لڑ رہے ہیں جنھیں وہ انقلاب کو ہائی جیک کرنے کا باعث سمجھ رہے ہیں۔ انقلاب کا واضح نقطہ نظر نہ رکھنے والی صورت حال کو بہت بھیانک بنا دیا ہے۔ خالص عسکری بنیادوں پر اپوزیشن کی طاقتیں بشار حکومت کو گرانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ جلد ہی ایسا کر لیں گے۔ حزب اختلاف کے صفوں میں رجعتی اسلامی بنیاد پرستوں کے آ جانے سے اور ان کی جانب سے طبقاتی جدوجہد کی بجائے، نسلی تنازعات کو ہوا دینے کی کوششوں نے حزب اختلاف کو شام کے شہریوں کی بڑی تعداد کی حمایت سے دور کر دیا ہے۔
بشار حکومت کو گرانے کے لیے سب سے موثر طریقہ ایک عام ہڑتال ہے جو سارے ملک کو مفلوج کر کے رکھ دے گی۔ اس کے لیے ایک ایسی اجتماعی قوت ضروری ہے کہ جو اپنے گرد محنت کشوں اور غریبوں کو متحد کر سکے اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے کہ جب عوام کی پیش قدمی کو ان کی فطری حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ چونکہ حزب اختلاف کی طاقتیں ایسے کسی پروگرام سے کوسوں دور ہیں اس لیے ان کی لڑائی ناگزیر طور پر نسلی اور مذہبی خطوط پر استوار ہو چکی ہے۔ سب سے بہتر پروگرام جو کہ حزب اختلاف کے پاس ہے وہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کی کوئی شکل و صورت اور آزاد منڈی پر مشتمل ہے لیکن یہ دونوں ہی محنت کشوں اور غریبوں کا کوئی ایک بھی مسئلہ حل کرنے سے قاصر ہیں۔
اس لیے بھی کہ قومی ریاستیں کوئی مسئلہ نہ حل کر سکی ہیں اور نہ حل کر سکتی ہیں۔ یہ صرف دولت مندوں کی محافظ ہوتی ہیں۔ اسی سے ہمیں سمجھ آ جاتی ہے کہ کیونکہ شام ایک فرقہ ورانہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جا چکا ہے جو کہ طویل بھی ہو سکتی ہے یہاں تک کہ یہ بشار کے جانے کے بعد بھی جاری رہ سکتی ہے۔ ہم نے شام کے انقلاب کی حمایت کی تھی جب یہ شروع ہوا تھا، لیکن یہاں ہم یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اب معاملات بدل چکے ہیں۔ دونوں جانب سے ایک رد انقلاب جاری ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں ابھی بھی کچھ انقلابی عناصر موجود ہیں، خاص طور پر نوجوانوں میں لیکن ساری کیفیت میں اس وقت رجعتی عناصر حاوی ہو چکے ہیں۔
ہم چیزوں کو سیاہ سفید یا انقلاب اور رد انقلاب کی حالت میں نہیں دیکھتے۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ انقلاب اور رد انقلاب ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے مخصوص مقام آنے پر ایک نہ ایک حاوی ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی بھی حالت مستقل نہیں رہتی۔ شام کے معاملے میں رد انقلابی عناصر کچھ عرصے سے حاوی ہو چکے ہیں۔ ایسی معروضی صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتی بلکہ وقت کے ساتھ تیزی سے بدلتی بھی ہے۔ صورت حال بدل چکی ہے۔ ہمارا تجزیہ بھی بدل چکا ہے، ہمیں جو ہے جیسا ہے وہی سمجھنا اور سمجھانا چاہیے۔ ہم انقلاب یا رد انقلاب کے ساتھ کسی قسم کی رومانوی وابستگی نہیں رکھتے۔
بدقسمتی سے بائیں بازو میں سے کئی ایک جو خود کو مارکس وادی بھی قرار دیتے ہیں، یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں فریقین میں سے کسی نہ کسی کی لازمی حمایت کرنی چاہیے۔ اس سے ہمیں سابقہ یوگو سلاویہ یاد آ رہا ہے جب کچھ بائیں بازو کے لوگ سربوں کے ساتھ تو کئی کروشیائیوں کے حمایتی بن چکے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ جب یوگو سلاویہ ٹوٹ پھوٹ رہا تھا، اس وقت ایک عنصر بھی ترقی پسند نہیں تھا اور نہ ہی اس وقت باہم برسر پیکار کوئی حصہ انقلاب لا رہا تھا۔ ہر طرف رجعیت حاوی تھی، ان میں سامراجیت خاص طور پر جرمن سامراج شامل تھا جس نے مختلف دھڑوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی تھی جس کے باعث یوگو سلاویہ کی فیڈریشن سامراجی مفادات کی آماجگاہ بن گئی۔
شام کے معاملے میں مصر اور تیونس میں بنیاد پرستوں کی وقتی کامیابی نے مزید ابہام پیدا کر دیا ہے۔ ان دونوں ملکوں کے اندر انقلابات کے شروع میں ہم دیکھتے ہیں کہ محنت کش طبقہ طاقت پکڑتا جا رہا تھا، جس کی بدولت وہ ان ملکوں میں قائم مکروہ آمریتوں کو اکھاڑ پھینکنے میں کامیاب بھی ہوا۔ لیکن پھر جیسا کہ ہم پہلے بھی کئی بار کہہ چکے کہ اس کے بعد جو خلاء پیدا ہوا، اس نے اسلامی بنیاد پرستوں کو صورت حال میں در آنے کا موقع فراہم کیا اور وہ انتخابات جیت گئے جس کی وجہ سے شام میں بھی اسلام پرستوں کو مضبوط ہونے کا جواز اور موقع میسر آ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ شام کے مسئلے کے حل کی جڑ مصر اور تیونس میں موجود ہے اور شاید اس سے کہیں زیادہ ایران کے اندر۔
شام کی محدود سرحدوں میں شام کے مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ یہاں تک کہ اگر یہاں ایک بڑی سوشلسٹ انقلابی پارٹی بھی موجود ہو تو شام کی حدود میں رہتے ہوئے مسئلے کا حتمی حل نہیں نکالا جا سکے گا۔ یہاں تک کہ اگر یہاں ایک کامیاب انقلاب ہو بھی جائے تو بھی اسے اپنے آپ کو سنبھالنے کے لیے اپنی سرحدوں سے باہر نکلنا اور پھیلنا ہو گا۔ اسے ترکی، ایران اور دوسرے ملکوں کی طرف رخ کرنا ہو گا اور سب سے اہم اسے مصر میں ایک سوشلسٹ فتح درکار ہو گی جو کہ سب سے بڑا عرب ملک ہے اور جس میں سب سے زیادہ محنت کش بھی موجود ہیں۔ اس سے ہی مشرق وسطیٰ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو رہنمائی میسر آ سکے گی۔
ہمیں یہ سب کچھ شام میں موجود بہترین نوجوان عناصر کو بتانا اور سمجھانا ہو گا۔ ہمیں ایک واضح مارکسی تجزیہ بنانا اور وسیع النظری سے صورت حال کی حقیقت کی وضاحت کرنی ہو گی۔ بشار حکومت آخر ختم ہو جائے گی، لیکن یہ کیسے جاتی ہے اور کون اسے ختم کرتا ہے، یہ دیکھنا اہم ہو گا۔ لیبیا میں ہم نے دیکھا کہ حکومت گرانے کے لیے سامراج کی امداد حاصل کی گئی جس کے نتیجے میں انتشار اور ابہام پیدا ہوا، اور اب بھی سامراجی باہر سے بیٹھ کر سازشیں کر رہے ہیں۔ لیبیا کے عام لوگوں کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے بلکہ پہلے سے بھی زیادہ شدید ہو گئے ہیں۔ شام میں بھی ایسا ہی ہو گا۔
اگر وہاں بشار کی حکومت کا خاتمہ وہ ملیشیائیں کرتی ہیں جنھیں رجعتی خلیجی ملکوں اور مغربی سامراجیوں کی امداد اور پشت پناہی ہے۔ بالآخر صورت حال کے مطابق محنت کشوں کو اپنے پاؤں کی جانب دیکھنا ہو گا۔ وہ منظم ہونا شروع ہوں گے۔ محنت کش ٹریڈ یونین تنظیمیں بنائیں گے تا کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کو ممکن بنا سکیں۔ واقعات کی روشنی میں محنت کش طبقے کی تحریک ایک قوت کے طور پر عوام کی قیادت سامنے آئے گی اور جب لوگوں پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے گی کہ بشار کی حکومت کے جانے سے کچھ بھی نہیں بدلا جا سکا چنانچہ زیادہ سرگرم اور باشعور محنت کشوں اور نوجوانوں کو مستقبل میں ایک شاہی انقلابی حزب اختلاف کو منظم کرنا چاہیے۔
یہ حزب اختلاف آگے چل کر بہت اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ عرب انقلاب ایک طویل اور اعصاب شکن عمل سے گزرے گا جس دوران عوام بھاری تعداد میں تحریک میں شامل ہوں گے اور بائیں بازو کی جانب رجوع کریں گے۔ اسی دوران ہی وقتی اور عارضی وقفے بھی آئیں گے کہ جب رد انقلاب مضبوط ہوتا محسوس ہو گا لیکن انقلاب کسی نہ کسی طرف سے آگے کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سرمایہ داری میں بے روزگاری، کم اجرتوں اور دیگر مسائل کا حل موجود نہیں۔ مصر اور تیونس میں اس وقت انقلاب بلندی پر ہے اور ناگزیر طور پر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلے گا۔ عراق اس سے متاثر ہو گا جب کہ سعودی عرب سمیت دوسری خلیجی ریاستیں بھی اس سے متاثر ہوں گی۔
خطے کے سبھی ملک ایک وقت پر اس سے متاثر ہوں گے۔ مغربی سامراجیوں کی جانب سے ایران کے ذریعے اور خلیجی ریاستوں کے ذریعے تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کے جس سے سماج کو نسلی و مذہبی فرقہ واریت اور منافرت کا شکار رکھ کے طبقاتی مسئلے کو کاٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ ایک وقت کے لیے تو کارگر رہے گی لیکن سماج کی تہوں میں موجود طبقاتی سوال نے ابھر کر سامنے آنا ہی ہے۔ جب محنت کشوں کی قیادت میں شام میں ایک غیر طبقاتی نظام وجود میں آئے گا اور وہ عالم عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس وقت ساری دولت سارے لوگوں کی ہو گی، کوئی بہت دولت مند ہو گا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا۔