ملک سیاستدانوں نے چلانا ہے
کراچی کی طرح کوئٹہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے شدید ترین بد امنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے
گزشتہ دس بارہ روز قومی سیاست میں بڑے ہنگامہ خیز گزرے، صوبوں اور وفاق میں نگراں حکومتوں کے قیام سے لے کر آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل اور مسلم لیگ (ہم خیال) کے صدر ارباب غلام رحیم کی جلا وطنی ختم کر کے وطن واپسی تک کے واقعات نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کو تبصروں اور تجزیوں کے لیے نیا موضوع دے دیا ہے۔
وفاقی و صوبائی نگراں حکومتوں کے سامنے سب سے بڑا اور اہم چیلنج تو مقررہ آئینی مدت کے اندر ملک میں منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے قیام کو یقینی بنانا ہے، تاہم انتخابی عمل کو پر امن بنانے کے لیے اپنے ملک کے طول و عرض میں امن و امان کا قیام اولین ترجیح ہونا چاہیے، بالخصوص کراچی و کوئٹہ جیسے حساس شہروں میں جاری قتل و خون ریزی، دہشت گردی و ٹارگٹ کلنگ کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے انھیں محفوظ و پرسکون بنانا نگرانوں کے لیے کڑا امتحان ہے۔ کراچی بد امنی کیس میں عدالت عظمیٰ نے سندھ کی نگران حکومت کو 15دن میں کراچی میں امن قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔
نگران وزیر اعلیٰ سندھ جسٹس ریٹائرڈ زاہد قربان علوی نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ کراچی میں جلد امن قائم کرنے کی حتی المقدور کوشش کریں گے۔ مناسب ہو گا کہ وزیر اعلیٰ سندھ بالخصوص کراچی کی تمام سیاسی و مذہبی قیادت سے ملاقاتیں کریں اور باہمی مشاورت و افہام و تفہیم سے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جائے امن تباہ کرنے والے عناصر کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے اور ہر قسم کی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر شر پسند عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں تو کراچی جلد امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اور پھر یہاں انتخابات کے انعقاد کی راہ میں حائل رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی۔
کراچی کی طرح کوئٹہ بھی گزشتہ کئی ماہ سے شدید ترین بد امنی اور دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، جہاں امن کے قیام کی کوششیں کلی طور پر کامیاب نہ ہو سکیں، نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے، وہ اپنے صوبے کی مشکلات و مسائل کا گہرا شعور و ادراک رکھتے ہیں بلوچستان میں برسوں سے جاری شورش اور بلوچ عوام کی محرومیوں کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز سے نہ صرف سمجھ سکتے ہیں بلکہ سلگتے ہوئے مسائل کے قابل قبول حل کی جانب مثبت و تعمیری اقدامات اٹھا سکتے ہیں، بلوچ رہنماء سردار اختر مینگل کی وطن واپسی اور انتخابی عمل میں شرکت کے اعلان کے بعد بلوچستان میں جمہوری عمل کو یقیناً تقویت ملے گی۔
تاہم وہاں بعض علیحدگی پسند گروپوں کا بھی شدید پریشر ہے، جو الیکشن کے بائیکاٹ کا خواہاں ہیں۔ نگراں وزیر اعظم کھوسو کے لیے ایسے سخت گیر ناراض گروپوں، سرداروں اور بلوچ عوام میں براہ راست اثر و رسوخ رکھنے والی شخصیات کو منانا اور انھیں قومی سیاسی دھارے میں لانا یقیناً بڑا چیلنج ہے، اس حوالے سے نگراں وزیر اعلیٰ بلوچستان غوث بخش باروزئی کا کردار بھی اہمیت کا حامل ہے، جنہوں نے اول مرحلے میں ہی ناراض بلوچ رہنمائوں و سرداروں سے ملاقاتیں کرنے اور انھیں ملکی سیاست کی مین اسٹریم میں لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم نے بھی وہ بلوچستان جا کر سیاسی قوتوں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری بھی بلوچ عوام کی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے بلوچستان پیکیج کا اعلان کر چکے ہیں اب اگر نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اور نگراں وزیر اعلیٰ غوث بخش باروزئی کی تازہ کوششیں رنگ لے آئیں اور وہ بلوچ عوام میں پھیلی ہوئی بے چینی، اضطراب اور محرومیوں اور بلوچوں کے حق تلفی کے ازالے کے لیے ٹھوس، جامع اور دور رس نتائج کے حامل اقدامات اٹھانے میں کامیاب ہو گئے اور بلوچ عوام نے اطمینان کا سانس لے لیا تو یہ پاکستان کی بہت بڑی خدمت ہو گی۔
غرض اس دن جب نگراں وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو کے نام کا اعلان ہوا تو سابق صدر ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف بھی چار سالہ جلا وطنی ختم کر کے پاکستان پہنچ گئے ملک کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں ان کی آمد پر ہلچل پیدا ہو گئی اور مختلف سوالات اٹھاتے جا رہے ہیں کہ تقریباً دس سال تک بلا شرکت غیرے حکمرانی کرنے والے جنرل پرویز مشرف کیا محض اس لیے پاکستان آئے ہیں کہ وہ ملک کے کسی حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب جیت کر بحیثیت ایک عام رکن پارلیمنٹ کے اسمبلی میں بیٹھ جائیں اور بس یا کیونکہ ان کی جماعت آل پاکستان مسلم لیگ میں اتنا دم خم تو ہے نہیں کہ وہ تن تنہا اتنی سیٹیں حاصل کرلے کہ اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ سکے اور نہ ہی اس بات کا کہیں کوئی امکان ہے۔
جنرل مشرف کے ''اچھے وقتوں'' کے سیاسی دوست انھیں دوبارہ اقتدار کے دروازے تک لے جانے میں اپنا کاندھا پیش کریں گے، گویا ان کی آمد کے مقاصد ابھی واضح نہیں کہ وہ ملکی سیاست میں کس قدر ''گرم جوش'' کردار ادا کر سکیں گے، انھوں نے اپنے کارڈز ابھی چھپا کے رکھے ہوئے اور اپنے ''ضامنوں'' کی مدد سے کسی بڑے ''ہدف'' تک پہنچنے کے لیے 11 مئی کے بعد ہی کوئی فیصلہ کریں گے۔ جس طرح ان کی آمد کی مہم چلائی جا رہی تھی تو یوں لگ رہا تھا کہ وہ کراچی آمد پر کسی بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے مزار قائد پر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کریں گے۔
لیکن ان کی خواہش ناتمام رہی، پس پردہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ ایئر پورٹ پر جمع ہونے والے دو چار سو لوگوں سے محض چند منٹ گفتگو کے بعد سخت ترین سیکیورٹی حصار میں ہوٹل روانہ ہو گئے، جنرل مشرف اس وقت ہائی کورٹ سے ملنے والی حفاظتی ضمانت پر ہیں ان کے خلاف بینظیر بھٹو شہید، بلوچ رہنما اکبر بگٹی کے قتل، آئین کی پامالی، لال مسجد اور دیگر حوالوں سے مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور انھیں الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل پرویز مشرف نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے، دوران گفتگو وہ اپنے سابقہ دور اقتدار کے حوالے سے اپنی صفائیاں پیش کرتے اور اپنے ''کارنامے'' گنواتے رہے، جنرل مشرف پر قائم مقدمات کی صداقت اور پس پردہ حقائق تو عدالتی فیصلوں کے بعد ہی سامنے آسکیں گے۔
اپنی پریس کانفرنس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ دنیا میں جتنے بڑے سیاستدان تھے وہ سب فوجی تھے اور ان کے دور میں ترقی و خوشحالی آئی لیکن بد قسمتی سے وطن عزیز میں جو بھی فوجی حکمران آیا تو ملک کو گرداب میں چھوڑ کر گیا۔ ایک فوجی حکمران کے دور میں تو ملک دو لخت ہو گیا، کلاشنکوف و منشیات کلچر، خودکش حملے، بم دھماکے، دہشت گردی، یہ سب جنرلوں ہی کی چھوڑی ہوئی سوغاتیں ہیں جن کے مضر اثرات نے 18 کروڑ عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ فوجی جنرل جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کے سر پہ انتقام کا بھوت سوار ہو جاتا ہے کبھی وہ بھٹو جیسے عالمی سطح کے مدبر سیاستدان کو تختہ دار پر لٹکا دیتے ہیں اور کبھی دو بار وزیر اعظم بننے والے نواز شریف اور بینظیر بھٹو جیسی بین الاقوامی خاتون رہنماء کو جلا وطنی پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ ملک کسی جنرل نے نہیں بلکہ قائد اعظم نے سیاسی جد وجہد کے ذریعے حاصل کیا، لہٰذا اس ملک کو سیاستدانوں ہی نے چلانا ہے نہ کہ جنرلوں نے کہ فوج دفاع وطن کی ضامن ہے۔