کیا ہم گَنّا اُگانے کے بجائے کوئی گُناہ کاشت کر بیٹھے

’’گنے کی کھڑی فصل سے چار کاروبار کروں گا۔۔۔۔۔‘‘


شوگرملز کے ستائے ایک کاشت کار نے اپنے مسئلےکا حل ڈھونڈ لیا

KARACHI: موبائل پر پچھلے دنوں بوریوالا سے ایک کاشت کار نیاز احمد سے بات چیت کا موقع ملا، کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! میں گنے کا کاشت کار ہوں لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ آئندہ گنا کاشت کروں یا پھر کسی اور فصل کی طرف راغب ہوجاؤں، جس سال پیداوار نہیں آتی تو ہم قدرت کا رونا رونا شروع کردیتے ہیں۔ وقت پر بارش نہیں ہوئی، موسم خشک رہا، کھادیں غائب ہوگئیں، بیج اچھا نہیں مل سکا یا کاشت کے وقت بارشیں تواتر سے ہوتی رہیں جس سے گنا وقت پر کاشت نہ ہوسکا اور جس برس گنے کی پیداوار اچھی آجاتی ہے اس وقت گنا، ٹھکانے لگانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملتی۔ نیاز مزید کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! اب دیکھیں، پچھلے برس پاکستان میں گنے کی اوسط پیداوار 560من فی ایکڑ رہی مگر اس برس میں نے تہیہ کیا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے مجھے ایوب ایگریکلچرل انسٹی ٹیوٹ فیصل آباد کے ادارۂ تحقیقات کماد، کی وضع کردہ ٹیکنالوجی کو استعمال میں لانا ہے۔ چناںچہ اس سلسلے میں پچھلے برس اس ادارے سے رابطہ کیا، بیج حاصل کیا اور ہدایات کے مطابق میں نے گنا کاشت کر دیا۔

ہر ہفتے کھیت میں جانے کے بجائے میں نے تہیہ کر لیا تھا کہ ہر روز گنے کے کھیتوں میں جا کر مجھے خود فصل کا معائنہ کرنا ہے چناںچہ میں ایسا کرتا رہا۔ کسی کے ہاں روز روز جانے سے اس کے عادت و اطوار کی سمجھ آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اپنائیت کا ایک رشتہ استوار ہو نے لگتا ہے۔ چناںچہ اس کا دکھ اپنا دکھ لگنے لگتا ہے۔ اسی طرح گنے کے کھیتوں میں پھرتے پھرتے گنے کی فصل مجھے اپنا گھر لگنا شروع ہوگئی تھی۔ فصل کو گرمی اور کورے سے بچانے کے لیے سال بھر پانی کا بندوبست کرتا رہا، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ گنے کی فصل بیمار ہونے سے قبل ہی قابو کرلی۔ یہی حال کیڑے مکوڑوں کا رہا۔ چناںچہ گنے کی فصل کا دن رات خیال رکھنے سے یہ ضرور ہوا کہ میں اپنا آپ بھول گیا اور ہر دم گنے کی فصل کے بارے میں سوچتا رہا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میری پیداوار پاکستان کی اوسط پیداوار560 من فی ایکڑ کی بجائے دنیا کی اوسط پیداوار 710من فی ایکڑ سے بھی بڑھ کر 1200من فی ایکڑ تک جا پہنچی۔

مجھے تو ڈاکٹر صاحب! کماد کے بارے میں لکھا جانے والا آپ کے ایک مضمون کا عنوان سچ ثابت ہوتا دکھائی دیا کہ راتوں رات امیر ہونا گنے کی کاشت سے ممکن ہے۔ میرے 12 ایکڑ سے او سطاً 1200 من پیداوار کیا آئی کہ میرے گاؤں والے، رشتے دار میرے آگے پیچھے ہو نے لگے۔ ساتھ والے گاؤں کے کاشت کار بھی میری فصل کی ٹوہ میں لگ گئے کہ کہیں یہ فصل گرین ہاؤس میں تو نہیں کاشت کی گئی تھی۔ اتنا قد ، اتنے موٹے اور وزنی گنے!

اگلے ہی لمحے مجھے ایسا لگا کہ جیسے بات کرتے ہوئے نیازاحمد کی آنکھیں بھیگ سی گئی ہوں۔ مجھے تو موبائل پر اس کا کلیجہ بھی پھٹتا ہو ا محسوس ہو رہا تھا، دفتری مصروفیات کے باعث اگرچہ میں اتنی لمبی کا ل موصول نہیں کرتا۔ کسان بھائیوں سے مصروفیت کا کہہ کر معذرت کرلیتا ہوںکہ میں ٹھہر کے بات کرتا ہوں، مگر 4بج کر 5 منٹ ہو چلے تھے سرکاری امور کی بجا آوری کے بعد گھر کی جانب پلٹنے کے لیے ابھی دفتر سے نکل ہی رہا تھا کہ مجھے اس کال نے گھیر لیا۔ اس کی باتیں سن کر سچی بات ہے کہ جی چاہ رہا تھا کہ نیاز احمد مجھ سے باتیں کرتا چلا جائے اور وہ موبائل سے نکل کر میرے سامنے آجائے۔ وہ دکھی محسوس ہو رہا تھا۔ ایسے لوگوں کے لیے تو شاید میں خود کو ہر لمحہ ان کے سپرد کیے رکھتا ہوں، کیوںکہ غم زدہ چہروں میں ربِ حقیقی کا ملنا یقینی رہتا ہے ۔ میں نے عرض کی، نیاز صاحب! میرے پاس آپ کے لیے وقت ہے۔ آپ آرام سے بات کریں۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں موبائل بند کر دوں گا اور بات ختم ہوجائے گی۔ دلاسا ملنے پر نیاز احمد گویا پھٹ پڑا۔

ڈاکٹر صاحب! اتنی شان دار پیداوار لینے کے بعد ہم تو ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے ہیں۔ ملز والے تو سو سو طرح کے بہانے گھڑتے چلے جا رہے ہیں کہ ہم گنا نہیں لے رہے، بعد میں آنا، ملز میں کوئی فالٹ پڑ گیا ہے، اس لیے چل نہیں رہی، لائن میں لگ جائیں۔ ڈاکٹر صاحب! لائن میں لگنا تو کوئی بات نہیں، مگر چار چار دن یہ شوگر ملز والے ملز کے باہر سخت سردی میں جب کھڑا کیے رکھتے ہیں تو ہمارے سارے سال کی محنت پر پانی پھر جاتا ہے ۔ چار دنوں کے انتظار کرنے کا مقصد بھلا کیا ہوتا ہے کہ گنا اپنا وزن کھو بیٹھے اور ہم گنا اونے پونے داموں میں بیچنے پر مجبور ہوجائیں۔ ڈاکٹر صاحب! یہیں پر بس نہیں۔ جب ہم ٹرالیوں پر گنا لاد کر شوگر ملز کے احاطہ پر پہنچتے ہیں تو بے شمار گدھ نما چہرے ہماری ٹرالیوں کے ارد گرد منڈلانے لگ پڑجاتے ہیں، کتنی رقم چاہیے، چھوڑو وزن کو، کون کنڈے پر جاتا پھرے، پیسوں کی ضرورت ہو گی، خواہ مخواہ یہاں کھڑے ہیں، کھڑے ہونے کا کوئی فائدہ نہیں، بولو کتنے پیسے چاہییں، جاؤ گھر جا کر آرام کرو، بچے راہ تک رہیں ہوں گے، میں ابھی کچھ بولنے ہی لگا تھا، ڈاکٹر صاحب! کہ وہ گدھ دوبارہ مجھ پر جھپٹا، کچھ دن بھی یہاں کھڑے رہو گے، باری تب بھی نہیں آئے گی۔

ڈاکٹر صاحب! دل چپکے چپکے خوں کے آنسو روتا رہتا ہے، کس کو اپنا دکھڑا سنائیں، کس کو اپنا کہیں، گنا ٹرالیوں میں یوں چھوڑ کر گھر جا نہیں سکتے، بچے سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں، بابا! میری فیس کا کیا بنے گا، یونیورسٹی والوں نے لیٹ فیس کے ساتھ دگنا سرچارج بھی لینا شروع کردیا ہے، میں تو پہلے ہی کہتا تھا بابا کہ زمین بیچ دیں، اس میں کیا رکھا ہے، باہر چلے جاتے ہیں، مگر آپ ہیں کہ آپ حب الوطنی سے باہر ہی نکل رہے۔ پاکستان میں کوئی دھرتی ماں کی فکر کرتا ہے ، سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔

میں اپنے بچوں کو کیا جواب دیتا، چُپکا رہتا اور اور ان کی باتیں سنتا رہتا ۔۔۔ باتین سن سن کے جب کان پک جاتے تو پھر خود کو ہلکا محسوس کرنے کے لیے اپنے اللہ سے باتیں کرنے مسجد چلا جاتا۔

ڈاکٹر صاحب! (وہ تقریباً روہانسا ہو کر بولا) آپ بتائیںکہ ہمارا قصور کیا ہے۔ پہلے کہتے تھے ہماری پیداوار نہیں آرہی، گنے پتلے ہیں، جوس نہیں بن رہا۔ اب محنت کی ہے گنا موٹا اور وزنی پیدا ہوا ہے، جس سے پیداوار بڑھی ہے تو ہمیں ایسے لگ رہا ہے جیسے ہم گنا کی بجائے کوئی بہت بڑا گناہ کاشت کر بیٹھے ہیں، جس کے بڑھتے ہوئے اثرات ہم کسانوں کو اندر ہی اندر سے گھائل کر رہے ہیں، ہمیں شرمندہ کر رہے ہیں۔۔۔کہ تم نے گنا کاشت کیوں کیا ہے۔

ڈاکٹر صاحب! گنا کاشت کر کے ایسے لگتا ہے کہ ہم واقعی کوئی بہت بڑا گناہ کر بیٹھے ہیں۔ گنے سے اب نفرت بھی ہو رہی ہے اور الجھن بھی بڑھ رہی ہے۔ مردان میں ننھی عاصمہ کے حوالے سے جب گنے کی فصل ٹیلی ویژن پر دکھاتے ہیں تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ کاش یہاں پر گنے کی فصل کاشت نہ ہوئی ہوتی تو درندگی کا یہ وقوعہ بھی سرزد نہیں ہونا تھا۔ ڈاکٹر صاحب! علامہ اقبال کہہ گئے ہیں کہ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی ۔۔۔۔اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے کئی علاقوں میں گنے کی فصل کو آگ لگائی جارہی ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ روزی کی تو دور کی بات ہے سرکاری قیمت پر ہم سے تو کوئی گنا خریدنے کی بات ہی نہیں کر رہا۔ ابھی ٹی وی پر پٹی چل رہی ہے کہ گنے کی سرکاری قیمت 180روپے کی بجائے 160کر دی گئی ہے۔

کچھ ساعتوں کے لیے میں مصلحتاً خاموش رہا۔ سوچ میں پڑ گیا کہ گنے کا کاشت کار نیاز احمد گنا کاشت کر کے اس زرعی ملک کے بوریوالا میں کیا برا کر چکا ہے جو اپنے پاس سب کچھ ہونے کے باوجود دکھی اور پریشان ہے۔

میں بطور زرعی سائنس داں اسے کیا کہتا؟ کہ گنا لگانا چھوڑ دو، میرا ضمیر یہ گوارا نہیں کرتا کہ میں کسی کو کہوں کہ وہ گنا کاشت نہ کرے ۔ یہ میری تحقیق کی توہین کرنے کے مترادف ہوگا۔ ابھی میں نیاز احمد سے بات کرنے کے لیے تانے بانے بن ہی رہا تھا کہ وہ خود ہی بول پڑا، مگر اس وقت اس کی آواز میں خلاف توقع ایک ٹھہراؤ سا محسوس ہوا۔ وہ سنجیدگی سے کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب! کوئی بات نہیں۔ میں اپنا دل میلا نہیں کروں گا اور آپ بھی فکرمند نہ ہوں ، زمانہ بندے کا سب سے بڑا استاد ہوتا ہے۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آئندہ گنا کاشت کرنا چھوڑ دوں گا تو شوگر ملز والوں کی عقل ٹھکانے آجائے گی تو ایسی بھی کوئی بات نہیں، کیوںکہ پاکستان میں26لاکھ ایکڑ زمین پر گنا کاشت ہو رہا ہے جو ہزاروں زمینداروں (تقریباً 80 ہزار) کی ملکیت ہے۔ اب ہزاروں زمینداروں میں سے مجھ جیسے 12ایکڑ کے دس نہیں بیس نہیں کوئی پچاس زمیندار بھی گنا لگانا چھوڑ دیں تو کیا شوگر ملز بند ہوجائیں گی؟ قطعی نہیں، شوگر ملز والوں کو اس وقت فرق پڑے گا جب 80 ہزار زمینداروں میں سے کوئی 60ہزار گنا کاشت کرنا چھوڑ دیں۔ ایسا ہونا مشکل تو ہے مگر ناممکن بھی ہے۔ لہٰذا ان حالات میں اگر ہم زمیندار لوگ، گنا کاشت نہیں کریں گے تو ہم تو اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ ہمت ہارنا کسانوں نے نہیں سیکھا، لہذا گنا کاشت کرنے سے ہم نہیں رک سکتے۔ اسے ہر صورت کاشت کریں گے۔

نیاز احمدبولا، ڈاکٹر صاحب! میں نے آپ سے بات چیت کے بعد تہیہ کرلیا ہے، رب سے ایک وعدہ کر لیا ہے کہ ایک تو میں گنا ضرور کاشت کروں گا اور دوسرا آج ہی سے جو گنا میرے پاس کھیت میں کھڑا ہے اس سے میں چار ذرائع سے کاروبار کروں گا، اور اس کی تشہیر کروں گا۔ گنے کا رس جو بازار میں 20روپے کا گلاس ملتا ہے اسے 10روپے میں فروخت کروں گا اور لو گ میرے گاؤں میں خود آکر لیں گے۔

گنے کا خالص رس صحت کے لیے نہایت مقوی ہے۔ لوگ سمجھتے ہوں گے کہ گنے کا رس دوچار گھنٹوں میں ہی پڑا پڑا خراب ہو جاتا ہے، اس میں فرمینٹیشن شروع ہو جاتی ہے، یہ خیال صحیح ہے، لیکن گنے کے رس میں گنے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ڈال ڈیں تو رس کافی عرصے تک خراب نہیں ہوتا۔ دودھ کا خالص ملنا فی زمانہ بہت مشکل ہے جس سے کہ کھیر بھی بنائی جاتی ہے مگر گنے کے رس سے نہایت عمدہ کھیر بنتی ہے، جسے شوگر کے مریض بھی بہ آسانی کھا سکتے ہیں، گنے کے رس سے سرکہ بھی بہت نفیس بنتا ہے، جو پیٹ کی بیماریوں کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتا ہے ، میں سرکہ کی بوتلیں بھی بناؤں گا۔ اس کے بعد میں گُڑ بناؤں گا۔ ایسا گڑ جو کیمیکلز سے مستثنیٰ ہوگا۔ دوسرا میوے والا گڑ بناؤں گا۔ میں گڑ کی کوالٹی ایسی رکھوں گا کہ لوگ اسے سوغات بھی سمجھ کر دور دور سے خریدنے خود میرے پاس چل کر آیا کریں گے ، سادہ گڑ کے نرخوں کا اندازہ لگائیں کہ کہ مارکیٹ میں سادہ گڑ 70روپے سے لے کر150روپے فی کلو تک بہ آسانی فروخت ہو رہا ہے، جب کہ دیسی گھی، پستہ، مغز، بادام، الائچی، کشمش، چنے ، مونگ پھلی، کاجو اور تل سے بنا میوے والا گڑ 300 سے لے کر 500 روپے کلو تک بھی خریدنے میں لوگ خاصی دل چسپی لیں گے۔

اس وقت نیاز احمد کے لہجے میں بلا کا یقین تھا، وہ یقین جو ہر ناکامی اور مایوسی کو شکست دے سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں