مزاحمتی رویوں کی بازگشتآخری حصہ
اماں! تم ہمارے ساتھ جاتی تو ہو، اور اماں تم ٹھیک ہی کرتی ہو
نااہل وزیراعظم کو ہی دیکھ لیجیے۔ حالات کی سنگینی کو سمجھے بغیر تقریریں کر رہے ہیں، وہ مصلحت اور حکمت عملی کو بھلا بیٹھے ہیں، یہاں تک کہ فوج اور عدلیہ پر بھی الزام تراشی کرنے سے گریز نہیں کررہے ہیں اور امید یہ رکھتے ہیں کہ ان کے چاہنے والے مسند اقتدار پر بٹھانے کے لیے کافی ہیں، اور وہ ایسا سوچ رہے ہیں، غلط بھی نہیں ہے۔ اس کی وجہ ہر دور میں ووٹرز باآسانی خرید لیے جاتے ہیں، ایسے کوتاہ عقل لوگوں نے ہی مسائل پیدا کرنے میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور مزاحمت کے در وا کیے ہیں، وہ نہیں سمجھتے کہ ان کا یہ طریقہ لاکھوں اور کروڑوں لوگوں کے لیے اذیت کا باعث ہے۔
غربا اور کمزوروں کا استحصال ہے۔ آج پورے ملک میں صنعتوں کو بام عروج پر پہنچانے والوں، محنت کشوں، کسانوں اور ہاریوں کے لیے زندگی تنگ کردی گئی ہے، وہ غربت کی لکیر سے نیچے رہ کر زندگی کے دن کاٹ رہے ہیں۔ ایسا ہی حال پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والوں کا ہے۔ مالکان اپنے ملازمین سے کام زیادہ لیتے ہیں اور معاوضہ بے حد قلیل اور نہ ہی انھیں کوئی سہولت میسر ہے، ان کے لیے قانون بنانے کی ضرورت سالہا سال سے محسوس کی جارہی ہے لیکن قانون دانوں کو فرصت نہیں ہے کہ ان ظالمانہ حالات و واقعات کا از سر نو جائزہ لیا جائے تاکہ پر سکون اور خوشحال زندگی پر سب کا برابر کا حق ہو۔ لیکن نا انصافی اور بے حسی کا دور دورہ ہے۔
ایک وقت تھا جب پنجاب پولیس نے مزاحمت اور ظلم کے کئی باب اپنی بربریت کے رنگ کی سیاہی سے لکھے تھے، جس میں ماڈل ٹاؤن اور بے قصور شہریوں کی قتل غارت گری کی داستان بھی شامل ہوگئی تھی لیکن آج سندھ پولیس بھی ان کے ہی رنگ میں رنگ گئی ہے۔ اس نے ظلم کی انتہا کردی اور کراچی میں ایک نہیں بے شمار نوجوانوں کو مقابلے کا رنگ دے کر موت کی گھاٹ اتاردیا، تازہ واقعات انتظار، نقیب اﷲ اور دوسرے کئی نوجوان کے قاتل منظر عام پر آئے ہیں۔ اس قسم کے سانحات نے عدم تحفظ کا احساس بڑھا دیا ہے، اور لوگ خوف زدہ ہیں اور ان کے سائے سے دور رہنا چاہتے ہیں۔
اگر اسلام سے قبل کے واقعات لرزہ خیز تھے لیکن طلوع اسلام نے جہل کی تاریکی کو گھٹا دیا تھا اور معاشرہ امن و سلامتی کی مثال بن گئی تھا لیکن آج پھر جہالت و گمراہی کی اندھیر نگری وجود میں آچکی ہے جس کی وجہ سے ہر شخص دل گرفتہ ہے۔ مزاحمتی رویوں نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔
کسی بھی وقت کوئی واقعہ رونما ہوجاتا ہے، مایوسی اس قدر بڑھی ہے کہ سکون کا حصول ناممکن نظر آتا ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے، یہ میرے گھر کے قرب و جوار میں بسنے والی ایک بیوہ خاتون کا ہے جو اپنے بچوں کی پرورش بے حد ذمے داری اور محنت مشقت کے ساتھ کر رہی تھیں۔ وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ بچے جوان ہوگئے اور حادثات زیادہ رونما ہونے لگے، خوف و ہراس بھی ماؤں کے دلوں پر سیاہ ناگ کی طرح آکر بیٹھ گیا، ان کی باتوں کی بازگشت دور دور تک کا سفر کرتی، وہ صبح و شام اپنے گیٹ کے سامنے تو کبھی ٹیرس سے آوازیں لگاتیں، ارے عرفان! دیکھو، کئی پولیس والے گزرے ہیں۔
تھوڑی دیر ہوئی جب موبائل کھڑی دیکھی تھی، یہ پولیس والے یوں ہی مار دیتے ہیں، ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے پر ہمارے جیسے گھرانے برباد ہو جاتے ہیں، پچھلے سال تمہارے ابا کے ساتھ ایسا ہی ہو چکا ہے۔ ہمیں ملا انصاف؟ بس اب گھر میں آ جا۔۔۔۔ اولاد فرمانبردار تھی وہ ماں کا واویلا سن کر گھر کا رخ کرتی، عرفان اور عدنان جوں ہی گھر میں قدم رکھتے وہ انھیں دبوچ لیتی اور کہتی اب باہر نہ نکلنے دوں گی، یہ تالا ہے نا میرے ہاتھ میں ابھی ڈالتی ہوں۔ بچے ذرا دھیمے لہجے میں کہتے، اماں کب تک تالا ڈالو گی، آخر باہر تو جانا ہی ہوتا ہے، نہ، نہ ۔۔۔۔اب نہ جانے دوں گی، خود جاؤں گی۔
اماں! تم ہمارے ساتھ جاتی تو ہو، اور اماں تم ٹھیک ہی کرتی ہو، اکیلے لڑکوں پر یہ لوگ زیادہ ہاتھ ڈالتے ہیں، عورت کا پھر بھی خیال کرلیتے ہیں، کیوں نہ کریں گے ہیں تو مسلمان ہی، وہ بھی جانتے ہیں کہ اسلامی اور مشرقی اقداریں عورت کو تحفظ فراہم کرتی ہیں لیکن یہ لوگ تھوڑے سے پیسوں کے لیے ضمیر کا سودا کر لیتے ہیں، جی اماں! تم ٹھیک کہتی ہو، کئی دفعہ 20,20 روپے دے کر جان چھڑائی ہے، ورنہ تو میری بائیک تھانے چلی ہی گئی تھی پھر وہاں سے لانا بڑا مشکل کام تھا۔ پیسے تو جاتے ہی ہیں، پر جان کا بھی خطرہ رہتا ہے، عبداللہ کے ساتھ یہی تو ہوا تھا، گیا تھا بائیک لینے، پیسوں کے معاملے میں بات بگڑ گئی۔ ہائے اس کا نام نہ لے، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اتنا تشدد کیا جان سے گیا۔
اس طرح کے قصے کہانیاں عام ہو گئے ہیں اکثر اوقات اپنے مقصد کے لیے مزاحمتی عمل جان لیوا ہوتا ہے، مزاحمت کرنے پر لٹیرے بڑی آسانی کے ساتھ کئی گولیاں شریف النفس شخص کے سینے میں اتار دیتے ہیں چاروں طرف چور ڈاکو دندناتے پھر رہے ہیں اور گشتی پولیس چین کی بانسری بجا رہی ہے۔ اگر اعلیٰ تعلیم یافتہ افسران نظم و ضبط، عدل و انصاف پر عمل پیرا ہونے کے لیے پولیس اہلکاروں کو پابند کریں تو پھر شاید معاشرتی فضا میں سانس لینا دوبھر نہ ہو۔