قابل توجہ معاملہ
فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں اس وقت بیان بازیاں جاری ہیں۔
گئے بدھ کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے کیے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسا شخص جو بدعنوانی کے الزام میں نااہل قرار دیا گیا ہو، کسی سیاسی جماعت کی قیادت کرنے کا مجاز نہیں۔ مختصر فیصلے میں 28 جولائی 2017ء کو اسمبلیوں کی رکنیت کے لیے نااہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف کے بحیثیت صدرمسلم لیگ (ن) اس وقت سے اب تک کیے گئے تمام فیصلے بھی کالعدم قرار دے دیے گئے ہیں۔
نتیجتاً شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ، اس دوران ضمنی انتخابات میں کامیاب ہونے والے نواز لیگ کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اور اب سینیٹ کے امیدواران، سبھی کا مستقبل خطرے سے دوچار ہوگیا ہے، کیونکہ ان کی نامزدگیاں میاں صاحب نے کی ہیں۔ فیصلے کے مطابق آئین کی شق 17 کو شقوں 62 اور 63 کے ساتھ ملا کر پڑھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ آئین کی شق 17 کی ذیلی شق (1) کے مطابق ہر پاکستانی شہری کو تنظیم یا یونین سازی کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ اس پر مناسب وجوہ کی بنیاد پر پابندی عائد نہ کی گئی ہو۔
فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں اس وقت بیان بازیاں جاری ہیں۔ مختلف حلقے اپنی علمی بساط کے مطابق اس فیصلے پر تبصرے کررہے ہیں۔ کسی بھی عدالتی فیصلے پر رائے زنی ہر شہری کا حق ہوتا ہے۔ لیکن فیصلوں کے مضمرات، ان کی نزاکتوں اور موشگافیوں کو سمجھنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ خاص طور پر جب معاشرے میں ان گنت فکری ابہام چہار سو پھیلے ہوئے ہوں، تو معاملات و مسائل کا مزید پیچیدہ ہوجانا یقینی ہوتا ہے۔ جو کسی بڑے آئینی و قانونی بحران کو جنم دینے کا باعث بن جاتے ہیں۔ اس لیے عدالتی فیصلوں پر تبصرہ کرتے وقت اس کے تمام پہلوؤں اور ممکنہ اثرات کو مدنظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔
وطن عزیزکا معاملہ دنیا کے دیگر ممالک سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ یہاں سیاستدانوں اور ریاستی اداروں کے درمیان تناؤ اس لیے پیدا ہوا کہ وفاق کے طور پر وجود میں آنے والے ملک کو وحدانی ریاست بنانے کی خواہشات نے سیاستدانوں اور فیصلہ سازوں (بیوروکریسی) کے درمیان کھینچاتانی کو جنم دیا، جس کے نتیجے میں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کا نامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ جو سیاست کی بے توقیری اور اداروں پر عوامی بے اعتباری کی شکل میں ظاہر ہوا۔ آج معاشرہ جس افقی اور عمودی تقسیم کا شکار ہے، اس کا سبب بھی مقتدر اشرافیہ (سیاسی اور غیر سیاسی) کا دہرا اور منافقانہ رویہ ہے۔
اس ناقابل تردید حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ جمہوری طرز سیاست کے لیے حقیقی آوازیں سابقہ مشرقی پاکستان سے اٹھتی تھیں۔ جس سے ہمارے منصوبہ سازوں نے 23 برس بعد جان چھڑالی۔ باقی ماندہ پاکستان میں فیوڈل سیاستدان باقی رہ گئے، جو منصوبہ سازوں کے اشاروں پر رقص کرنے کے ماہر ہیں۔ ان سیاستدانوں نے ہر دور میں اقتدار میں رہنے کی خواہش میں سیاسی جماعتوں سے فکری اور نظریاتی تفریق بھی ختم کرادی۔
طلبا اور ٹریڈ یونین سیاست کو تقسیم کرکے بے اثر کرنے کا سلسلہ بنگلہ دیش کی آزادی کے فوراً بعد شروع کردیا گیا تھا۔ جس کی وجہ سے مڈل اور ورکنگ کلاس کے کیڈر کی سیاست میں آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ جو گماشتہ قسم کے مڈل کلاسیے اس دوران سیاست میں آئے، انھوں نے بھی اسٹبلشمنٹ اور فیوڈل سیاستدانوں کی کاسہ لیسی کا راستہ اختیار کیا۔ یوں سماجی ڈھانچے کے ساتھ سیاست کا بھی اساسی Fabric تقریباً ختم ہوگیا۔
اس تناظر میں وطن عزیز کے معاملات اور موجودہ صورتحال کا جائزہ لیاجائے، تو محسوس ہوگا کہ ریاستی ادارے اور سیاستدان ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ لیکن یہاں بھی سیاسی مفادات کو ترجیح حاصل ہے۔ اگر ایک طرف مسلم لیگ (ن) اور اس کی حلیف جماعتیں عدالتی فیصلوں اور مختلف ریاستی اداروں کے کردار پر تنقید کررہی ہیں، تو دوسری طرف تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سمیت کئی چھوٹی بڑی جماعتیں عدالتی فیصلوں کے حق میں بیان دے کر اداروں کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے تصادم کے تصور کو غلط ثابت کررہی ہیں۔
معاملہ یہ ہے کہ جس ملک میں جو سیاسی رہنما ماورائے عدالت قتل کرنے والی پولیس مافیا کے کل پرزے کو ''بہادر بیٹا'' قرار دیں، مقامی حکومتی نظام یعنی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی اس لیے مخالفت کریں کہ اس طرح ان کی فیوڈل بالادستی ختم یا کم ہوجائے گی، کیا انھیں جمہوریت کا چیمپئن سمجھا جائے؟ پھر اس جماعت کو جمہوریت کا محافظ کہیں، جو اپنے دور اقتدار میں پارلیمان کو بے توقیر کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ ملزمان کے ریمانڈ کو 7 یوم سے بڑھا کر 90 روز کردے اور فوجی عدالتیں قائم کرکے متوازی عدالتی نظام کھڑا کردے۔ یا پھر اس جماعت پر بھروسہ کریں، جو طالبان کو جنم دینے کا فخریہ دعویٰ کرنے والی مذہبی جماعت کے مدرسے کو خطیر رقم کا عطیہ دے اور سیاسی اتحاد قائم کرے۔
اس میں شک نہیں کہ کرپشن ایک ایسا ناسور ہے، جو ریاست کو کھوکھلا کردیتا ہے، مگر کرپشن میں صرف سیاستدان ہی ملوث نہیں، بلکہ نظم حکمرانی کی کمزوریوں اور احتساب کے غیر جانبدار اور شفاف میکنزم کی عدم موجودگی میں سبھی اس گنگا میں اشنان کررہے ہیں۔ اگر سیاستدانوں کے ساتھ سول اور ملٹری بیوروکریسی اور عدلیہ کو بھی احتساب اور جوابدہی کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تو نظم عدل پر اس طرح انگشت نمائی نہ ہوتی، جو اب ہورہی ہے۔
اگر عدلیہ نے جسٹس (ر) منیر سے حسٹس (ر) افتخار چوہدری تک خود کو سیاست کی دلدل میں دھنسانے کے بجائے میرٹ پر فیصلے کیے ہوتے اور عدالتی نظام میں اصلاحات لانے پر توجہ دی ہوتی، تو عوام عدلیہ کے ہر فیصلہ کو بسروچشم قبول کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔
مگر صرف ایک ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اِدھر اُدھر بھی نظر دوڑانی چاہیے اور دیکھنا چاہیے کہ کوتاہ بینی کس کس سے سرزد ہوئی ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت (2008ء تا 2013ء) میں جب رضاربانی کی سربراہی میں ایک پارلیمانی گروپ آمروں کی جانب سے آئین میں شامل کی گئی شقوں بالخصوص 62 اور 63 کی تنسیخ یا مناسب ترامیم کا معاملہ زیر بحث آیا، تو یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ میاں صاحب موصوف نے اس اقدام کی کھل کر مخالفت کی تھی۔
متوشش شہری یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ کیا جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کی جانب سے آئین میں کی گئی بیشتر ترامیم ہنوز آئین کا حصہ ہیں۔ اب یہ بھی واضح ہوجانا چاہیے کہ ان ترامیم کی تنسیخ یا ان میں مناسب ترامیم کی راہ میں کون رکاوٹ بنا؟
پھر عرض ہے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اداروں کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کا فقدان ہے۔ بھارت کی سیاسی جماعتوں نے ستر برسوں کے دوران کوشش کی کہ ان کی عدلیہ اور الیکشن کمیشن غیر متنازع رہے۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہی دو ادارے سب سے زیادہ متنازع ہیں۔ ان دونوں اداروں کی اگر وسیع البنیاد قومی مفاد میں تنظیم نو کردی جاتی، تو وہ ان گنت مسائل جو آج بحرانی شکل اختیار کرچکے ہیں، اس نہج تک نہ پہنچ پاتے۔ حیرت ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر 1955ء سے تنقید تو کی جارہی ہے، مگر کسی منتخب حکومت نے اس میں اصلاحات لانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔
یہی کچھ معاملہ الیکشن کمیشن کا ہے، جس پر 1977ء سے انگشت نمائی ہورہی ہے، مگر اصلاح احوال پر کسی بھی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اگر ایک آزاد اور بااختیار الیکشن کمیشن تشکیل دینے کی جانب پیش قدمی کی جاتی اور انتخابی اصلاحات کردی جاتیں، تو ہر الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں کو دھاندلی کا واویلا کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہمیں اپنے ملک کے وجود اور اس کی ترقی سے کوئی غرض نہیں ہے۔
سرد جنگ کے زمانے میں ہماری تزویراتی اہمیت کے پیش نظر امریکا نے ہمارے وجود کو قائم رکھا۔ اب چین گوادر پورٹ اور CPEC کی خاطر ہماری بقا کے لیے سرگرم ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ مگر ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم اپنے لیے کچھ نہیں کریں گے، بلکہ یونہی جوتیوں میں دال بانٹتے رہیں گے۔