میونخ سیکیوریٹی کانفرنس اور اسرائیل کا سیاسی سرکس

اسرائیل کی طرح دیگر اقوام کو اپنے دفاع کی خاطر اسرائیلی سیکیوریٹی چیلنج کرنے کا حق حاصل ہے


صابر ابو مریم February 26, 2018
میونخ سیکیوریٹی کانفرنس میں نیتن یاہو کی تقریر سن کر ایسا لگتا ہے جیسے اسرائیل نے سیاسی و جنگی میدانوں میں شکست تسلیم کرلی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

فروری کے مہینے میں میونخ میں بین الاقوامی سطح پر منعقد ہونے والی میونخ کانفرنس دنیا کے سیاسی حالات اور منظر نامے پر نئے نقش مرتب کرگئی ہے کہ جہاں دنیا بھر کے ممالک سے آئے ہوئے سرکاری اعلیٰ عہدیداروں نے دنیا کے امن و امان کو یقینی بنانے کےلیے مختلف آراء پیش کیں اور خطوں میں رونما ہونے والے واقعات و سیاسی معاملات کی طرف توجہ مبذول کروائی۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس کانفرنس میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے والی اور 1948 میں قائم ہونے والی جعلی ریاست اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی دنیا کی سیکیوریٹی سے متعلق تقریر کی۔ حیرت کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل ایک ایسی جعلی اور غاصب ریاست ہے کہ جس کا وجود ہی دہشت گردی پر مبنی ہے اور دنیا میں کون ایسا شخص ہے جو یہ بات نہیں جانتا کہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل گزشتہ ستر سال سے کس طرح انسانیت کی دھجیاں اڑانے میں مصروف عمل ہے۔ فلسطین کی بات کریں یا پھر فلسطین سے باہر گرد و نواح کے ممالک کی، ہر طرف اسرائیل ہی نظر آتا ہے کہ جس نے دیگر ممالک کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے اور خطے میں نت نئے انداز سے براہ راست اور دہشت گرد گروہوں بالخصوص داعش اور النصرۃ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی معاونت سے بالواسطہ کرتا ہے تاکہ خطہ غیر مستحکم رہے اور معصوم انسانوں کا خون ضائع ہوتا رہے۔

اب بات کرتے ہیں میونخ کانفرنس کی، کہ جہاں اسی جعلی اور ظالم ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے خطاب کیا۔ اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ سیکیوریٹی کے بغیر نہ تو امن ہے نہ ہی خوشحالی اور نہ ہی ہمدردی اور نہ ہی آزادی ہے۔ اب ذرا کوئی ان سے پوچھتا کہ جناب آپ تو خود دنیا کی سیکیوریٹی کےلیے سب سے بڑا خطرہ ہیں کیونکہ موساد نامی دہشت گرد قسم کی خفیہ ایجنسی تو آپ ہی کی ہے کہ جو نہ صرف فلسطین میں لوگوں کا قتل و غارت کرتی ہے بلکہ دنیا بھر کے دیگر ممالک میں ان کے دہشت گرد جا جاکر دوسرے ممالک کی اہم شخصیات کو اغوا اور قتل کرتے پھرتے ہیں۔

حال ہی میں ترکی سے لبنان کے جنوبی علاقے میں پہنچنے والے اسرائیلی موساد ایجنٹوں نے حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ہے جسے لبنانی سیکیوریٹی اداروں نے ناکام بنا دیا تھا۔ تو آپ اب کس منہ سے یہ باتیں کرتے ہیں؟ جبکہ وہ اسرائیل ہی ہے جس نے نہ صرف فلسطینیوں کی سیکیوریٹی کو تہس نہس کیا ہے بلکہ سیکیوریٹی سے مربوط وہ تمام موارد کہ جنہیں نیتن یاہو نے بیان کیا، یعنی فلسطینیوں کی آزادی بھی سلب کی گئی، انہیں ان کے بنیادی حقوق سے بھی محروم کیا گیا، ان کے ساتھ ہمدردی کرنے والوں کو بھی اسرائیل نے اپنا دشمن بناکر ان کے خلاف محاذ کھول رکھے ہیں۔

اس طرح کے کئی ایک موارد ہیں جو خود اسرائیل پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہیں لیکن شرم کی بات ہے کہ یہاں میونخ سیکیوریٹی کانفرنس میں آپ بھاشن دیتے نہیں تھک رہے؟

مزید بھاشن میں ایران پر الزام عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایران ہمارے خطے یعنی مشرق وسطیٰ میں اپنی بالادستی قائم کررہا ہے۔ حیرت کی بات پھر یہ ہے کہ نیتن یاہو کو معلوم ہی نہیں کہ مشرق وسطیٰ صہیونیوں کا خطہ ہونے سے پہلے عرب دنیا اور وہاں کے مقامی باشندوں کا خطہ ہے کہ جن کی نسل در نسل اس خطے میں چلی آرہی ہے۔ تو یہ صہیونی جو دنیا کے دیگر علاقوں سے نقل مکانی کرکے 1948 سے قبل یہاں پر لائے گئے تاکہ غاصب صہیونیوں کی سازش یعنی اسرائیل قائم ہوسکے، تو آج یہ کس منہ سے اس خطے کو اپنا کہتے ہیں؟ اور اگر مان لیجیے کہ اپنا خطہ ہے تو کیا کوئی اپنے خطے کے لوگوں کا قتل عام کرتاہے؟ کیا اسرائیل نے 1948 کے بعد سے 67 اور پھر متواتر 1975، 1982، 2006 اور 2008 سمیت مختلف مواقع پر اس خطے کے ممالک اور عوام پر جنگیں اور مظالم مسلط نہیں کئے؟ تو یہ خطہ کیسے نیتن یاہو کا ہوسکتا ہے؟

ماہرین سیاسیات کے مطابق جعلی ریاست اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو دراصل ایک عجیب سی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ مسلسل سیاسی و جنگی میدانوں میں اسرائیل کے حصے میں آنے والی شکست نے اسرائیلی تمام عہدیداروں کی ذہنی حالت و کیفیت کو متاثر کیا ہے اور یہی اثر نیتن یاہو کی جانب سے ہمیشہ بین الاقوامی فورمز پر ظاہر ہوتا ہے جس میں وہ ہمیشہ دشمنوں کی فتح کا خود اعلان کرتے ہیں۔ یہاں میونخ کانفرنس میں بھی نیتن یاہو نے ایسا ہی کیا ہے۔

تقریر کے دوران ایک ڈرون طیارے کے کچھ ٹکڑے ہاتھوں میں اٹھا کر نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ یہ ایرانی ساختہ ڈرون ہے جسے 10 فروری کو اسرائیل نے مار گرایا تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف اقدامات کیے جا رہے ہیں، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس طرح کے درجنوں ڈرون روزانہ کی بنیاد پر فلسطین اور غزہ کی پٹی اور اسی طرح لبنان کے جنوبی علاقوں سے پرواز بھرتے ہیں اور غاصب صہیونیوں کے ناقابل تسخیر ہونے اور ان کی فضائی برتری کے دعووں کو چکنا چور کرتے ہیں کیونکہ جب اسرائیل خطے میں موجود دیگر ممالک کے عوام پر ظلم و ستم کرتا ہے یا پھر ان کے ممالک میں گھس کر فوجی کاروائیاں انجام دیتا ہے اور دوسرے ملکوں کی اہم شخصیات کو دہشت گردی کا نشانہ بناتا ہے تو پھر خطے کی دیگر اقوام اور حکومتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں اور اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو خاک میں ملانے کےلیے تمام جنگی حکمت عملیوں سے استفادہ کریں۔

بہرحال نیتن یاہو کی تقریر میں مسلسل ایران، ایران اور ایران کی بات سن کر ایسا لگتا ہے جیسے اسرائیل نے سیاسی و جنگی میدانوں میں شکست تسلیم کرلی ہے۔

دوسری طرف ایران کے وزیر خارجہ نے میونخ کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران بڑے اطمینان کے ساتھ مسکراتے ہوئے نیتن یاہو کو ایک کارٹونسٹ سرکس کا لقب دیا اور کہا کہ نیتن یاہو کی الزام تراشیوں اور اس طرح کے ڈرون کے ٹکڑے دکھانا کسی سرکس سے کم نہیں۔

بہرحال، نیتن یاہو کی جانب سے دکھائے جانے والے ایرانی ساختہ ڈرون کے بعد دنیا کو یہ اندازہ بھی ہوچکا ہے کہ ایران فلسطین کے عوام کی کس حد تک مدد کرنے میں مصروف ہے۔ یعنی فلسطین کی عوام و مزاحمتی تحریکوں کو اسرائیل کے مقابلے میں اپنا دفاع کرنے کےلیے نہ صرف ایران مالی مدد کر رہا ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھی فلسطینیوں کو خود کفیل کررہا ہے جس کا ثبوت اس طرح کے متعدد ڈرون طیاروں کا غاصب اسرائیلی فضاؤں میں پرواز کرنا ہے۔

نہ صرف فلسطین و دیگر خطوں سے ڈرون بھیجے جاتے ہیں بلکہ فلسطینیوں نے اب اسرائیلی ڈرون طیاروں کو مار گرانا بھی شروع کردیا ہے۔ اس طرح کے چند ایک واقعات گزشتہ برس بھی رپورٹ ہوئے جبکہ ایسے ہی واقعات فلسطین کی سرحدوں پر واقع دیگر ممالک کی طرف سے بھی سامنے آئے ہیں کہ جب اسرائیل کی طرف سے ان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کے جواب میں اسرائیلی ڈرون طیاروں کو مار گرایا گیا۔ حال ہی میں شام کی فضائی حدود میں اسرائیلی ایف سولہ طیاروں کو نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک ایف سولہ طیارہ گر کر تباہ بھی ہوا۔ اس کا بھی شاید اسرائیل کو شدید رنج و الم ہے اور دنیا پر آشکار ہو چکا ہے کہ اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کھوکھلے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ اگر جعلی ریاست اسرائیل، فلسطین سمیت خطے کی دوسری اقوام کے خلاف جنگیں مسلط کرنے اور ان کے حقوق کی خلاف ورزیاں کرنے اور ان ممالک کی حدود میں داخل ہونے سمیت دوسروں کی سیکیوریٹی کو چیلنج کرسکتی ہے تو پھر فلسطین و لبنان و شام و عراق و مصر اور دیگر تمام اقوام کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنے دفاع کو بہتر بنانے کےلیے اسرائیل کی سیکیوریٹی کو چیلنج کریں۔ نیتن یاہو کی جانب سے ایرانی ساختہ ڈرون کے ٹکڑے دکھا کر سرکس کرنا ایک طرف ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اسرائیلی دشمن نے اپنے دشمن کی برتری کا خود اعلان کردیا ہے کیونکہ اگر وہ ڈرون کا ٹکڑا ایرانی ساختہ بھی تھا تو کیا وہ ایران سے چل کر اسرائیل کی حدود تک آیا؟ یقیناً ایسا نہیں ہوا ہوگا۔

کیونکہ اب خطے کی دیگر اقوام غیرت مندی اور شجاعت کے ساتھ اپنی عزت و ناموس کے دفاع میں سرگرم عمل ہیں اور اس معاملے میں فلسطین کی شجاع و ثابت قدم قوم نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر محاذ پر اسرائیل کا مقابلہ کرنے کےلیے تیار ہے۔ پس اسرائیل چونکہ ایک جعلی و غاصب ریاست ہے اس لیے خطے سمیت دنیا کا امن اب اسرائیل کی نابودی سے مشروط ہوچکا ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ظالموں کو نابود کرکے ہی رہے گا؛ اور وہ لوگ جنہیں مظلوم تر بنا دیا گیا ہے، انہیں اس زمین پر حاکم قرار دے گا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔