یادرفتگاں مولانا ابوالکلام آزاد
کانگریس پارٹی میں مولانا کو جو مقام حاصل تھا وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔
دن تو مجھے یاد نہیں البتہ یہ بات ابھی تک میرے ذہن میں محفوظ ہے کہ وہ 21 اور 22 فروری 1958 کی درمیانی شب تھی جب مولانا ابوالکلام آزاد نے نئی دہلی میں اپنی رہائش گاہ پر اس دارفانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کیا تھا۔ میں ان دنوں دہلی کالج میں بی۔اے فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا جہاں ہندوستان کے نامور ماہر تعلیم اور منفرد براڈ کاسٹر مرزا محمودبیگ پرنسپل ہوا کرتے تھے جن کے مولانا سے ذاتی مراسم تھے۔
مولانا کی رحلت کی اندوہناک خبر آناً فاناً پورے ہندوستان میں پھیل گئی اور دارالخلافہ دہلی تو گویا سوگ میں ڈوب گیا۔ مولانا کے سانحہ ارتحال کی خبر سنتے ہی سوگواروں کا ایک تانتا سا بندھ گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ نئی دہلی میں واقع مولانا کی کوٹھی کے باہر اکٹھے ہوگئے۔ مولانا کے چاہنے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر مذہب اور ہر عقیدے کے لوگ شامل تھے جن میں ہندو اور سکھ بھی تھے اور عیسائی اور پارسی بھی۔ صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد، نائب صدر ڈاکٹر رادھا کرشن اور وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو سمیت تمام عمائدین سراپا گریہ والم تھے۔
دوپہر کے تقریباً پونے ایک بجے جب مولانا کا جنازہ اٹھایا گیا تو گویا ایک کہرام برپا ہوگیا۔ پہلا کندھا عرب ملکوں کے سفارت کاروں نے دیا اور ہر طرف کلمہ شہادت کی صدائیں فضا میں گونج اٹھیں، فرط غم سے وزیر اعظم نہرو کی ہچکی بندھ گئی ۔اور صدر ہندوستان ڈاکٹر راجندر پرشاد نے اپنی کپکپاتی ہوئی آواز میں کہا کہ ''آج 38 سال کی دوستی کا انت ہوگیا۔''
کانگریس پارٹی کے ایک اور سرکردہ رہنما پنڈت گووند ولبھ پنتکا کہنا تھا کہ ''مولانا جیسے لوگ پھر کبھی پیدا نہ ہوں گے'' بھارتی افواج کے سربراہ جنازے کے دائیں بائیں تھے اور جب مولانا کے جنازے کا جلوس انڈیا گیٹ اور ہارڈنگ برج سے ہوتا ہوا کشمیری گیٹ سے گزر کر دریا گنج کے علاقے میں داخل ہوا تو ہر طرف سے پھولوں کی موسلا دھار بارش کا سماں تھا۔ بالآخر جب مولانا کی میت دہلی کے تاریخی لال قلعہ اور جامعہ مسجد کے درمیان ان کی آخری آرام گاہ پر لائی گئی تو دور دور تک انسانوں کے سر ہی سر نظر آرہے تھے۔ یہ انسانوں کا ان گنت ہجوم نہیں بلکہ سوگواروں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا جو سرا سر بے کنار تھا۔
میری آنکھوں میں وہ ناقابل فراموش منظر آج بھی اسی طرح تروتازہ ہے جب ٹھیک دو بج کر پچاس منٹ پر مولانا احمد سعید دہلوی نے مولانا آزاد کی نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور اس کے بعد انھیں اپنے دست مبارک سے لحد میں اتارا اور اس کے ساتھ ہی تاریخ ہند کا ایک اہم اور عظیم باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ مولانا کے سیاسی نظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی عظمت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
وہ صبرو استقامت کا ایک کوچہ گراں تھے۔ ان کی زندگی میں بھی ان کے خلاف بہت کچھ کہا گیا مگر انھوں نے غیر معمولی ضبط و تحمل کا مظاہرہ کیا اور صبر کا دامن کبھی اپنے ہاتھوں سے نا چھوڑا۔ان کی اور ابن تیمیہ کی زندگی میں ایک عجیب وغریب مماثلت موجود ہے ۔ جو ان کی وفات کے بعد بھی دیکھائی دیتی ہے،یعنی جس طرح ابن تیمیہ کی موت کے بعد ایک عالم غم گسار تھا اسی طرح مولانا کے انتقال پر بھی ہر آنکھ اشکبار تھی۔
یہ ہماری بہت بڑی خوش نصیبی ہے کہ مولانا کی قبر پر مٹی ڈالنے والوں میں ہم بھی شامل تھے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد 11 نومبر 1888 کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے اور دس سال کی عمر میں 1898 میں ہندوستان کے شہر کلکتہ میں وارد ہوئے جو اب کول کتہ کہلاتا ہے۔ 14 سال کی چھوٹی سی عمر میں آپ نے رسالہ ''لسان الصدق'' جاری کیا جو آپ کی خداداد صلاحیت اور علمیت کا بہت بڑا ثبوت ہے۔ 1912 میں آپ نے اردو اخبار ''الہلال'' جاری کیا جو اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ 1914 میں برطانوی حکومت نے ''الہلال '' کی ضمانت ضبط کرلی ۔ جس کے بعد آپ نے اخبار ''البلاغ'' کا اجرا کیا۔
1920 میں دہلی میں مولانا کی گاندھی جی سے پہلی مرتبہ ملاقات ہوئی جن کی قیادت میں تحریک عدم تعاون میں حصہ لینے کی پاداش میں انھیں گرفتار کر لیا گیا اور دوسال قید کی سزا ہوئی ۔ستمبر1923میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس منعقدہ دہلی کے صدر ہوئے اور پھر 1930 میں کانگریس کے قائم مقام منتخب کیے جانے کے بعد گرفتار کرلیے گئے اور 1932 تک جیل کاٹی۔ اس کے بعد 1937 میں کانگریس پارلیمنٹری سب کمیٹی کے ممبر ہوئے اور 1940 میں کانگریس کے صدر چنے جانے کے بعد 1946 تک اسی عہدے پر فائز رہے۔
کانگریس پارٹی میں مولانا کو جو مقام حاصل تھا وہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوا۔ ان کے رعب اور دبدے کا یہ عالم تھا کہ اچھے اچھوں کا پتا ان کے آگے پانی ہوتا تھا اور ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے بڑے کانگریسی رہنماؤں کی بولتی ان کے سامنے بند ہوجاتی تھی۔
انتہا تو یہ ہے کہ جب وہ وزیر تعلیم تھے تو وزیر اعظم نہرو تک ان سے وقت طے کرکے ملاقات کیا کرتے تھے۔ نہرو کا کہنا ہے کہ ''مولانا کے علم اور مطالعے کے سامنے مجھے اپنا علم دریا کے سامنے پانی کا ایک قطرہ دکھائی دیتا ہے'' عبدالرزاق ملیح آبادی رقم طراز ہیں کہ ''ایک دن ایسا ہوا کہ کوئی پانچ بجے شام گاندھی جی اچانک آپہنچے، میں نے ان کا استقبال کیا اور دوڑ کر مولانا کو اس کی خبر کی۔ انھوں نے سنا، مگر جیسے سنا ہی نہیں۔ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ فرمایا ''ان سے کہہ دیجیے کہ میں اس وقت ان سے ملنے سے معذور ہوں۔ کل نو بجے تشریف لائیں'' عرض کیا ''غور فرمالیجیے، کیا یہی پیغام پہنچادوں؟'' کسی قدر تیکھے تیوروں سے فرمایا ''اور کیا؟ گاندھی جی میں سرخاب کے پر تو نہیں لگے۔''
مولانا آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا ناممکن کی جستجو کے مترادف ہے۔ وہ تحریروتقریر دونوں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ تھے۔ وہ حکمت میں عقدہ کشا، سیاست میں صاحب تدبیر، حکومت میں فیض ذیشان اور بزم میں صاحب علم و کمال تھے۔ ان کی یادداشت کا عالم یہ تھا کہ لاکھوں اشعار انھیں زبانی یاد تھے۔ ان کی بے مثل شخصیت قدیم و جدید اقدار کا حسین سنگم تھی۔ بصیرت کے اعتبار سے بھی مولانا کا کوئی ہمسر و ثانی نہیں تھا۔ اس حوالے سے ان ہی کے منہ سے نکلا ہوا یہ فقرہ یاد آرہا ہے کہ ''تم لوگ پانی اور کیچڑ کو دیکھ کر بارش کا یقین کرتے ہو، میں اس کو ہوا میں سونگھ کر جان لیتا ہوں۔''
بلاشبہ مولانا کا شمار ان چند برگزیدہ ہستیوں میں ہوتا ہے جو اپنے عہد سے کہیں زیادہ بڑی تھیں، بلکہ عہد ساز تھیں۔