مافیا

آمریتوں اور جمہوریتوں کی مافیا! اٹلی کے اندر یہ مافیا بنا تھا جس کو سسلین مافیا کہا جاتا ہے۔


جاوید قاضی March 01, 2018
[email protected]

یوں تو بہت نازک نکتہ ہے لیکن کہنا پڑتا ہے۔ ہماری جمہوریت کو اندر سے دیمک چاٹ رہی ہے، شاید تمام دنیا کا یہی حال ہے، امریکا جیسا ملک جہاں سوا دو سو سال سے جمہوریت راج کر رہی ہے، آج ٹرمپ کے ہتھے چڑھ چکی ہے۔ یورپ میں ان کے اپنے بیانیے سے بیماریاں جڑ پکڑ رہی ہیں اور اس طرح جمہوریت تاریخ کے اس موڑ پر ہے کچھ ایسے جیسے راستے بھول گئی ہو۔

ہماری جمہوریت کا ماجرا کچھ اور ہے اور یہ بات مجھے اور واضح نظر آئی جب احد چیمہ چیئرمین ایل ڈی اے نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوئے۔ یہ بات بھی اتنی اہم نہ تھی جو بات اہم ہے وہ یہ کہ پنجاب میں ڈی ایم جی گروپ کے افسران (جوکہ اب نئے نام سے پہچانے جاتے ہیں) انھوں نے ہڑتال کی دھمکی دے دی۔ ایسی دھمکی دینے کا ان افسران کا مینڈیٹ نہ تھا۔

ہماری بیوروکریسی کی بھی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ انگریزوں کی دریافت ہے،انھی کی بنیاد ہے، انھی کا تسلسل ہے اور ان تمام کے پیچھے جو اصول کارگر تھے یہ اس کا پھیلاؤ ہے۔ آمر ہو یا کامل یہ ان کی جڑوں میں بیٹھ جاتی ہے۔ آمر چلے جائیں، کامل بھی چلے جائیں یہ وہیں رہتی ہے۔

یہ ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یہ وہ عمل بھی سیاستدانوں کو پڑھا دیتی ہے جس کا شاید ان کو علم بھی نہ۔ یوں کہیے کہ طریقہ واردات سکھاتی ہے۔ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مال بھی بناؤ اور کوئی گواہ بھی نہ ہو۔ احد چیمہ جیسے افسران آخرکار صوبائی حکومتوں میں کس طرح داخل ہوتے ہیں؟ وفاق کی طرف سے اور وفاق میں کون ہیں؟ وہ ہی ہیں جن کی حکومت ہے۔ بات احد چیمہ کی بھی نہیں وہ ایک فرد ہے، فقط ایک فرد۔ بات ہے سسٹم کے اندر بگاڑ کی۔ احد چیمہ نہ ہوتا تو شاید کوئی اور ہوتا۔ ان کے اوپر ایک خاص نظر عنایت تھی اور ان کی، ان کے اوپر مہربانیاں تھیں اور اربوں روپے کے ٹھیکے کیسے دیے جاتے ہیں یہ توکوئی ٹھیکیدار ہی بتا سکتا ہے۔

معاملہ پنجاب کا بھی نہیں۔ شہباز شریف کا لاہور ٹرین پراجیکٹ جون کے مہینے میں اپنا کمرشل آپریشن شروع کر دے گا۔ اس پروجیکٹ پر اگر ہائی کورٹ کا حکم امتناع نہ ہوتا تو یہ دو سال میں مکمل ہو جاتا۔ مراد علی شاہ کا پروجیکٹ کراچی پنجاب چورنگی، دو سال ہوچکے مکمل نہ ہوسکا اور ایسی کئی چیزیں سندھ حکومت کی گنوائی جاسکتی ہیں جو کہ ترقیاتی کاموںکے نام پر ہورہی ہیں اور مسلسل ہورہی ہیں، زمینوں پر قبضے کی مافیا سرگرم ہے۔ اور اس میں ایک راؤ انوار ملوث نہیں کئی راؤ انوار ہیں۔ پٹواری سے لے کر کمشنرز تک اس گیم میں ملوث ہیں۔

یہ سارے سروے نمبرز انگریزوں کے بنائے ہوئے ہیں اور یہ تمام عہدے اور ان کی ترتیب بھی انگریزوں کی دی ہوئی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ وڈیرے، ان کے ڈیرے اور ان کی جاگیریں سب انگریزوں کی عنایات ہیں۔ ایک غلامی در غلامی ہے جو شعور سے لاشعور بن چکی ہے۔ ہندوستان کو 14 اگست 1947 ء کو آزادی ملی تھی ہمیں نہیں۔ ہم اس دن آزاد ہوکر پھر غلام بنے، سرد جنگ کے غلام۔

سندھ کے اندر سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا جوگٹھ جوڑ ہے اپنی مثال آپ ہے اور یہ ہے ہماری جمہوریت کا سوال کہ بیوروکریسی آزاد ہے۔ سیاستدان کے پاس ایک ایسی پاور ہے جو اس بیوروکریسی کی مجبوری ہے وہ تبادلے کی پاور۔ پروموشن بھی میرٹ پر ہو جائے گا مگر تبادلہ سیاستدانوں کی مرضی اور استحقاق سے ہے۔ یہی سیاستدان کی زندگی ہے اور میراث بھی اگر سیاستدان سے تبادلے کی پاور چھین لی جائے تو یہ اس کی موت ہے، اگر افسرکا تبادلہ میرٹ پر ہو تو ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑی نوید ہوگی۔

افسران کا تبادلہ کہاں کرنا ہے وہ سیاستدان کی صوابدید پر ہے لیکن کیا وہ اس صوابدید کو امانت سمجھتا ہے، مگر پھر بھی دونوں صورتوں میں خیانت ضرور کرتا ہے۔ راؤ انوار کا تبادلہ ملیر میں کس نے کیا اور اسی طرح کے چھوٹے بڑے تبادلے کون کرتا ہے اور کیوں کرتا ہے۔ یہ وہ سوال ہیں جن کے جوابات شاید آپ جانتے بھی ہیں۔

اس وقت جو موجودہ کرپشن ہے وہ بہت مختلف نوعیت کی ہے اگر اس کو تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے۔ یہ وہ کرپشن بھی نہیں جیسا کہ ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے سیاستدانوں پرکرپشن کے الزامات لگائے۔ یہی کام ضیاء الحق نے بھی کیا اور مشرف نے بھی ۔جب کہ ان آمروں کے اپنے کردار اس کرپشن سے پاک نہیں تھے۔

ان تمام ادوار میں وہ ہی اشرافیہ تھی جو آمروں کے ساتھ بھی تھی اور جمہوریت کے ساتھ بھی۔ یہی بیوروکریسی تھی جو آمروں کے ساتھ بھی تھی اور جمہوریت کے ساتھ بھی۔ تو پھر بدلاؤ کیا آیا ؟ بدلاؤ صرف یہ آیا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار مسلسل تین بیلٹ باکس ہونے جارہے ہیں تو سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا گٹھ جوڑ بھی اور مضبوط ہوگیا ہے۔ کل کی بیوروکریسی میں جو بٹوارہ تھا یعنی آمروں کے دور میں بیوروکریٹس الگ تھے اور جمہوریت میں بیوروکریٹس الگ تھے وہ بٹوارہ بھی اب ختم ہوچکا ۔ کیا ہم اس کو ایک مافیا کی شکل میں نہیں دیکھ رہے۔

آمریتوں اور جمہوریتوں کی مافیا! اٹلی کے اندر یہ مافیا بنا تھا جس کو سسلین مافیا کہا جاتا ہے اور اس مافیا کا لیڈر کوئی اور نہیں بلکہ خود اٹلی کا وزیراعظم ہے۔ اسی طرح لاطینی امریکا کے ملک کولمبیا میں بھی ڈرگ مافیا نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا ، مگر یہاں قصہ کچھ اور ہے ۔ ہمارے سیاستدانوں اور افسر شاہی کا آپس میں گٹھ جوڑ کچھ اور نوعیت کا ہے ۔ ہماری جمہوریت کی کمزوری کی ایک وجہ ہے Electables یعنی وہ حلقے جہاں کا ووٹر اپنی آزاد رائے کی بناء پر ووٹ نہیں دیتا۔

ایک نیم سی غلامی ہے جو مسلط ہے اور جو ووٹر بیانیے کے بنیاد پر ووٹ دیتا ہے تو ہمارا بیانیہ بھی مضبوط نہیں اور مضبوط اس لیے نہیں کیونکہ ہم نے اپنی تاریخ کو بری طرح مسخ کیا ہے اور یہی مسخ شدہ تاریخ ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ ہم اپنے بیانیے کے تسلسل میں بہت کچھ کھو چکے ہیں ۔

میاں نواز شریف کا سکہ جس سینٹرل پنجاب میں چلتا ہے یہاں وہ بیانیہ ہے جس کی شروعات جنرل ضیاء الحق کی آمریت سے ہوتی ہے۔ رانا ثناء اللہ کل لشکر جھنگوی کے ساتھ فوٹو کھنچواتے تھے اور آج عمران خان جامع حقانیہ کو ساٹھ کروڑ کا سرکاری فنڈ فراہم کر رہے ہیں، لیکن زرداری صاحب تو ایک قدم اور آگے ہیں ۔ انھوں نے تو بیانیہ کے وجود کو ہی روند ڈالا۔ روٹی کپڑا اور مکان کے نعرے کا مطلب ہی بدل ڈالا۔

مختصر یہ کہ ہماری جمہوریت ایک نئے دوراہے پر ہے۔ آمریت کا وجود اب نہ رہا۔ عدالتیں جوڈیشل ایکٹوازم کررہی ہیں مگر یہ جوڈیشل ایکٹو ازم اگر حد سے گذر جائے تو سپریم کورٹ کے لیے بدنامی کا باعث بن سکتا ہے ۔ مطلب یہ کہ کوئی بھی شارٹ کٹ نہیں ۔ ایک خوبصورت تبدیلی اس ملک میں تب آئے گی جب ہمارا ووٹر میچیور ہوگا۔ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو ان سیاستدانوں کے آڈٹ کے طور پر استعمال کرے گا۔

اٹھو اب ماٹی سے اٹھو

جاگو میرے لعل

توری سیج سجاون کارن

دیکھو آئی رین اندھیاری

( فیضؔ)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں