’’ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا‘‘

پرانے زمانے میں جملوں میں بہت سے محاوروں اور ضرب الامثال کوکھپانا دشوار ہوتا تھا۔


Shehla Aijaz March 01, 2018

KARACHI: بچپن میں یہ ایک مشکل مرحلہ سمجھا جاتا تھا جب ضرب الامثال اور عادات کو جملوں میں استعمال کرنا پڑتا تھا، اردو کے مضمون میں یہ بچوں کے لیے ٹیڑھی کھیر بن جاتی تھی۔ مثلاً بغل میں بچہ شہر میں ڈھونڈورا، چراغ تلے اندھیرا، بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا، خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، بلی کو چھیچھڑوں کی رکھوالی، مدعی سست گواہ چست، ساجھے کی ہنڈیا چوراہے میں پھوٹتی ہے اور دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

اس پر یہ بھی طرہ کہ جناب محاورے یا ضرب الامثال کو پورا اور صحیح انداز سے استعمال کیا جائے اور جو اچھی طرح سے جملوں میں استعمال کر لیتا تھا، اسے شاباشی کے ساتھ ستارے بھی ملتے تھے۔ بچپن بھی کیسا زمانہ ہوتا ہے، معصوم بچے سرخ رنگ کی روشنیائی سے ٹیڑھے میڑھے ستاروں پر ہی پھول جایا کرتے تھے۔

پرانے زمانے میں جملوں میں بہت سے محاوروں اور ضرب الامثال کوکھپانا دشوار ہوتا تھا، کیونکہ حالات و واقعات اس قدرکہ ناگفتہ بہ ہواکرتے تھے جتنے کہ آج کل کے دور میں ہیں۔ آج کل کے زمانے میں کھٹاکھٹ جملے بن جاتے ہیں۔ مثلاً بغل میں بچہ شہر میں ڈھونڈورا کو ہی لیں۔ اس میں ہمارے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نگینے کی مانند فٹ بیٹھتے ہیں۔

ریحام خان سے بے وفائی یا کچھ بھی سمجھ لیں کے بعد خان جی کو اپنی سیاسی مصروفیات کے باوجود بھی ایک ایسے جیون ساتھی کی ضرورت تھی جو نہ صرف ان کے گھرکی دیکھ بھال کرسکے بلکہ ان کی رہنمائی بھی کرسکے۔ ایسے میں ایک خوبصورت خاتون نے ان کے لیے خوبصورت لڑکیاں دیکھنا شروع کردیں یہ بھی عجب بات ہے کہ ان دو ڈیڑھ برسوں میں کوئی لڑکی بھی نہ بچی اور بات ان کی نئی خوبصورت، وفا شعار اور دیندار بیوی پر ختم ہوئی۔ یعنی بغل میں بچہ اور شہرمیں ڈھونڈورا ہی تھا۔

ہماری ایک معروف اداکارہ جو پہلے ٹی وی ڈراموں میں کثرت سے نظر آتی تھیں اور اب جب ہماری فلمی صنعت نے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا کی مانند ڈراما انڈسٹری کو تھام ہی لیا ہے تو وہ معروف اداکارہ کئی فلموں میں نظر آچکی ہیں جیسا کہ آج کل ہونٹوں کو موٹا کروانے کا انجکشن لگوانے کا فیشن چل پڑا ہے تو ان معروف اداکارہ نے بھی خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑلیا اور ہونٹ موٹے کرواکر نئے انداز سے فلمی ستارہ بن کر چمک رہی ہیں کچھ ہی دن گزرے کہیں پڑھا تھا کہ موصوفہ اس قدر قابل ہیں کہ نہ صرف اداکاری میں بلکہ لیکچرز میں بھی کافی ماہر ہیں۔

انھوں نے غالباً لندن میں کسی ادارے میں پاکستانی خواتین کی سرگرمیوں اور فعالیت پر خوب ہی لکچر اس کو پلایا۔ انھوں نے مرحومہ معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر پر بھی خوب روشنی ڈالی۔ موصوفہ کا کہنا تھا کہ عاصمہ مرحومہ اس قدر نڈر بہادر تھیں اور بہت کچھ یہاں تک کہ ان کے جنازے میں بھی خواتین نے شرکت کی اور ایک معروف اداکارہ کے اتنا کچھ کہنے کے بعد ہمارا ہی کیا بہت سے لوگوں کا منہ حیرت سے کھل گیا ہوگا کیونکہ بقول ان کے یہ ایک اچھا رواج ہے۔

یہاں بہت سے ضرب الامثال کھولے جاتے ہیں پھر بھی بندر کیا جانے ادرک کا سواد والی بات ہوئی ناں۔ خدا کرے انھیں اور بہت سے لوگوں کو ادرک کے سواد کی بھی سمجھ آئے۔ غالباً پردیس میں لیکچر کا اس قدر غلبہ چڑھ گیا ہوگا کہ وہ بہت سی باتیں بھول گئی ہوںگی اور انھیں صرف اتنا ہی یاد رہا ہوگا کہ کہیں یہ لندن کے فرنگی پاکستانی خواتین کو ہلکا نہ لیں۔ پر اس چکر میں بی بی نے وزن کچھ اس طرح بڑھایا کہ گنجی کبوتری محلوں میں ڈیرہ والی بات ہوئی۔

لیجیے اور سنیے صابن والوں نے بھی ایوارڈز خوب ترتیب دیے اور اس بار پھر ہمایوں سعید کو ایک ایوارڈ تھمادیا ویسے احد رضا بھی اچھا فنکار ہے اور فن کار کا بیٹا ہے لیکن نعمان اعجاز بھی کسی سے کم نہیں ہر کردار میں خوب جمتے ہیں لیکن کہتے ہیں ناں کہ گھرکی مرغی دال برابر والی بات۔ اتنا بہترین فنکار لیکن چند بڑے بڑے فنکاروں کے ناموں میں سے ہمیشہ نعمان اعجاز کا نام ہی کیوں لڑھک جاتا ہے۔

خدا جانے کن لوگوں کو ایوارڈ حاصل کرنے والوں کی قرعہ اندازی پر لگایا ہے ہمیں تو لگتا ہے کہ بلے کو دودھ کی رکھوالی سونپ کر بہت سے فن کاروں کو ناراض کر دیاگیا ہے تب ہی ہر کردار میں جچنے والے نعمان اعجاز بھی ناراض سے ہیں اور چڑیوں والی ٹیوں ٹیوں میں کہتے ہیں کہ جب ایوارڈ دینا نہیں آتا تو کیوں دیتے ہیں۔ خدا جانے کیوں دیتے ہیں۔ دیکھیے یہ ساجھے کی ہنڈیا بھی چوراہے میں کب پھوٹتی ہے۔

دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے پر پھر بھی بات نہ بنی کیوںکہ مسلم لیگ ن کی سینیٹ کے انتخابات کے بارے میں نیوز نیوز ہی ہوگئی آپس کی بات ہے پاکستان کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں جمہوریت کب اور کتنے دن چلی ہے لیکن پھر بھی پیپلزپارٹی والے اور مسلم لیگ والوں نے خوب کر دکھائی اور جمہوریت کی کشتی کو یہاں تک پہنچا ہی دیا کہتے ہیں ناں کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ لیجیے تالی کے حوالے سے یاد آیا کہ ان دنوں متحدہ میں بھی نئے نئے مسائل ابھر ابھر کر سامنے آرہے ہیں اور دو گروپس جن میں پی آئی بی اور بہادر آباد گروپس کا نام خود بخود مل گیا کہ ان کے علاقوں کے لحاظ سے نام بھی نگینے کی طرح فٹ بیٹھ گئے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بہادر آباد اور پی آئی بی کے درمیان ایک جیل چورنگی ہے جس کے ساتھ قدیم جیل خانہ ہے اب پی آئی بی والے بہادر آباد کی جانب جانا چاہیں تب بھی اور اگر بہادر آباد والے پی آئی بی والوں کی جانب آنا چاہیں تب بھی راستہ جیل چورنگی سے ہی گزرتا ہے۔ دونوں گروپ امیدوار ہیں اور رضا کار امید کی نظروں سے دونوں جانب دیکھ رہے ہیں کہ بیل کس جانب منڈھے۔

سنا ہے صابن والوں کے فنکشن میں ہماری میراں جی آئیں تو سب لوگوں نے آگے بڑھ کر ان کو خوش آمدید کہا میرا خوش ہوگئی کہ اب بھی ان کے انڈسٹری میں چانس ہیں اور ابھی میرا کو شادی بھی کرنا ہے گو ان کا بچپن ابھی تک گیا نہیں اور شادی کے امیدوار بھی یہ کہہ کر دوڑ لگا گئے کہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔ ہاں تو بات ہورہی تھی میراں کی اور ان کی خوش فہمی کہ اتنے میں اچانک ماہرہ خان کی آمد ہوگئی جنھیں شاہ رخ خان کے ساتھ کام کی وجہ سے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے بس جی میرا کو چھوڑ ماہرہ کی طرف پکڑ۔ میراں پکارتی ہی رہ گئی اور سارے کیمرے اور روشنیاں ماہرہ کی طرف۔

حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں