جناب اصل پاکستان تو یہ ہے
سوال ہے کہ یہ ملک کن لوگوں کے ہاتھوں میں جاچکاہے۔
بابرمسیح لاہورمیں رہنے والاایک عام ساانسان تھا۔ سانس لینے والاپتلاجسکی کسی قسم کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔اس طرح کے کروڑوں لوگ اس ملک میں بے وجہ زندہ ہیں۔ خوشی اورکسی غم کے بغیر،صرف اورصرف سانس لینے پرقادر۔ بابرمسیح،شادمان سے منسلک کچی آبادی میں رہتا تھا۔
شادمان لاہورکاایک انتہائی خوشحال علاقہ ہے۔اس میں موجود مارکیٹ میں ماہانہ اربوں روپوں کی شاپنگ ہوتی ہے۔چمکتی ہوئی گاڑیوں سے باہرنکلتے ہوئے مرداور خواتین،اکثراشیاء کا نرخ نہیں پوچھتے۔بل اداکرتے ہیں۔ اسٹورزکے ملازم بڑے ادب سے سامان گاڑی میں رکھتے ہیں۔ پھر سو، دو سو بخشیش وصول کرکے زورسے سلوٹ مارتے ہیں۔
لاہور کے تمام خوشحال علاقوں میں اس طرح کی مارکیٹیں اور بازار موجود ہیں۔مگربابرمسیح کی قسمت میں تو کسی قسم کی کوئی سطحی خوشحالی یاخوشی کانام ونشان نہیں تھا۔کچی آبادی کے اندر دو مرلے کے مکان میں مقیم یہ شخص محنت مزدوری کرتا تھا۔ شادی شدہ تھااورچاربچے بھی تھے۔دوبیٹے اور دو بیٹیاں۔ مفلوک الحالی پورے گھرکوگرفت میں لے چکی تھی۔
غربت کی نظرنہ آنے والی چکی بابرمسیح،بیوی اوربچوں کو پیس چکی تھی۔کچھ عرصہ پہلے،بیوی نے کسی چیزکاتقاضہ کیا۔ بابرکے پاس زہرکھانے تک کوپیسے نہیں تھے۔مزدوری بھی نہیں مل رہی تھی۔ہرطرف فاقے ہی فاقے تھے۔کچھ سمجھ نہ آیاکہ کیاکرے۔
ویسے،اس ملک میں غریب آدمی کی بساط ہے ہی کیا۔کسی بھی معاملہ پراسکاکوئی اختیار نہیں۔ ہمارا منافق معاشرہ،ویسے ہی غریب کامذاق اُڑاتا رہتا ہے۔ باتوں کی حدتک غریبوں کی زندگی بہت بہترہوچکی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آٹھ ہزارسے لے کربارہ ہزارماہانہ پر لاہور میں نوکریانوکرانی آرام سے مل جاتے ہیں۔ان ملازمین کی تنخواہ اس ظالمانہ حدتک کم ہے کہ تصورسے باہرہے۔دس پندرہ ہزارمیں یہ لوگ اپنے خاندان کے ساتھ کیسے گزارا کرتے ہونگے، سمجھ سے باہرہے۔
جب غریب کے بچے فاسٹ فوڈریسٹورنٹ کے سامنے سے برگرکی قیمت پڑھتے ہوئے گزرتے ہونگے، تو دل پرکیاقیامت گزرتی ہوگی۔ گمان کرنابھی تکلیف دہ ہے۔ان کے والداوروالدہ کی ماہانہ تنخواہ میں توصرف دس سے پندرہ برگرہی آسکتے ہیں۔ شائد یہ تصوریاخواب میںہی انھیں کھاتے ہونگے۔اس ملک میں تویہ خریداری ان کی مالی استطاعت سے باہرہے۔
بابرمسیح کوپیسے حاصل کرنے کاکوئی طریقہ سمجھ نہ آیاتو ایک سودخورآدمی کے پاس چلاگیا۔سودخوربڑے عرصے سے پیسے کے لین دین کاکام کررہاتھا۔سودپررقم دیتاتھا اوراگر وقت پروصول نہ ہو،توپھراس کے غنڈے،گھروں میں جاکراُدھارلینے والوں کی بے عزتی کرتے ،دھمکیاں دیتے، ہاتھاپائی کرتے، ڈراتے،ان کے اہل خانہ کونقصان پہنچانے کا ارادہ ظاہرکرتے تھے۔
یعنی یہ لوگ سوداورپیسہ وصول کرنے والے پیشہ وربدمعاش اور زرخریدبھیڑیے تھے۔بابرمسیح نے سودخورسے معمولی سی رقم اُدھارلے لی۔اپنے گھر کا چولہا جلانے پرصرف کردی۔یہ رقم لاکھوں نہیں،بلکہ چندہزاروں میں تھی۔مگرمسئلہ یہ ہوا،کہ بابر،وقت پررقم اورسودادانہ کرسکا۔
مارکیٹ جاکراس نے سود خور کے سامنے ہاتھ پیرجوڑے کہ کچھ مہلت دیدی جائے تاکہ محنت مزدوری کرکے کچھ دنوں بعد پیسے واپس کردے۔مگرسودخورکے ذہن میں تودولت اور اپنے غنڈوں کی طاقت کابدنماخمارتھا۔اس کے سامنے بابرتو ایک معمولی سی مشین تھی جس نے کچھ نوٹ چھاپ کراسے واپس کرنے تھے۔سودخورنے گالیاں دیکربابرکودکان سے نکال دیا۔معاملہ یہاں نہیں رُکا۔اس کے غنڈوں نے باقاعدہ، اس غریب آدمی کے گھرجاکربدتمیزی کرنی شروع کردی۔
اگر بابرگھرپرنہ ہوتا،تووہ بدمعاش،بچوں کوگالیاں دیتے۔ اغواء کرنے کی دھمکیاں دیتے۔والدہ ہاتھ پیر جوڑ کر انھیں واپس بھیجتی مگروہ شام کوپھرواپس آجاتے۔اس طرح چند دن گزر گئے۔کئی بارانھوں نے بابرمسیح کوسرِعام مارا پیٹا۔ گریبان پھاڑ ڈالااورمارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔
سود خور اورغنڈوں کے سامنے اس غریب کی کیاحیثیت ہونی تھی۔ یہاں تو سرکاری اورغیرسرکاری غنڈوں کے سامنے معاشرے کے تمام سفیدپوش لوگ مجبور ہیں۔مشکل اَمریہ بھی ہے کہ سفیدپوش طبقہ تمام ذلت سمجھنے کے باوجودبھی ردِعمل کا اظہار نہیں کرتا۔جوتے کھانے کے بعدبھی یہ طبقہ انھی غنڈوں اور موالیوں کے درپرسجدہ کیے رہتا ہے،جوان کی عزتِ نفس مسلسل مجروح کرتے رہتے ہیں۔ معلوم نہیں،انھیں عزت کے بغیرزندہ رہنا، اتنا پسند کیوں ہے۔مگریہ شائدہمارے خمیر میںہے۔ہرطاقتورکے سامنے جھکنااورکمزورکے سامنے فرعون بنناہماری سرشت ہے۔
بابرمسیح کے لیے ساری صورتحال بہت ہی مشکل تھی۔ درست ہے کہ اس نے سودپرچندہزارروپے قرض لیے تھے۔ مگر وسائل اس قدرمحدودتھے کہ چندہزاراس کے لیے کئی کروڑروپے تھے۔دوتین مہینے تک پیسے واپس نہ کرسکا۔ غنڈوں کی دی گئی ذلت اوراذیت سہتارہا۔دودن پہلے فیصلہ کیا کہ خودکشی کرلیگا۔ایک بات عرض کرناچاہتاہوں۔جتنے ناخوش لوگ ہمارے"عظیم ملک"میں موجودہیں،کسی اور ملک میں نہیں۔تقریباًپوری دنیاگھوم چکاہوں۔مگرناانصافی کی بدولت خوشی سے عاری چہرے،جوپاکستان میں نظرآتے ہیں،پوری دنیاسے زیادہ ہیں۔
مشاہدہ کریں۔جب گاڑی کسی چوک پررُکتی ہے تواردگردچہروں کوپڑھنے کی کوشش کریں۔مسلسل گھومتی ہوئی آنکھوں کے علاوہ کچھ نظرنہیں آئیگا۔صرف اورصرف بھینچے ہوئے چہرے اورسپاٹ بے نور مجسموں جیسے انسان۔بہرحال بابرمسیح نے فیصلہ کیاجوصرف وہی شخص کرسکتاہے جومکمل طورپربے بس ہوچکاہو۔جواس درجہ مجبورہوکہ اس کے پاس زندہ رہنے کاکوئی بھی جوازنہ ہو۔ بابراپنی کچی آبادی کے چرچ میں گیا۔
اندرسے دروازہ بندکر لیااورگلے میں پھندہ لے کرخودکشی کرلی۔جب کافی دیرتک باہر نہ نکلاتوگھروالوں کوتشویش لاحق ہوئی۔چرچ کادروازہ پیٹنا شروع کردیا۔شورسنکراہل محلہ بھی وہاں پہنچ گئے۔دروازہ توڑکراندرداخل ہوئے توبابرمسیح کی لاش جھول رہی تھی۔ بابر زندگی کی دہلیزپارکرکے اس راستے پرروانہ ہوچکاتھا،جہاں کسی کوبھی، کسی قسم کی کوئی دنیاوی مجبوری نہیں ہوتی۔بچیوں اوربچوں کودووقت کی روٹی فراہم نہیں کرنی ہوتی۔آٹھ سویا ہزارروپے کابجلی کابل بھی نہیں دیناہوتا۔
خوشی کے موقعوں پر بچوں کونئے جوتے اورکپڑے بھی مہیاکرنے نہیں ہوتے۔ ہاں،جہاں سودخورقاتل بھی نہیں ہوتے۔بابرکے معصوم بچے اوربچیاں،باپ کی لاش سے لپٹ کردھاڑیں مارمار کر روتی رہیں۔لاش کورسے سے اُتاراگیااورجسدِخاکی کودفنا دیا گیا۔ بابرمسیح جیسے بے بس لوگ درجنوں کی تعدادمیں روزمرتے ہیں۔اس سے کسی کوکیافرق پڑتاہے۔کسی کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی نہ کبھی رینگے گی۔بابرمسیح جیسے لوگ پہلے بھی تو دراصل زندہ نہیں ہوتے۔انکاجینایامرناہرطریقے سے برابر ہے۔بلکہ مرناشائدبہترہے۔شائد۔
بابرمسیح کی خودکشی کے متعلق کسی نے بھی غورنہیں کیا ہوگا۔اخبارمیں چھپنے والی خبرپربھی توجہ نہیں دی ہوگی۔ اس طرح کی خودکشیاں تواترسے جاری ہیں۔ مگر اب بہت زیادہ بڑھ چکی ہیں۔اتنی زیادہ کہ اب خودکشی کی خبر، دراصل خبرہی نہیں رہی۔اخبارکی بے جان دوتین سطریں اوربس۔ مگر صاحبان،یہ واقعات ہرگزہرگزمعمولی نہیں ہیں۔یہ ہمارے ملک،سماج،نظام اورطرزِزندگی پر سچے تبصرے ہیں۔یہ فریاد ہے۔ان لوگوں کی،جنھیں اس ملک نے کچھ بھی نہیں دیا۔
اس نظام کے خلاف ایک نداہے،جس میں غریب کاکوئی والی وارث نہیں ہے۔ مگر متضاد طرف دیکھیں توپاکستان ایک شاندارملک ہے۔ بڑے شہروں کے تمام ریسٹورنٹ مکمل طور پربھرے ہوئے ہیں۔امیرلوگ،ایک وقت کے کھانے پر ہزاروں روپے خرچ کردیتے ہیں۔ ان کے بچے،مغربی ریسٹورنٹ سے سیکڑوں روپے کے برگر اورپیزااس طرح منگواتے ہیں کہ معلوم ہوتاہے کہ شائد مفت تقسیم ہورہے ہیں۔ڈیڑھ سے تین کروڑکی گاڑی اب عام ہے۔ہرطرف نظرآتی ہے۔ سڑکیں قیمتی گاڑیوں سے اَٹی ہوئی ہیں۔
اب تو شہر میں دنیا کی سب سے قیمتی کار،یعنی رولزرائس بھی نظرآتی ہے۔جسکی موجودہ قیمت سولہ کروڑسے لے کراکیس کروڑتک ہے۔کراچی میں درجنوں رولزرائس گاڑیاں ہیں۔یہی حال لاہور اور اسلام آبادمیں ہے۔آپ کسی بڑے آدمی کی شادی پرچلے جائیے۔دوتین ہزارلوگوں کی دعوت عام سی بات ہے۔
شادیوں پراب لاکھوں نہیں،کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔خرچ کرنے اوردکھاوے کی انتہا تو یہ ہے کہ اب ذاتی خوشی کے اظہارکے لیے ہندوستان سے گائک اورمیوزیکل بینڈ بلوائے جاتے ہیں۔فوتگی پربھی یہی عالم ہے۔سیکڑوں لوگوں کے لیے بہترین کھانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔اس لیے کہ مرنے والے کی روح کو ثواب پہنچے۔
دعا کروانے کے لیے عالمگیر شہرہ یافتہ دینی علماء بلائے جاتے ہیں جن کی فیس بھی لاکھوں میں ہے۔ اگر بے لاگ موازنہ کیا جائے،تومرنابھی بہت مہنگا ہوچکا ہے۔ شائد آپکو میری بات پریقین نہ آئے۔ چندسال پہلے،ایک واقف نے کہا کہ ان کا بڑابھائی فوت ہوچکاہے، ان کی رسم قُل، لاہورکے ایک بڑے ہوٹل میں منعقدکی جارہی ہے۔ قطعاً یقین نہ آیا۔ دوبارہ پوچھا تویہی جواب تھاکہ لاہورکے فلاں ہوٹل میں دعاہے اور اس کے بعد کھانے کااہتمام ہے۔کوشش کرنے کے باوجود وہاں نہ جاسکا۔ مرحوم سے وابستگی تھی۔ قرآن کاایک رکوع پڑھ کر خاموشی سے انکوبخش دیااور مغفرت کی دعاکی۔
مگرسوال ہے کہ یہ ملک کن لوگوں کے ہاتھوں میں جاچکاہے۔ایک ایساطبقہ،جس کاملک سے صرف ایک رشتہ ہے کہ یہاں سے مال درمال کماؤ۔اس کی ہڈیاں نوچواور مزے کرو۔ان لوگوں کی زندگی اتنی رنگین اورشاندارہے کہ غریب آدمی تصورتک نہیں کرسکتا۔بلکہ سفیدپوش آدمی بھی اس زندگی کے صرف خواب دیکھ سکتاہے۔بائیس کروڑکی آبادی میں اکیس کروڑ،پچھترلاکھ لوگ صرف اورصرف سانس لے رہے ہیں۔جانورکی سطح سے بھی نیچے زندگی گزارنے پرمجبور کردیے گئے ہیں۔یہی اصل پاکستان ہے۔بابرمسیح کاملک جسکاذکرکرناکوئی بھی مناسب نہیں سمجھتا۔سب خاموش ہوجاتے ہیں!