پرامن انتخابات کا انعقاد نگراں صوبائی حکومت کے لئے چیلنج

سیاسی اور جمہوری عمل میں سندھ کے لوگوں کی پرجوش شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ سندھ انتہاء پسندی اور آمریت کو قطعی طور۔۔۔


G M Jamali April 02, 2013
سیاسی اور جمہوری عمل میں سندھ کے لوگوں کی پرجوش شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ سندھ انتہاء پسندی اور آمریت کو قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔ فوٹو فائل

سندھ میں انتخابی گہما گہمی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں حالات کی پروا کیے بغیر انتخابی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔

نگران صوبائی حکومت کو کراچی میں بدامنی کے خاتمے کے لیے سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی 15 دن کی مہلت 4 اپریل کو ختم ہو رہی ہے۔ ساری نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ وہ نگران حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کیا رائے قائم کرتی ہے، 4 اپریل کا دن ایک اور حوالے سے بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیونکہ اس دن پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین شہید ذوالفقار علی بھٹو کی 35 ویں برسی کے موقع پر پیپلز پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کرنا ہے اور اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ بھی کرنا ہے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر ٹکٹوں پر محاذ آرائیاں جاری ہیں اور آئندہ آنے والے دنوں میں کئی بڑے لوگ اپنی پارٹیاں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس طرح سندھ کی سیاست میں کئی معاملات ایسے ہیں جن کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آئندہ کیا ہوگا ؟ اور یہی سوال عوام کی سیاست میں گہری دلچسپی کا بھی سبب ہے۔

سیاسی اور جمہوری عمل میں سندھ کے لوگوں کی پرجوش شرکت اس بات کی مظہر ہے کہ سندھ انتہاء پسندی اور آمریت کو قطعی طور پر مسترد کرتا ہے۔ سندھ کی قومی اسمبلی کی 61 اور صوبائی اسمبلی کی 130 جنرل نشستوں پر پانچ ہزار سے زائد امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کرائے ۔ حیرت کی بات ہے کہ کراچی کی قومی اسمبلی کی 20 اور صوبائی اسمبلی کی 42 جنرل نشستوں کے لیے 1700 سے زائد کاغذات نامزدگی داخل کرائے گئے حالانکہ کراچی میں حالات اس وقت بھی انتخابی مہم کے لیے سازگار نہیں ہیں۔

کراچی کے مضافاتی علاقوں میں طالبان اور دیگر انتہاء پسند گروہوں نے اپنے نیٹ ورکس مضبوط کرلیے ہیں جبکہ کراچی کے شہری علاقے طویل عرصے سے خونریزی اور انتشار کا شکار ہیں۔ پر امن شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد نگران حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہوگا ۔ سپریم کورٹ نے نگران حکومت کو حالات بہتر بنانے اور کراچی سے نوگوایریا کے خاتمے کے لیے 15 دن کا وقت دیا تھا جو 4 اپریل کو ختم ہو رہا ہے ۔ یہ حقیقت ہے کہ نگران حکومت ٹارگیٹڈ آپریشن میں تیزی لے آئی ہے ۔ رینجرز پولیس اور سی آئی ڈی نے بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی ہیں ۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران ٹارگٹ کلنگ روزانہ اوسطاً 9 یا 10 کی بجائے 6 یا 7 ہوگئی ہے۔

اسے مستقبل میں بہتری سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا کیونکہ آنے والے دن زیادہ خطرناک تصور کیے جا رہے ہیں ۔ سندھ میں جو نگران کابینہ بنائی گئی ہے اس میں زیادہ تر تاجر وصنعت کار شامل ہیں۔ ان کے سیاسی رجحانات اور ماضی کی سرگرمیوں سے بھی پورا سندھ واقف ہے ۔ سندھ کے نگران حکمران سیاسی طور پر تو غیر جانبدار تو ہوسکتے ہیں لیکن کیا وہ سندھ میں طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کو روکنے کے لیے گہرے پانیوں میں اتر سکتے ہیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آئندہ چند دنوں میں مل جائے گا ۔

سندھ کی نگران کابینہ نے آئندہ عام انتخابات کے لیے سیکورٹی پلان کی منظوری دے دی ہے اور 8 ہزار پولیس اہلکاورں کی ہنگامی بنیاد پر بھرتی کا بھی فیصلہ کیا ہے ۔ 4 اپریل کو سپریم کورٹ کراچی بدامنی کیس کے فیصلے پر عمل درآمد کے حوالے سے پھر سماعت کرے گی ۔ لوگ یہ توقع کر رہے ہیں کہ سپریم کورٹ قیام امن کے لیے اقدامات کی خود نگرانی کرے گی ۔ سپریم کورٹ کراچی میں قیام امن کے لیے بہت آگے تک جاچکی ہے ۔ اس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ۔

ویسے تو پورے سندھ سے بعض غیر متوقع نتائج میں لوگوں کی دلچسپی ہے لیکن کراچی پر لوگوں کی زیادہ توجہ ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے اس مرتبہ سندھ کی زیادہ نشستوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں ۔ اسی طرح پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اسلام (ف) ، جمعیت علماء پاکستان ، سنی تحریک اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے مشترکہ امیدوار سامنے نہیں آسکے ہیں ۔ پیپلز پارٹی مخالف اتحاد دم توڑتا ہوا نظر آ رہا ہے ، پیپلز پارٹی کے خلاف قائم دس جماعتی اتحاد قائم کیا گیا تھا لیکن اتحاد کی بجائے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر بات ہو رہی ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی میں ٹکٹوں کی تقسیم پر زبردست اندرونی اختلافات کی خبروں کو باہر آنے سے نہیں روکا جاسکا۔ پیپلز پارٹی میں گھوٹکی کے مہر خاندان اور ٹھٹھہ کے شیرازی خاندان کی شمولیت سے پیپلز پارٹی کی توانائی میں اضافہ ہوگیا ہے۔ گھوٹکی اور سکھر میں ٹکٹوں کی تقسیم کے مسئلے پر سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ پارٹی قیادت سے ناراض ہو کر اپنے داماد سید اویس شاہ کو صوبائی اسمبلی کی نشست سے ٹکٹ دلانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ جامشورو سے سابق رکن قومی اسمبلی نواب غنی تالپور کسی بھی وقت پارٹی چھوڑ سکتے ہیں ۔ سابق وفاقی وزیر پیرآفتاب شاہ جیلانی اور ان کے بھائی پیر امجد شاہ جیلانی بھی پارٹی سے نالاں نظر آ رہے ہیں۔

موجودہ انتخابی سرگرمیوں سے یہ بات تو واضح ہوگئی کہ سندھ میں پیپلز پارٹی مخالفین کو امیدوار نہیں مل رہے ہیں۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے کراچی کے رہنماء سردار رحیم مسلم لیگ (فنکشنل) میں شامل ہوچکے ہیں ۔ آئندہ ایک ہفتے میں سیاسی جوڑ توڑ میں تیزی آسکتی ہے ۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کراچی کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 250 سے کاغذات نامزدگی جمع کرادیئے ہیں ۔ اس نشست پر بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔

مولانا شاہ احمد نورانی مرحوم کے صاحبزادے شاہ اویس نورانی ، سابق ناظم کراچی اور جماعت اسلامی کے رہنماء نعمت اللہ خان ، امریکا میں قید ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ ، اسی حلقے سے گزشتہ انتخابات میں کامیاب ہونے والی ایم کیو ایم کی رہنماء خوش بخت شجاعت اور پیپلز پارٹی کے راشد حسین ربانی بھی پرویز مشرف کے مقابلے میں امیدوار ہوں گے ۔ پرویز مشرف نے بارہا یہ بات کہی ہے کہ ایم کیو ایم ان کی حمایت کرے گی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں