FAISALABAD:
کل کا عروس البلاد آج اجڑے ہوئے چمن کا منظر پیش کر رہا ہے، وسائل کم، مسائل زیادہ، پبلک ٹرانسپورٹ ناپید، پانی، بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محرومی اس شہر کے باسیوں کو مایوسی کی اتھاہ دلدل میں گُم کر رہی ہے۔
لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں، اور صاحب اقتدار مشینی بیان جاری کرکے چین کی بانسری بجاتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے، لوگ ذرا سا شور مچائیں گے اور پھر تھک ہارکر چپ ہوجائیں گے۔ مصلحت کا تقاضا ہے، دوچار ہم دردی کے الفاظ بولو، ٹھنڈی سانسیں بھرتے ہوئے اپنے وسائل کا رونا ہو سکے تو آنکھ میچ میچ کر ایک آدھ آنسو برآمد کرو، لوگ پسیج جائیں گے، وہ ہمیشہ یہی کرتے ہیں۔ اور ہم بھی ہر بار ایک جیسی اداکاری کرتے ہیں۔ یوں تو کراچی کے مسائل کی ایک طویل فہرست ہے مگر اس رپورٹ میں اہم ترین مسائل کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
٭پانی کی قلت اور سنک ہول کے خطرات
کراچی میں پانی کی قلت بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ کراچی کے ادارہ برائے فراہمی اور نکاسی آب کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت کراچی کو حب ڈیم اور دریائے سندھ سے تقریباً 650ایم جی ڈی (ملین گیلن فی دن) فراہم کیا جارہا ہے، جب کہ پانی کی طلب فی کیپیٹا 54 جی سی پی ڈی (گیلن پر پرسن پر ڈے) یعنی 246لیٹر فی آدمی روزانہ ہے۔ اس حساب سے شہرقائد کی لگ بھگ سوا دو کروڑ آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے 1188 ایم جی ڈی کی طلب روزانہ ہے، لیکن شہر کو طلب کے مقابلے میں نصف سے تھوڑا کم یعنی 538ایم جی ڈی قلت کا سامنا ہے۔
یہ صرف ایک شہر کے اعداد و شمار ہیں لیکن اس کے باوجود سیاست دانوں نے ڈیموں کی تعمیر کو اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے، لاکھوں گیلن پانی سمندر بُرد ہوجاتا ہے۔ لاکھوں گیلن پانی کے ذخائر صنعتی فضلے کی وجہ سے آلودہ ہوجاتے ہیں، لیکن لاڑکانہ کو پیرس بنانے کے دعوے دار حکم راں اس مسئلے کے حل میں کسی طور سنجیدہ نظر نہیں آتے، پانی کے ضیاع کے لیے قانون سازی اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے کوئی آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ واٹربورڈ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق ہی طلب و رسد میں فرق کو کم کرنے کے ہر پانچ سال بعد سو ملین گیلن پانی فی دن کی اضافی ضرورت ہے، لیکن پانی جیسی نعمت کی قدر نہ انفرادی سطح پر شہری کر رہے ہیں اور نہ اہل اقتدار کو اس سے کوئی غرض ہے۔
طلب و رسد کے اس کھیل نے کراچی کو واٹرٹینکر کی شکل میں ایک نیا کاروبار دیا ہے، اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو آپ دو بوند پانی کے لیے سسکتے بلکتے لوگوں کے حصے کا پانی بھی واٹر ٹینکر مافیا سے خرید کر اسے فیاضی سے ضایع کرسکتے ہیں، اور کسی کو آپ سے پوچھنے کی جرأت بھی نہیں ہوسکتی کہ دوسرے کے حق پر ڈاکا ڈال کر آپ پانی جیسی نعمت کو کیوں ضایع کر رہے ہیں، جب کہ متوسط طبقے نے اس کا حل کنویں کھود کے نکال لیا ہے۔ لیکن کنویں سے نکلنے والے پانی میں معدنیات کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب یہ پانی نہ صرف انسانی صحت کے لیے مضر ہے، بل کہ بورنگ کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے نے نظام قدرت میں بھی دخل اندازی شروع کردی ہے۔
دنیا بھر میں بورنگ کے لیے نہ صرف قوانین موجود ہیں، بل کہ ان پر سختی سے عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ہر ایکوافرز (زیرزمین چٹانیں جو پانی محفوظ کرلیتی ہیں اور جن کی تہہ میں پانی موجود ہوتا ہے) سے پانی کھینچنے کے لیے ایک حد مقرر کی جاتی ہے اور کوئی بھی شخص اس قانون سے بالاتر نہیں ہے، مگر ہمارے یہاں یہ عمل پوری آزادی سے جاری ہے۔
بڑے پیمانے پر ہونے والی بورنگ نے زیرزمین پانی کی سطح میں کمی کرکے زمین کو کھوکھلا کردیا ہے، جو کسی بھی وقت سنک ہول (زمین دھنسنے) کا سبب بن سکتے ہیں۔ کراچی میں موجود ایکوافرز میں پانی کی کم ہوتی شرح اور اس سے لاحق خطرات پر جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے ماہرین ارضیات کا کہنا ہے کہ کراچی کی زیرزمین چٹانیں چونے کے پتھر، ریت اور چکنی مٹی پر مشتمل ہیں۔
کراچی کو اس وقت پانی کے حوالے سے دو طرح کے خطرات لاحق ہیں، اول یہ کہ یہاں بورنگ یا کنوؤں کی کھدائی کی شرح پاکستان کے دوسرے شہروں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ دوئم یہ کہ صنعتی شہر ہونے کی وجہ سے یہاں انڈسٹریل ویسٹ (صنعتی فضلہ) کو بھی زیادہ تر ندی نالوں یا سمندروں میں بہانے کا سلسلہ بلاخوف وخطر جاری ہے بورنگ شہر قائد کو سنک ہول جیسے خطرے سے دوچار کر رہی ہے، جس کا سدِباب اب تک یورپ اور امریکا کے ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں کرسکے ہیں۔
زمین کے اندر موجود پانی کے بہاؤ سے چٹانوں خصوصاً چونے کے پتھر سے بنی چٹانوں کے کٹاؤ میں کئی سو سال لگتے ہیں، لیکن صنعتی فضلہ اور سیوریج کا پانی زمین میں جذب ہونے کی وجہ سے ایکوافرز میں موجود پانی تیزابی ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے چونے کے پتھر سے بنی چٹانوں کے کٹاؤ یا گھلنے کے عمل میں بہت تیزی سے اضافہ ہوجاتا ہے۔ کراچی کی زیرزمین چٹانیں چونے کے پتھر، ریت اور چکنی مٹی سے بنی ہوئی ہیں۔ پانی میں پیدا ہونے والی تیزابیتkrast ٹائپوگرافی کا سبب بنتی ہے جو سنک ہول بننے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
سنک ہول کیا ہے؟
سنک ہول ایک ارضیاتی عمل ہے، جس میں زمین اندر دھنس جاتی ہے۔ سنک ہول بننے کا عمل سطح زمین پر ظاہر ہونے سے بہت عرصے قبل شروع ہوجاتا ہے۔ ہمارے پیرو ں تلے موجود زمین درحقیقت اتنی ٹھوس نہیں ہے جتنا ہم سمجھتے ہیں۔ زمین کی اندرونی سطح مٹی، چٹانوں اور معدنیات پر مشتمل ہے اور زیرزمین موجود پانی ان چٹانوں، مٹی اور معدنیات میں رستا رہتا ہے۔
بعض اوقات قدرتی اور انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں پانی کا بہاؤ تیز ہوجاتا ہے، جو زیرزمین موجود چیزوں کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے اور بہ ظاہر مضبوط نظر آنے والی اوپری سطح کسی بیرونی دباؤ کے نتیجے میں ڈھے جاتی ہے۔ سنک ہول کے بننے کا زیادہ تر عمل زیرزمین موجود ریت اور چٹانوں میں ہونے والے تغیرات کا نتیجہ ہے، تاہم دنیا کے مختلف حصوں میں زمین دھنسنے کے واقعات میں اضافے کا اہم سبب انسانی سرگرمیاں ہیں۔
زیرآب پانی کی کم سطح، بارشوں میں کمی یا مختصر مدت کے لیے بارش کا بہت زیادہ ہونا سنک ہول بننے کی قدرتی وجوہات ہیں۔ بارش کا پانی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے مرجھائے ہوئے نباتات کے ساتھ ری ایکٹ (تعامل) کرتا ہے، جس کے نتیجے میں پانی تیزابی ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ جب یہ تیزابی پانی زیرزمین موجود نفوذ پذیر چٹانوں تک پہنچتا ہے تو ان کی تہہ میں موجود پانی چونے کے پتھروں کو گُھلانا شروع کردیتا ہے۔
چونے کے پتھروں کے پانی میں گھلنے کی وجہ سے وہاں خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ چونے کی پتھروں کے گھُلنے کی وجہ سے زیرزمین پانی مزید تیزابی اور چٹانوں میں شگاف بڑھتا جاتا ہے۔ زیرزمین موجود پانی نہ صرف چونے کے پتھروں کو کیمیائی طریقے سے گھلاتا ہے، بل کہ زیرزمین پانی کی سطح میں تبدیلیاں اوپری سطح کو ملنے والی سپورٹ پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں۔ زمین کی اوپری سطح پر غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہونے کے نتیجے میں زمین سب چیزوں کو لے کر اس خلا میں دھنس جاتی ہے۔
قدرتی طور پر ہونے والی قحط سالی یا زیرآب پانی کو بہت زیادہ نکالنے کی وجہ سے چٹانوں کے شگاف خالی ہوجاتے ہیں اور یہی خلا سنک ہول کے بننے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ دوسری طرف قحط سالی کے بعد ہونے والی تیز بارشیں زمین کی اوپری سطح پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر سنک ہول بننے کا سبب بنتی ہیں۔
سنک ہول کی تشکیل میں انسانی سرگرمیوں کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ ڈرلنگ، کان کنی، کنسٹرکشن، پانی اور سیوریج کی ٹوٹے ہوئے پائپ، بھاری ٹریفک اور کھدائی کے گڑھوں کو مٹی سے ٹھیک طریقے سے نہ بھرنا بھی زمین کے دھنسنے کا اہم سبب ہے۔ پانی اور سیوریج کے ٹوٹے ہوئے پائپس سے رسنے والا پانی جذب ہوکر زیرزمین موجود مٹی اور چٹانوں کو گھُلا کر خلا پیدا کردیتا ہے، اور اُس جگہ پر پڑنے والا بھاری دباؤ زمین کے اندر دھنسنے کا سبب بنتا ہے۔ ایسے علاقے جہاں زیرزمین نمک کے ذخائر، چونے اور کاربونیٹ سے بنی چٹانیں ہوں وہاں سنک ہول بننے کے خطرات دیگر جگہوں کے برعکس زیادہ ہوتے ہیں۔
کراچی میں بورنگ کی وجہ سے زیرزمین سیچوریٹد (پانی سے لبریز) چٹانوں میں پانی کی مقدار کم ہوتی جاری ہے اور اس کی جگہ خلا پیدا ہو رہا ہے۔ اس کی مثال آپ اس طرح لے سکتے ہیں کہ ایک گلاس میں ریت بھر کر آپ اسے پانی سے لبریز کردیں تو ریت پانی کے بوجھ سے نیچے بیٹھ کر مضبوط بنیاد بنادیتی ہے، لیکن اگر آپ اس ریت میں سے موجود پانی نکال دیں تو اس کے درمیان خلا پیدا ہوجائے گا اور وہ بُھربھری ہوجائے گی۔ اس وقت یہی حال بورنگ کے نتیجے میں ایکوافرز کا ہورہا ہے۔
٭کثیرالمنزلہ عمارتوں سے لاحق خطرات
دوسری جانب کثیرالمنزلہ تعمیرات بھی کراچی کو سنک ہول کے خطرے سے دوچار کر رہی ہیں۔ ساحلی پٹی پر ہم سمندر کو پیچھے دھکیل کر، ریت سے بھرائی کرکے تعمیرات کر رہے ہیں۔ سمندر کے کسی بھی حصے کے خشک ہونے میں لاکھوں سال درکار ہوتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ جمع ہونے والی ریت تہہ در تہہ جمع ہوتی ہے، جب کہ کم وقت میں زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں بلڈرز چند ہی مہینوں میں ریت بھر کے تعمیرات شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح ریت پوری طرح کمپریس نہیں ہوپاتی اور اس میں چھوٹے چھوٹے خلا بن جاتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں کسی ممکنہ ارضیاتی مسئلے سے بچنے کے لیے ریت بھرائی سے لے کر عمارات کی تعمیر تک کے لیے قوانین بنے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لانڈھی، کورنگی اور ڈیفنس میں آنے والے معمولی نوعیت کے زلزلے کے جھٹکے بھی ایکوافرز میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔
٭زیرزمین پانی کے کم ہوتے ذخائر
دنیا بھر میں زیرزمین پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ ناسا کے نئے سیٹلائٹ ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر کے اربوں لوگوں کو تازہ پانی فراہم کرنے والے زیرزمین ایکوافرز (زیرزمین نفوذ پذیر چٹانیں جن کی تہہ میں پانی موجود ہوتا ہے) میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک ختم ہوچکی ہے۔
بھارت سے چین اور امریکا سے فرانس تک موجود دنیا کے 37بڑے ایکوافرز میں سے 21ایکوافرز میں پانی اپنی آخری حد سے نیچے آچکا ہے۔ دس سال پر محیط اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ان 21میں سے 13ایکوافرز میں پانی انتباہی حد کو بھی عبور کرکے سب سے خطرناک درجے تک آچکے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پانی کے یہ ذخائر بڑھتی ہوئی آبادی، زراعت اور کان کنی جیسی صنعتوں کی وجہ سے اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں، کیوں کہ ان سب ضروریات کے لیے پانی کی طلب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور انسانوں کا پانی کی بچت کرنے کے بجائے زیرزمین پانی پر انحصار دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔
ناسا کے واٹر Jay Famiglietti کا اس بابت کہنا ہے،''یہ صورت حال بہت پیچیدہ ہے۔ دنیا بھر کی آبادی کے استعمال کے لیے یہ ایکوافرز 35فی صد پانی فراہم کرتے ہیں، لیکن خشک سالی کی صورت میں پانی کھینچنے کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ مثال کے طور بارش کے نہ ہونے کی وجہ سے صرف کیلی فورنیا میں ایکوافرز کا 60فی صد پانی استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے دریا اور زمین کی اوپری سطح پر موجود پانی کے دیگر ذخائر (تالاب، جھیل وغیرہ) خشک ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف انڈیا، پاکستان اور شمالی افریقا جیسے گنجان آبادی والے خطوں میں ایکوافرز کی صورت حال زیادہ خراب ہے، کیوں کہ ان خطوں میں پانی کے محدود متبادل اور قلت ان ایکوافرز کو زیادہ تیزی سے غیرمستحکم کر سکتی ہے۔''
٭ سنک ہول کے خطرات
سنک ہول ایک خطرناک ارضیاتی تبدیلی ہے جس میں بسا اوقات زمین پوری پوری عمارتوں اور سڑکوں کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ سنک ہول پانی کے معیار پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ سنک ہول بننے کے بعد زیرزمین تیزابی پانی رس کر پینے کے صاف پانی کے ذخائر میں داخل ہوسکتا ہے، جسے پینا انسانی صحت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں ہے۔سنک ہول کے خطرات اُس کے بننے کی جگہ پر منحصر ہیں۔ قدرتی سنک ہول زمین کی طرح سمندر میں بھی بن سکتے ہیں۔ زمین پر بننے والے سنک ہول نہ صرف اُس علاقے کے جغرافیائی نقشے کو تبدیل کردیتے ہیں بل کہ زیرزمین پانی کے بہاؤ کا رُخ بھی تبدیل کردیتے ہیں۔
گنجان آباد علاقوں میں زمین دھنسنے سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوسکتا ہے۔ کچھ سنک ہول زیرآب برساتی نالوں اور سیوریج لائن میں رساؤ کی وجہ سے بھی بنتے ہیں۔ ایسے سنک ہول بننے سے ہونے والا نقصان کئی میل طویل علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ یہ نہ صرف اطراف کی عمارتوں کی بنیاد کے لیے نُقصان دہ ہے بل کہ زمین کے اندر موجود زہریلے کیمیکل سطح زمین پر آکر پینے کے پانی کو آلودہ کرسکتے ہیں۔
٭سنک ہول بننے کی انتباہی علامات
درختوں یا کھمبوں کی بنیاد کے اطراف زمین کا دھنسنا یا اُن کا غیرمعمولی حد تک ایک طرف جُھک جانا۔
ایسے دروازوں یا کھڑکیوں کا مکمل طور پر بند نہ ہونا جو پہلے باقاعدگی سے بند ہوجاتی تھیں۔بارش کے بعد ایسی جگہوں پر چھوٹے تالاب بننا جہاں پہلے کبھی پانی کھڑا نہیں ہوتا تھا۔
نباتات کا مرجھا جانا اور ان کے گرد چھوٹے دائرے بننا (ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ پودوں کو نمی فراہم کرنے والا پانی سطح کے نیچے بننے والا سنک ہول جذب کرنا شروع کردیتا ہے)
ایسے کنوؤں سے گدلا پانی نکلنا جہاں پہلے پانی شفاف تھا۔
دیواروں، فرش اور زمین کی سطح پر دراڑیں پڑنا۔ کنکریٹ بلاک کے بنے ڈھانچے میں انہیں دیکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ یہ اُن دراڑوں سے الگ ہوتی ہیں جو عموماً گھروں کی دیواروں میں دکھائی دیتی ہیں۔
٭سیوریج کا تباہ حال نظام
چند سال قبل ایشیائی ترقیاتی بینک نے 'پاکستان: کراچی میگا سٹیز پریپریشن پراجیکٹ' کے نام سے ایک رپورٹ شایع کی، جس کے مطابق کراچی کے 82 فی صد گھروں میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے پانی کا کنکشن موجود ہے، جن میں سے کچھ میں ہر دوسرے دن اور کچھ کنکشن میں پانی سرے سے ہی نہیں آتا، جب کہ پچاس فی صد پانی رساؤ، لائنوں کے پھٹنے، یا دیگر عوامل کی وجہ سے آلودہ یا ضایع ہوجاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سیوریج کا مربوط نظام نہ ہونے کی وجہ سے صرف 25 فی صد غلاظت ہی ڈرینیج نظام کے ذریعے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس تک پہنچتی ہے، جو کہ اپنی گنجائش سے نصف پر ہی کام کر رہے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں روزانہ 7 ہزار ٹن سے زاید گھریلو، صنعتی اور کمرشل کچرا پیدا ہوتا ہے، جس میں سے صرف ساٹھ فی صد ہی ٹاؤن میونسپل ایڈمنسٹریشن کے لیے کام کرنے والی نجی ٹھیکے داروں کی جانب سے اٹھا یا جاتا ہے۔ تقریباً1800ٹن کچرا دو سرکاری ڈمپ سائٹس پر تلف کیا جاتا ہے۔ 1500ٹن کچرا غیررسمی طریقے سے ری سائیکل کیا جاتا ہے اور بقیہ کچرا کھلے مقامات، سڑکوں، نالیوں میں پھینکا یا جلا دیا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں 472 ایم جی ڈی (ملین گیلن فی دن ) غلاظت پیدا ہوتی ہے۔ جس میں ستر فی صد پانی ہوتا ہے، جب کہ ادارے کے پاس سیوریج کو ٹریٹ کرنے والے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ کی گنجائش 150 ملین گیلن فی دن ہے، لیکن صرف پچاس ملین فی دن غلاظت کو ٹریٹ کیا جاتا ہے۔
٭ جب برسی آگ کراچی میں!
جون 2015 کو کراچی میں ہونے والی قیامت خیز گرمی نے شہر قائد کے انتظامی اور ریسکیو اداروں کی پول کھول کر رکھ دی۔ محکمۂ موسمیات کی جانب سے ہیٹ ویو کی پیش گوئی کے باوجود کراچی کو لوٹنے کھسوٹنے والے اہل اقتدار، اپنے ایئر کنڈیشن کمروں میں سکون کی نیند سوتے رہے اور بچے، بوڑھے، جوان گرمی سے نڈھال ہو کر مرتے رہے، لوگوں کہ زندگی میں نہ اسپتالوں میں جگہ ملی اور مرنے کے بعد نہ سرد خانے میں جگہ ملی اور نہ ہی گور کے لیے دو گز زمین۔ شہرقائد میں قیامت خیز گرمی، بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ اور پانی کی قلت نے محض تین دن میں 1200سے زاید شہریوں کو لقمہ اجل بنادیا اور اس کے بعد بھی گرمی کے باعث اموات کا سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ زندگی اور موت کا یہ کھیل متعلقہ حکام کی سنگین اور مجرمانہ غفلت کی وجہ سے پیش آیا۔
بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے باعث شہر کے مردہ خانوں میں لاشیں رکھنے کے لیے جگہ کم پڑ گئی۔ دوسری طرف مرنے والوں کے لواحقین ذہنی اذیت سے دوچار رہے، کیوں کہ اپنے پیارے کی میت کو غسل دینے کے لیے پانی ندارد۔یہ رمضان کے دن تھے۔ کراچی میں آگ برساتے سورج، طبی سہولتوں کے فقدان اور کے الیکٹرک کی 'مہربانی' سے ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد روزے سے تھے، جن کی موت حبس، لو لگنے اور ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے ہوئی۔ ماہ صیام کے دوسرے دن کراچی گرمی کی اس لہر سے ہلاک ہونے والوں میں سے زیادہ تر افراد کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے تھا۔
ازلی بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکم رانوں نے دو ہزار سے زاید قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کی ذمے داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ اربابِ اقتدار عملی اقدامات کے بجائے ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر الزام تراشیوں اور سیاسی بیانات دینے میں مصروف رہے۔ لوگ جلتے، جھلستے جانیں گنواتے رہے اور اقتدار والوں کی حویلیاں چین کی بانسری بجا تی رہیں، وہ کہتے رہے،''آسمان آگ اگل رہا ہے۔ ہوا بھی نڈھال ہے۔ قدرت کے معاملات ہیں، انہیں کون روک سکتا ہے؟''
ہر سانحے کی طرح ہم اس سانحے کو بھی بھول گئے، ہم نے اس بات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، نہ ہی اسپتالوں کی حالت بہتر بنائی، نہ ہی ہنگامی حالات میں عوام کو سہولت فراہم کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر کوئی سوال اٹھائے، تحقیقات اور ذمے دارو ں کے تعین کے لیے بنائی گئیں ضخیم فائلیں گرد چاٹ رہی ہیں، اور ہم ایک بار پھر منتظر ہیں آنے والے کسی سانحے کے، مرنے والوں کی لاشوں پر سیاست کے، کیوں کہ بہ حیثیت قوم، عوام اور حکم راں دونوں ہی بے حس ہوچکے ہیں۔ ہم اُن واقعات پر اُس وقت تک دھیان نہیں دیتے جب تک مرنے والوں کی تعداد درجنوں جانوں سے عبور نہ کرجائے۔
اہل اقتدار کو سیاست چمکانے کے لیے لاشوں کی ضرورت ہے، چاہے وہ کراچی باسیوں کی ہوں یا لاہور میں بسنے والوں کی، چاہے مرنے والے گرمی کی شدت سے جان جان ِ آفریں کے سپرد کریں، یا زلزلے کے جھٹکے چند لمحوں میں انہیں موت کا ذائقہ چکھادیں۔ حکومتی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے بنائے گئے ہنگامی مدد کے اداروں کو فعال بنانے کی کوشش کسی سطح پر نظر نہیں آرہی، جو یقیناً ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
٭ موسمی تغیرات: کراچی تباہی کے دہانے پر!
موسمی تغیرات کے منفی اثرات کے نتیجے میں پاکستان خصوصا کراچی میں اوسط درجہ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ درجۂ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لیے قبل ازوقت اقدامات نہ کیے گئے تو آئندہ آنے والے سالوں کے دوران پاکستان میں قدرتی آفات کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کے ساتھ خوراک، توانائی اور پانی کا شدید بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ میں اضافے کے باعث اوسط درجۂ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم دیگر ملکوں کی نسبت پاکستان میں اوسط درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ 100 سال کے دوران دنیا کے اوسط درجۂ حرارت میں 0.6 ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا ہے اور اگرگر یہی سلسلہ جاری رہا تو رواں صدی کے دوران درجۂ حرارت کی اوسط شرح 1.8 سے4.0 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھ سکتا ہے۔
دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں گذشتہ 60 سالوں کے دوران اوسط درجۂ حرارت میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق1901 سے 1956 تک دنیا میں اوسط درجۂ حرارت0.6 رہا جب کہ اس دوران پاکستان میں بھی اوسط درجۂ حرارت0.6 رہا۔ 1956سے 1971تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.128 رہا، جب کہ پاکستان میں اس دوران اوسط درجۂ حرارت 0.16 رہا۔2010 سے 2039 تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت0.7 رہے گا، جب کہ اس دوران پاکستان میں درجۂ حرارت 1 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا۔ ساحلی شہر ہونے کی وجہ سے شہر قائد کو ملک کے دیگر شہروں کی نسبت زیادہ شدید خطرات لاحق ہیں۔
1971سے 1981تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت 0.152 رہا، جب کہ پاکستان میں اس دوران 0.26 رہا۔1981 سے1991 تک دنیا کا اوسط درجۂ حرارت0.177 رہا، جب کہ پاکستان میں0.39 رہا۔1991 سے2005 تک دنیا میں اوسط درجۂ حرارت 0.333 رہا، جب کہ اس کے مقابلے میں پاکستان میں0.74 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ ملک کے اوسط درجۂ حرارت میں اس قدر تیزی سے ہونے والے اضافے کے باعث آنے والے وقت میں پاکستان خصوصا کراچی میں سونامی، سیلاب، زلزلے، طوفان اور شدید گرمی یا سردی ہونے کے سبب بڑے پیمانے پر تباہی کا سامنا ہوسکتا ہے۔ لیکن ماحولیاتی تبدیلی جیسے لفظ سے ہمارے حکم راں نا آشنا ہیں، ہماری ساحلی بستیاں سمندر بُرد ہورہی ہیں، لیکن افسوس صد افسوس کہ اہل اقتدار اس خطرے کی تباہ کاریوں سے آگاہ ہونے کے باوجود حفاظتی اقدامات کرنے کے بجائے مزید لاشیں گرنے کے منتظر ہیں۔
٭مینگروز اور آبی حیات کے لیے موت کا پیغام
آلودگی کی زہریلی چادر شہرقائد کی پہچان بن چکی ہے۔ کراچی کی ساحلی پٹی، جو کہ مینگروز کے جنگلات اور آبی حیات کا مسکن بھی ہے، آلودگی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی رپورٹ کے مطابق روزانہ تقریباً دو سو ملین گیلن گھریلو اور صنعتی فضلہ، اور ایک ہزار ٹن سے زاید غیر جمع شدہ کچرا سمندر میں شامل ہوتا ہے۔ آلودگی اور دیگر وجوہات کی بنا پر مینگروز اور آبی حیات کی کم ہوتی تعداد نے کراچی کو سنگین ماحولیاتی مسائل سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان میں اکثریت کے نزدیک آلودگی کا مطلب صرف فضائی یا آبی آلودگی ہے، لیکن آلودگی کو صرف دو، تین درجوں تقسیم کرنا خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔ لیکن آلودگی کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو شہر قائد کے باسیوں کو غیرمحسوس طریقے سے سب سے زیادہ نقصان پہنچا رہی ہے اور وہ ہے بصری آلودگی ۔
٭ بصری آلودگی
آلودگی کی سب سے غیرمعروف لیکن سب سے نقصان دہ شکل بصری آلودگی ہے۔ بصری آلودگی قدرتی ماحول میں غیرمحسوس طریقے سے ہونے والی منفی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ آلودگی ہمارے بصری (دیکھنے کی صلاحیت) حصوں کو متاثر کرتی ہے۔ انسانی طرزحیات میں ترقی کے نام پر کثیر المنزلہ عمارتوں کی تعمیر، سرمایہ کاری نظام کے لیے پیدا کی جانے والی مصنوعات اور ان کی تشہیر کے لیے استعمال کیے جانے والے سائن بورڈ، نیون سائن، بل بورڈ، مواصلاتی نظام کی ترسیل کے لیے تعمیر کیے جانے والے بلند وبالا موبائل فون ٹاورز، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی کے لیے پھیلے ہوئے تاروں کے جال اور کچرے کے ڈھیر نہ صرف بصری آلودگی میں اضافہ کر رہے ہیں بل کہ غیرمحسوس طریقے سے کراچی کے شہریوں کو نفسیاتی امراض اور بہت سے جسمانی عوارض میں بھی مبتلا کر رہے ہیں، جن میں ارتکاز توجہ میں کمی، لوگوں میں قوت برداشت کی کمی، آنکھوں میں تھکن، آنکھوں میں خشکی اور لاس آف آئیڈینٹٹی جیسے جسمانی اور نفسیاتی عوارض شامل ہیں۔
بصری آلودگی دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں کو زیادہ تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق رہنے کے لیے مناسب گھر دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ جڑا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ رہائش کے لیے بڑے پیمانے پر درختوں، جنگلوں کو کاٹ کر چٹیل میدانوں کی شکل دی گئی۔ ایک صدی قبل تک رہائش کے لیے کچے یا ایک منزلہ روشن و ہوادار گھر بنانے کا رجحان تھا۔
کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائش کے لیے جگہ کی تنگی نے کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر کو فروغ دیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس رقبے پر پہلے ایک یا دو گھر بنتے تھے اور دس پندرہ افراد رہا کرتے تھے، اسی جگہ کو فلیٹوں کی شکل دے کر سیکڑوں افراد کی رہائش کے قابل بنا دیا گیا۔
ان تمام تر عوامل کے نتیجے میں نہ صرف لوگ تازہ ہوا اور سورج کی روشنی سے محروم ہوئے بل کہ اس جگہ پیدا ہونے والے کچرے کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ بڑے پیمانے پر ہونے والی ناقص اور بے ہنگم تعمیرات، جگہ جگہ پھیلے کچرے دان، پبلک ٹرانسپورٹ کے غیرمعیاری نظام اور پتھاروں نے دنیا بھر میں بصری آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا۔
ماہرینِ ماحولیات کے مطابق کثیرالمنزلہ عمارتوں کی تعمیر سے نہ صرف شہری علاقوں کی بصری اور مادی خصوصیات میں منفی اثرات وقوع پذیر ہوتے ہیں بل کہ یہ قدرتی ماحول کو تباہ کرکے اس شہر کی خوب صورتی کو بھی کم کردیتی ہے۔ دنیا بھر میں طویل عرصے تک بصری اور روشنی سے پیدا ہونے والی آلودگی کو نظرانداز کیا جاتا رہا، تاہم اب ترقی یافتہ ممالک بصری آلودگی کے سدباب اور اس پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں۔
دو سال قبل سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں بل بورڈز کے حوالے سے یکساں قانون بنانے کا حکم دیا۔ عدالتی حکم کے مطابق پل، سڑکوں اور چورنگیوں پر بل بورڈز کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے شہر بھر میں لگے بلز بورڈ کو ہٹانے کے احکامات جاری کیے گئے۔ عدالت نے اپنے ریمارکس میں یہ بات بھی واضح طور پر کہی کہ بل بورڈز کو نمایاں کرنے کے لیے شہر بھر میں درختوں کو بے دریغ کاٹا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کراچی میں بل بورڈز، ہورڈنگز اور سائن بورڈز کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ اس موقع پر جسٹس ثاقب نثار کہنا تھا کہ فٹ پاتھ پر قبضہ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ فٹ پاتھ پر پیدل چلنا عوام کا حق ہے لیکن بل بورڈز کے لیے لگائے گئے کھمبوں نے شہریوں کے چلنے کے راستے بھی مسدود کر دیے ہیں۔ بینچ نے کہا اپنے فیصلے میں کہا کہ نجی عمارتوں کی چھتوں، اونچی عمارتوں پر لٹکے بورڈز فوری ہٹائے جائیں، قومی پرچم لگائیں مگر پلوں پر بورڈز یا اشتہار لگانے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
امریکا کے نوٹری ڈیم لا اسکول کی جانب سے کی گئی ایک تحقیق کے مطابق موبائل فون ٹاورز انٹرنیٹ اور بجلی کی بے ہنگم طریقے سے پھیلی تاریں بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بصری آلودگی پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں، محقق جان کوپ لینڈ نیگل کا کہنا ہے،''موبائل ٹاورز کی تاب کار شعاعوں سے انسانی صحت پر لاحق ہونے والے اثرات تو کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، لیکن موبائل فون کے یہ ٹاور بصری آلودگی میں اضافے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
رابطے کے لیے ناگزیر انٹرنیٹ اور موبائل فون نے انسانی زندگی میں سہولتوں کے دروازے وا کیے ہیں تو دوسری جانب یہ کرۂ ارض اور اس پر رہنے والے انسانوں کے خطرہ بھی بنتی جا رہیں ہیں۔ اس ٹیکنالوجی سے متاثر ہونے والوں میں زیادہ تعداد ترقی پزیر ممالک کی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق موبائل فون ٹاورز نہ صرف ذہنی انتشار، کینسر، ذہنی ڈپریشن اور دیگر امراض کا شکار بن رہے ہیں تو اس سے ماحولیات کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔
موبائل فون ٹاورز کی تاب کار شعاعیں اور ان سے نکلنے والی برقی لہریں ایک تسلسل کے ساتھ انسانی جسم کے خلیوں کو اپنا ہدف بناتی ہیں جس سے ہمارے خلیوں اور اعضاء کے جنکشن پوائنٹس سمیت ہمارا سارا دماغی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے، جب کہ جا بجا پھیلے ان ٹاورز سے خارج ہونے والی الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ (ای ایم ایف) اور جا بجا ان کی تنصیب ماحول میں بصری آلودگی کی شرح میں تیزی سے اضافہ کر رہی ہیں۔ موبائل کمپنیوں کو چاہیے کہ اگر کہیں موبائل ٹاور کی تنصیب کی اشد ضرورت ہے تو انہیں کسی قدرتی ماحول کے مطابق کیموفلاج کیا جائے تاکہ یہ دیکھنے میں انسانی آنکھ کو بھلے محسوس ہوں۔ لیکن وہ خود ایسا کیوں کرنے لگیں اور انھیں اس کا پابند کون بنائے گا؟ حکم رانوں کو تو عوام کی صحت سے متعلق کچھ سوچنے کی فرصت نہیں۔
بصری آلودگی کا سب سے اہم سبب اشتہار کاری کے لیے استعمال کیے جانے والے بلند و بالا بل بورڈز کو قرار دیا جاتا ہے اور اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے 1965میں امریکا میں 'ہائی وے بیوٹیفیکیشن ایکٹ' کے نام سے ایک قانون بنایا گیا۔ یونائیٹڈ اسٹیٹس کوڈ 1965کی شق نمبر 131کے مطابق امریکا میں ہائی ویز پر بل بورڈ ایڈورٹائزنگ اور جنک یارڈز (وہ جگہ جہاں پرانا کاٹھ کباڑ اور ناکارہ گاڑیوں کو رکھا جاتا ہے) قائم کرنا ممنوع ہے۔ جب کہ ''بل بورڈز، نیون سائن کی وجہ سے نہ صرف بصری بل کہ پانی، ہوا اور شور کی آلودگی بھی پیدا ہورہی ہے۔
آلودگی کی دیگر اقسام
٭شور کی آلودگی
میگا سٹی ہونے کی وجہ سے یہاں کے باسیوں کو شور کی آلودگی کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے، سڑکوں کی مخدوش صورت حال، ٹریفک کے بدترین نظام اور ٹریفک قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ لاکھوں افراد گھنٹوں ٹریفک جام میں کان پھاڑ دینے والے ہارن، خستہ حال بسوں، رکشوں کا شور، سائلینسر نکلی موٹر سائیکلوں کی آواز اسے متعدد ذہنی اور جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق انسانی کان آٹھ گھنٹے تک 85ڈیسی بل (آواز کی اکائی)، چار گھنٹے تک 88ڈیسی بل اور دو گھنٹے تک 91ڈیسی بل تک کی آواز سن سکتا ہے۔ اس کے بعد اس کی سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے، جب کہ ایک سروے کے مطابق کراچی کے شہری اوسطاً آٹھ سے دس گھنٹے فی دن اور ہفتے میں چھے دن تک 95 ڈیسی بل تک شور سنتے ہیں، جس کہ وجہ سے اونچا سننا، چڑچڑا پن اور اونچی آواز میں بولنے کے مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
٭فضائی آلودگی
انسانوں کی جانب سے ہونے والی صنعتی سرگرمیوں اور ایندھن کی بدولت چلنے والی موٹر گاڑیوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کاربن مونوآکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز (سی ایف سی ایز) اور نائٹروجن آکسائیڈ نے کرۂ ارض کو ازحد آلودہ کردیا ہے۔ خصوصاً نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز کے سورج کی روشنی کے ساتھ ہونے والے ری ایکشن نے اسموگ کو پیدا کیا ہے۔ یہ دھوئیں اور دھند کا امتزاج ہے، جو عموماً زیادہ گنجان آبادی والے صنعتی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہر یا دھند کی طرح دکھائی دینے والی فضائی آلودگی کی ایک مضر قسم اسموگ نائٹروجن آکسائڈ، سلفر آکسائیڈ، کاربن مونوآکسائڈ، کلورو فلورو کاربنز وغیرہ کے زیادہ اخراج کی وجہ سے ہوتی ہے اور حال ہی میں پاکستان کے کچھ علاقے بھی اسموگ سے متاثر ہوئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آلودگی اور صورت حال کا سدباب نہ ہونے کے سبب کراچی کے بھی اس آفت کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔
٭ حرارتی آلودگی
انسانی مداخلت کی وجہ سے پانی کے موجودہ ذخائر کے درجۂ حرارت میں ہونے والے اضافے سے پیدا ہونے والی حرارتی آلودگی انسانوں اور جانوروں خصوصاً سمندری حیات کے لیے ہلاکت خیزی کا سامان بن رہی ہیں۔ تھرمل آلودگی کی سب سے بڑی مثال بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس میں پانی کا بہ طور''کولینٹ'' استعمال ہے۔ اس طریقۂ کار میں پانی کو پلانٹ کو ٹھنڈ ا کرنے کے لیے استعمال کے بعد واپس قدرتی ماحول میں پھینک دیا جاتا ہے۔ واپس جانے والے پانی میں آکسیجن کی کمی سے ایکو سسٹم پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، جب کہ کراچی میں صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ بھی حرارتی آلودگی کا سبب بن رہا ہے۔
٭ مٹی کی آلودگی
صنعتی سرگرمیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے زہریلے مادوں کو زیرزمین بہانے اور دفن کرنے کی وجہ سے کراچی میں مٹی کی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، مٹی کی آلودگی میں اضافے کا سب سے اہم سبب بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی کیڑے مار ادویات، کلوری نیٹڈ ہائیڈرو کاربنز اور بھاری معدنیات ہیں۔
٭ پلاسٹک کی آلودگی
چند دہائی قبل تک کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتنوں اور خریداری کے لیے گھر سے تھیلے لے کر جانے کا رجحان عام تھا، لیکن جدیدیت اور سہولت کے نام پر پلاسٹک کے برتن، پلاسٹک کی تھیلیوں کے رجحان کو بہت تیزی سے فروغ دیا گیا۔ روزمرہ کی زندگی میں پلاسٹک سے بنی اشیاء کے استعمال نے انسانوں کے لیے سہولت کا سامان تو پیدا کیا مگر اس کا خمیازہ انہیں سمندری اور جنگلی حیات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ حل پذیر نہ ہونے کی وجہ سے کراچی میں پیدا ہونے والے کچرے میں پلاسٹک کی بھی بڑی مقدار ہے جو سمندروں، دریاؤں اور ندی نالوں میں آبی حیات کو موت سے ہم کنار کر رہی ہے تو دوسری جانب یہ جنگلی حیات کے لیے بھی زہرقاتل ثابت ہورہی ہے۔
٭روشنی کی آلودگی
روشنی سے پیدا ہونے والی آلودگی بھی کراچی والوں کے لیے شہر بسانے والوں کا ایک 'تحفہ' ہے۔ کسی شہر کی خوش حالی، امن و امان کی بہترین صورت حال، تجارتی سرگرمیوں کو لفظی جامہ پہنانے کے لیے اسے 'روشنیوں کا شہر' کہا جاتا ہے، لیکن روشنیوں کے شہر کو روشن رکھنے کے لیے جلنے والے لاکھوں قُممے، برقی لائٹس کے نتیجے میں ہونے والی روشنی آہستہ آہستہ ہمیں اندھیروں کی طرف دھکیل رہی ہے۔
روشنی کی آلودگی کا صحیح اندازہ کرنے کے آپ دیہات اور شہر کی راتوں سے کر سکتے ہیں، کراچی میں ہمیں نہ ستاروں کا جھرمٹ دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی ہم چاند کی پوری روشنی سے لطف اندوز ہوپاتے ہیں، اس کے برعکس دیہات اور ایسی جگہ جہاں مصنوعی روشنیوں کا استعمال کم ہو، وہاں نہ صرف آسمان صاف دکھائی دیتا ہے بل کہ کہکشائیں بھی انسانی آنکھ سے دیکھی جاسکتی ہیں۔ کرۂ ارض کی بلند ترین تہہ یعنی میسوسفر پر موجود سورج سے آنے والی بالائے بنفشی تاب کاری شعاعیں آئیونائزیشن (ایک طریقہ جس میں ایٹم اور مالیکیول الیکٹرون حاصل کرنے یا کھونے کے نتیجے میں مثبت یا منفی چارج حاصل کرتے ہیں) کا سبب بنتی ہیں۔
ان آئنز کے قدرتی برقی پارٹیکلز کے ساتھ ٹکرا کر دوبارہ ملاپ سے فوٹون خارج ہوتے ہیں، اس کے نتیجے میں رات میں ہمیں آسمان جگماتا نظر آتا ہے۔ تاہم زمین سے آسمان کی طرف سفر کرنے والی تیز روشنی آسمان سے کہکشاؤں اور ستاروں سے آنے والی روشنی کو بکھیر دیتی ہے اور ہم قدرت کی خوب صورتی کو دیکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔