’’چہیتوں‘‘ کی بغاوت
یہ ہرگز کوئی اتفاق نہیں کہ احتجاج کرنے والے سبھی افسران حکمرانوں کے ’’چہیتے‘‘ شمار ہوتے ہیں؟
قومی احتساب بیورو (نیب) نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں قومی احتساب آرڈیننس 1999کی شق 2 کے تحت 22فروری کو لاہور ڈیولپمنٹ اتھارٹی(ایل ڈی اے) کے سابق اور قائد اعظم تھرمل پاور لمیٹڈ کے موجودہ سربراہ ، احد چیمہ کو گرفتار کیا، جو اس سے قبل دو مرتبہ طلبی کے باوجودنیب کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے۔ گریڈ 19کے اس افسر نے اُلٹا نیب قوانین اور ادارے کی اہلیت ہی پر سوال اٹھا دیے۔ ایک سرکاری افسر نے ایسا کیوں کیا سب کو معلوم ہے۔
نیب کو ابھی چیمہ پر الزامات ثابت کرنے ہیں، تاہم اس کی گرفتاری کے بعد پاکستان میں بیوروکریسی کے طاقت ور ترین طبقے پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس (پی اے ایس) کے ، جو پہلے ڈسٹرک مینجمنٹ گروپ(ڈی ایم جی) ہوا کرتا تھا، چند افسران کی جانب سے آنے والا ردعمل خطرناک صورت حال کی نشان دہی کرتا ہے۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ یہ پاکستان کی سول سروس کے اہم ترین گروپ کی بات ہو رہی ہے۔
پنجاب کے ایک اعلیٰ افسر نے علی الاعلان اس ردّعمل کی منصوبہ بندی کی اور پی اے ایس اور پنجاب مینجمنٹ سروسز(پی ایم ایس) کے بعض افسران نے ''احد چیمہ کی غیر قانونی حراست'' کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے 23فروری کو ہڑتال کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے اراکین پنجاب اسمبلی سرکاری افسران کے اس احتجاج کی مذمت کرتے ، اس کے بجائے وہ خود اس میں شامل ہوگئے اور نیب کے خلاف قرارداد منظور کی۔
صوبائی محکمہ داخلہ کے انچارج میجر(ر) اعظم سلیمان سمیت دیگر دو ایڈشنل چیف سیکریٹری اس مہم کا حصہ نہیں بنے۔ چیف سیکریٹری پنجاب، زاہد سعید نے بظاہر تو اس ''قلم چھوڑ'' ہڑتال میں عملاً کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
اس وقت کے پی سی ایس افسران نے 2010میں سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی تھی(جو تاحال زیر التوا ہے)، جس میں دیگر امور کے ساتھ احد چیمہ کی گریڈ 18میں ہوتے ہوئے گریڈ 21کی تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تھا۔
قواعد کے مطابق کسی افسر کے خلاف کسی معاملے میں تفتیش زیر التوا ہی کیوں نہ ہو اس کی ترقی روک دی جاتی ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ کیوں احد چیمہ کو گرفتاری کے اگلے ہی روز گریڈ 20میں ترقی دے دی گئی؟ احد چیمہ کی تعلیمی قابلیت ماس کمیونیکشن میں ماسٹرز ہے اور انھیں تھرمل پاور کمپنی کا سی ای او بنایا گیا ہے، عہدے اور ان کی تعلیمی قابلیت میں کوئی مطابقت نہیں۔
''ہڑتالیوں''نے پی اے ایس اور پی ایم ایس (ماضی میں جسے پرووینشل سول سروس یا پی سی ایس کہا جاتا تھا) کے ساتھیوں کو اس احتجاج میں شرکت کے لیے اکسایا۔ چند ہی پی اے ایس افسران( 250میں سے صرف 18 جو دس فی صد سے بھی کم ہیں) اور 1400میں سے اٹھارہ سے بیس( دو فی صد سے بھی کم) پی ایم ایس افسر اس احتجاج کا حصہ بنے۔ حقیقی مسائل کے خلاف انفرادی احتجاج قابل قبول ہے لیکن حکومتی امور چلانے والوں کا احتجاج کس زمرے میں آتا ہے۔
پی اے ایس اور پی ایم ایس افسران کی غالب اکثریت نے بااثر ہڑتالیوں کا مقابلہ کیا اور اداروں کے ساتھ اپنی وفاداری نبھا کر بے مثال نظم و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ آئی جی کی قیادت میں پنجاب پولیس کے افسران بھی قابل تعریف ہیں جنھوں نے نیب حکام کے خلاف کارروائی کو روکا جو کسی بھی پُرتشدد واقعے کی صورت اختیار کرسکتی تھی۔ کئی ممتاز قانون دانوں نے اس طرز عمل کو پسند نہیں کیا ہے۔ میرے محترم دوست اعتزاز احسن نے کہا '' عمران لاڈلا ہے یا نہیں لیکن یہ (افسران) بگڑے لاڈلے ہیں۔''
ہڑتال میں حصے لینے والوں سے فوری طور پر باز پرس ہونی چاہیے یا نہیں۔ کیا بلوچستان، سندھ اور خیبرپختون خوا میں افسران کو بدعنوانی کے الزامات میں گرفتار کیا گیا تو وہاں قانون کی حکمرانی کے خلاف ایسی سرکشی دکھائی گئی اور گڈ گورننس کا یہ مظاہرہ کیا گیا؟ یہ سوال بار بار کیا جانا چاہیے کہ ان عناصر کے مقاصد کیا تھے اور کون ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔
نواز شریف گزشتہ کئی ماہ سے ریاستی اداروں کے لیے جو زبان استعمال کررہے ہیں، آخری چال کے طور پر یہ اسی کا ناگزیر نتیجہ ہے۔ حکمرانوں سے قربت رکھنے والے بیوروکریٹ خود کو قانون سے بالا سمجھتے ہیں، افواہ گرم ہے کہ نظام کو آزمانے کے لیے یہ بغاوت حکمرانوں ہی کی ایما پر کی گئی۔ اس بغاوت کا حصہ بننے والوں کے خلاف معلوم ذرایع آمدن سے بڑھ کر طرز زندگی کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
میڈیا میں وہ کون سے عناصر تھے جنھوں نے اسے ''مکمل'' اور ''پُرامن'' ہڑتال بنا کر پیش کیا اور نیب کے خلاف باغیانہ کارروائی سے متعلق رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کے لیے جھوٹا پراپیگنڈہ کیا؟ دوسری جانب نیب کا راستہ روکنے یا سپریم کورٹ پر دباؤ ڈالنے کے خلاف ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران نے بھرپور اتحاد اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غیرقانونی بائیکاٹ کے خلاف آواز اٹھائی اور ہڑتالی افسران کی جگہ بلامعاوضہ سرکاری خدمات انجام دینے کے لیے خود کو پیش کیا۔
ضابطہ فوج داری کی دفعہ 196کے مطابق کسی بھی ریاستی حکام کے خلاف ایف آئی آر کی بنیاد پر قانونی کارروائی ہوسکتی ہے اور اس کے لیے صرف (وفاقی یا صوبائی) حکومت کی جانب سے، دائرہ اختیار کے مطابق، نامزد افسر کی رسمی شکایت ہی کافی ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہوسکے گا کہ نظام ہی غلط افراد کے ہاتھوں میں ہو؟
ضابطہ فوجداری کے مطابق فتنہ انگیزی ترغیب جرم کے قریب تر قرار دی گئی ہے۔ نیب کی بار بار طلبی کو نظر انداز کرنا خود کو قانون، ریاست اور ملک میں رائج قواعد و ضوابط سے بالا تر تصور کرنے کے مساوی ہے۔ قومی احتساب آرڈیننس کے مطابق تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے سے متعلق جو حدود بیان کی گئی ہیں، چہیتوں کو اس کے مطابق دس برس کی سخت قید ہوسکتی ہے۔
پی اے ایس گروپ کے افسران نے نہ صرف پنجاب ایسٹا کوڈ 2013کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ وہ قواعد و ضوابط اور اپنے حلف سے روگردانی کے بھی مرتکب ہوئے ہیں۔ نیب سرکش عناصر کے خلاف اپنے حکام کی قانون کے مطابق کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں ضابطۂ فوجداری کی دفعات 186اور 189 کے تحت کارروائی کرسکتی ہے، جس میں ملزمان کو بھاری جرمانے اور قید کی سزا ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو بیوروکریسی کو سیاسی عزائم سے آلودہ کرنے کی راہ بھی روکی جاسکے گی۔
ہڑتالی افسران کے خلاف نیب کے زیرتشویش معاملے میں جانتے بوجھتے، بقائمی ہوش و حواس رخنہ اندازی کرنے، اس پر اثر انداز ہونے اور گمراہ کرنے جیسے جرائم کے ثبوت نیب کے پاس ہیں۔ ایسے عناصر کے خلاف کم از کم بغاوت یا بغاوت پر اکسانے کی کارروائی ہونی چاہیے۔ نیب اور بالخصوص پنجاب نیب کی کارکردگی لائقِ تحسین ہے، چیئرمین نیب جسٹس(ر) جاوید اقبال کو ثابت قدم رہنا ہوگا۔
یہ ہرگز کوئی اتفاق نہیں کہ احتجاج کرنے والے سبھی افسران حکمرانوں کے ''چہیتے'' شمار ہوتے ہیں؟ کیا وہ کسی پشت پناہی کے بغیر یہ قدم اٹھا سکتے تھے؟ کیا حکمرانوں نے اس طرز عمل کی مذمت کی؟ عوام کی خدمت کے جذبے کے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ استعداد کو بروئے کار لاتے ہوئے اخلاص سے کام کرنے والے سرکاری حکام گڈ گورننس کے ضامن ہیں۔ لیکن جو افسران ریاست ہی کے خلاف بغاوت کی منصوبہ بندی کریں انھیں کسی سرکاری محکمے میں ایک دن کے لیے بھی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
کسی فرد کے خلاف جرم قابلِ معافی ہوسکتا ہے لیکن ریاست کے خلاف کسی حرکت کو برداشت کرنا پورے نظام کو تباہ اور زمیں بوس کرنے کے مترادف ہے۔ اگر ایسے عناصر کے خلاف فوری کارروائی نہیں کی گئی تو خدا نخواستہ ملک داخلی انتشار کا شکار بھی ہوسکتا ہے۔
(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)