ثریا حیدرآبادی سے ثریا ملتانیکر تک
لاہور کی فلم انڈسٹری میں ثریا حیدرآبادی کو آگے بڑھنے کا راستہ نہ مل سکا تھا۔
ISLAMABAD:
ایک وہ بھی زمانہ تھا جب ریڈیو کے صداکاروں اور ریڈیو کے گلوکاروں اور گلوکاراؤں کی بڑی دھوم مچی رہتی تھی اور ریڈیو کا فنکار ہونا بھی ایک بڑا اعزاز ہوا کرتا تھا اور ان گلوکاروں کی بڑی قدر و منزلت ہوا کرتی تھی۔ لوگ اپنے پسندیدہ ریڈیو فنکاروں کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھنٹوں ریڈیو کے اسٹیشن کے باہر کھڑے رہا کرتے تھے۔
اس دور میں ریڈیو کے پروڈیوسروں کی بھی بڑی اہمیت ہوتی تھی۔ یہ اسی زمانے کی بات ہے ہم چار دوستوں نے کالج سے بی اے کرنے کے بعد ریڈیو پروڈیوسر بننے کے لیے درخواست دی تھی، ان چار دوستوں میں سلیم جعفری، حسن عسکری، امیر احمد خان کے ساتھ میں بھی شامل تھا۔
پھر ہوا یوں کہ سلیم جعفری، حسن عسکری اور امیر احمد خان پروڈیوسر کے امتحان میں پاس ہوکر ریڈیو پروڈیوسر بن گئے مگر میں اس امتحان میں فیل ہوگیا اور پروڈیوسر بننے سے محروم رہ گیا تھا۔ آہستہ آہستہ میرے تینوں دوست اسلام آباد سے ٹریننگ لے کر آگئے اور مختلف ریڈیو اسٹیشنوں سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوگئے تھے۔ میرے دوست امیر احمد خان کو حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن بھیج دیا گیا تھا۔
اس دوران میں بطور فلمی صحافی ہفت روزہ نگار سے وابستہ ہوگیا تھا، اسی طرح میری نہ صرف ریڈیو کے فنکاروں بلکہ فلم آرٹسٹوں سے بھی بڑی دوستیاں اور ملاقاتیں ہونے لگی تھیں۔ اس دوران میرے دوست کلاسیکل سنگر اور حیدرآباد ریڈیو پروڈیوسر امیر احمد خان نے ایک دن پیغام بھجوایا کہ دو تین دن کے لیے حیدرآباد آجاؤ۔ تم آؤ گے تو حیدرآباد کی مشہور گلوکارہ ثریا حیدرآبادی سے بھی ملاقات کراؤںگا، وہ ہمارے دہلی گھرانے کی شاگرد ہے اور بہت اچھی غزل سنگر ہے، کلاسیکل بھی بہت اچھا گاتی ہے۔
میں یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ امیر احمد خان جو اسلامیہ کالج میں میرا کلاس فیلو تھا، وہ مشہور دہلی گھرانے کے موسیقار استاد امراؤ بندو خان کا بھانجا اور برصغیر کے نامور سارنگی نواز استاد بندوخان کا نواسہ تھا اور وہ خود بھی کلاسیکی موسیقی میں بڑی دسترس رکھتا تھا اور ایک اچھا غزل گائیک بھی تھا۔
امیر احمد خان نے حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن کے قریب ہی ایک چھوٹا سا کمرہ کرائے پر لے رکھا تھا، جس میں دو بیڈ کی جگہ تھی۔ میں جب اس سے ملا تو وہ بہت خوش ہوا، اس نے ایک دن کی چھٹی لے لی تھی اور پھر اس دن اس نے مجھے حیدرآباد کی خوب سیر کرائی تھی اور اس رات طے شدہ پروگرام کے ساتھ ہماری ریڈیو کی مشہور گلوکارہ ثریا حیدرآبادی کے گھر رات دعوت تھی۔
ہم نے شام کی چائے بھی ثریا حیدرآبادی کے گھر اس کے ہی اصرار پر پی تھی، میرا تعارف امیر احمد خان بطور شاعر اور فلمی صحافی کراچکا تھا۔ ثریا حیدرآبادی سانولے سے رنگ کی بڑی نفیس خاتون تھیں۔ ملاقات کے دوران موسیقی کے ساتھ ساتھ شعر و ادب پر بھی کافی دیر تک گفتگو رہی اور مرزا غالب سے لے کر فیض احمد فیض تک بڑے سیر حاصل تبصرے ہوتے رہے اور اس طرح وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔ انھوں نے رات کے کھانے کا بھی بڑا اچھا اہتمام کیا تھا، خاص طور پر جام شورو کے میٹھے پانی کی تازہ مچھلی اس دعوت کی اہم ڈش تھی۔
کھانے کے دوران بھی ہندوستان اور پاکستان کے بیشتر موسیقی کے گھرانوں، ان کی گائیکی کے بارے میں بھی باتیں ہوتی رہیں۔ ثریا حیدرآبادی خود بھی دہلی گھرانے ہی کی شاگرد تھیں۔ کھانے کے بعد موسیقی کی ایک محفل بھی سجائی گئی۔ استاد امیر احمد خان نے خود ہارمونیم پلے کیا، ریڈیو اسٹیشن ہی سے ایک طبلہ پلیئر کو بھی بلالیا گیا تھا۔ ثریا حیدرآبادی نے پہلے بابا بلھے شاہ کا کلام سنایا پھر شاہ لطیف کے کلام کو سروں میں سجایا اور پھر غزلوں کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے غالب کی غزل شروع کی جس کا مطلع تھا:
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
اس دوران اساتذہ کی کئی غزلیں سنانے کے بعد ثریا حیدرآبادی نے کچھ نیم کلاسیکل انداز کی سنائیں، جن میں استاد امیر احمد خان نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ آخر میں ثریا حیدرآبادی نے اپنی گائی ہوئی وہ غزل سنائی جس کی ریڈیو پر ان دنوں بڑی دھوم تھی اور ثریا حیدرآبادی کے نام سے وہ غزل بڑی مشہور تھی جس کے بول تھے:
بھولے سے بھی کوئی یہاں کہہ دو کہ نہ لگائے دل
ایک ہنسی کے واسطے شام و سحر رُلائے دل
سروں کے گہرے رچاؤ کے ساتھ ثریا حیدرآبادی گارہی تھیں اور ہم ان کی آواز کے سحر میں کھوئے ہوئے تھے۔ نصف رات تک یہ سروں کی محفل چلی اور پھر ہم دونوں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان سے رخصت لی۔ ثریا حیدرآبادی نے بعد میں لاہور کی فلم انڈسٹری میں بھی اپنی آواز کا جادو جگایا تھا۔ پنجابی فلم ''ہڈ حرام'' میں ان کا گایا ہوا ایک گیت جسے شاعر منظور جھلا نے لکھا تھا بڑا مشہور ہوا تھا جس کے بول تھے:
ہنجو نذرانے تیرے انکھیاں میریاں
دکھدا نہ گارا کوئی راتاں ہنیریاں
مگر لاہور کی فلم انڈسٹری میں ثریا حیدرآبادی کو آگے بڑھنے کا راستہ نہ مل سکا تھا۔ اب میں آتا ہوں ملتان ریڈیو کی ممتاز گلوکارہ ثریا ملتانیکر کی طرف جس کی ایک ہی غزل نے اسے سارے برصغیر میں مشہور کردیا تھا اور وہ غزل ثریا ملتانیکر نے کراچی ریڈیو اسٹیشن کے لیے پہلی بار ریکارڈ کرائی تھی، جس کے کمپوزر بنگالی موسیقار ڈیبوبھٹا چاریہ تھے، جو ان دنوں ریڈیو پاکستان کراچی سے بطور موسیقار منسلک تھے، وہ غزل مسرور انور کی لکھی ہوئی تھی۔ ان دنوں مسرور انور ریڈیو پاکستان کراچی کے کمرشل سروس میں بطور اسکرپٹ رائٹر ملازم تھے، اس کی بھی یہ پہلی غزل تھی جو کسی سنگر نے ریڈیو کے لیے گائی تھی اور اس غزل کا مطلع تھا:
محبت کی جھوٹی اداؤں پہ صاحب
جوانی لٹانے کی کوشش نہ کرنا
بڑے بے مروت ہیں یہ حسن والے
کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا
ثریا ملتانیکر کی آواز بڑی گرج دار اور منفرد تھی اور اس غزل نے ریڈیو سے نشر ہوتے ہی سارے پاکستان میں اپنی شہرت کے جھنڈے گاڑدیے تھے۔ پھر اس غزل کی دھوم فلمساز اقبال شہزاد تک بھی پہنچ گئی تھی، انھوں نے یہ غزل اپنی فلم ''بدنام'' میں نئے سرے سے ریکارڈ کرائی اور فلم میں اس غزل کو اداکارہ نبیلہ پر فلمایاگیا، فلم کا اسکرپٹ جاندار تھا، ریاض شاہد کے مکالموں کے ساتھ ساتھ اس غزل نے بھی فلم میں جان ڈال دی تھی اور یہ غزل فلم کی ہائی لائٹ ہوگئی تھی۔
فلم نے بے تحاشا کامیابی حاصل کی تھی مگر اسے موسیقاروں کی بے حسی کہیں یا ثریا ملتانیکر کی قسمت کہ اس غزل کے بعد کسی فلم میں بھی ثریا ملتانیکر کی آواز کو استعمال نہیں کیا گیا اور اس مشہور غزل کے بعد ثریا ملتانیکر بھی گلوکار ایس بی جون کی صف میں آگئی تھی جس کا ایک گیت جس کے بول تھے:
تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے
یہ مانا کہ محفل جواں ہے حسیں ہے
فلم ''سویرا'' کے اس مشہور گیت کے بعد ایس بی جون شہرت حاصل کرکے بھی ناکامی کی گہری دھند میں ڈوب گیا تھا، قسمت کے کھیل عجیب اور نرالے ہوتے ہیں۔ میں نے ثریا ملتانیکر کو پہلی بار مشہور کلاسیکل سنگر اور موسیقار استاد امراؤ بندوخان کے گھر ایک خوبصورت محفل موسیقی کے دوران روبرو سنا تھا اور وہ محفل بھی میرے لیے ایک یادگار محفل تھی۔
ثریا ملتانیکر کی آواز میں مشہور غزل کے شاعر مسرور انور کو فلمی دنیا نے ہاتھوں ہاتھ لیا تھا اور پھر مسرور انور نے کم و بیش تیس سال تک فلمی دنیا پر اپنے گیتوں کا سکہ جمایا تھا آج مسرور انور دنیا میں نہیں ہے مگر اس کے سدا بہار بے شمار گیت ہمیشہ اس کی یاد دلاتے رہیںگے۔