عہد حاضر کے تناظر میں ایک نظم ’’خودکش‘‘
ان دہشت انگیز اور خون سے لت پت واقعات کو محسوس کرتے ہوئے ان کی عکاسی کرنا آسان کام نہیں ہے۔
''خود کش'' شہزاد نیر کی ایک خوبصورت نظم کا عنوان ہے۔ زندگی اور شاعری کے خوبصورت امتزاج کا اظہار کرتی ہوئی یہ نظم اپنے ہی سماجی پس منظر میں واقع ایک اہم مگر دہشت انگیز سماجی، سیاسی اور مذہبی حقیقت سے جمالیاتی پیرایوں میں نبرد آزما ہوتی ہے۔ شہزاد نیّر نے ایک ایسے کردار یعنی ''خود کش'' حملہ آور کو نظم کا موضوع بنایا ہے کہ جس سے ہمارا معاشرہ 11 ستمبر (نائن الیون) کے بعد افغانستان پر مسلط کردہ سامراجی دہشت و بربریت کے نتیجے میں جنم لینے والی خوفناک صورتحال سے بہت زیادہ متاثر ہو کر ایک کردار کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
نظم کے عنوان کو دیکھتے ہی قتل و غارت، آہ و پکار، دہشت گردی، انتقام، جنگ، بے بسی، مذہبیت، سامراجیت، بم اور ٹیکنالوجی، وغیرہ جیسے تصورات کے علاوہ یہ خیال بھی ذہن میں جاگزیں ہوتا ہے کہ شاعر بھی انھی تصورات سے برسرِ پیکار ہوا ہو گا۔ لیکن نظم آئیڈیالوجی کے اظہار سے زیادہ ایک مخصوص عمل کے رونما ہونے کے بعد ان خارجی اثرات و نقوش کا اظہار کرتی ہے، جو شاعر کے جذبات، احساسات اور کیفیات پر مرتسم ہوتے ہیں۔ ''خود کش'' اس نظم کا ایک ایسا ''بنیادی'' استعارہ (سگنی فائر) ہے کہ خواہ اسے تجرید کی کسی بھی سطح پر لے جایا جائے، اس کے مافیہا (سگنی فائڈ یا معروضی) سے منقطع نہیں کیا جا سکتا۔
شہزاد نیّر نے نظم میں متضاد نوعیت کی آئیڈیولاجیکل کشمکش میں الجھنے سے بھی گریز کیا ہے۔ اس کے باوجود اس میں استعارے کی نوعیت ایسی نہیں ہے کہ مفاہیم میں تجرید کا امکان پیدا ہونے سے ابہام کا گزر ہو۔ استعارے کی سرشت میں یہ پہلو موجود ہوتا ہے کہ اسے خواہ کتنی ہی مہارت سے استعمال کیا جائے، معنوی اعتبار سے وہ اپنے موضوع کی ہر فکری جہت کا احاطہ نہیں کر سکتا، اور نہ ہی ابہام کی کسی بھی سطح پر وہ مفاہیم کے انکشاف کو روک سکتا ہے۔ ابہام کا مطلب ہے معنی کا عدم تعین! لیکن اس نظم میں ایسا کوئی عمل رونما نہیں ہوتا، بجز اس کے کہ نظم کو اس کے تناظر سے منقطع کر دیا جائے۔
شہزاد نیر کی مذکورہ نظم چار بندوں پر مشتمل ہے، جن میں تین مختلف نوعیت کے تصورات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ نظم کا پہلا بند کچھ یوں ہے: آج پھر رخ پہ مری اپنی شباہت لے کر/ موت رستے میں چلی آئی ہے/ راہ میں خلق کے چہرے تو دکھائی دیں گے/ موت کا روپ، جدا رخ میں نظر آئے گا/ آنکھ پھٹتے ہوئے پیکر پہ ٹھہر جائے گی ۔۔۔ اور سوچے گی/ کیا میری اس سے شناسائی تھی۔ تمام کی تمام امیجری معنی کی تشکیل کا نہیں بلکہ معنی پر گرفت کرنے کا عمل ہے۔ پہلا ہی بند مختلف کیفیات کا مجموعہ ہے، کہیں کوئی ابہام نہیں ہے، کوئی ایسا سگنی فائر نہیں ہے کہ جس کے خیال (سگنی فائڈ) تک رسائی نہ ہو سکے۔ شاعر کی تمام کیفیت کا معروض (سگنی فائڈ) اس جیسا انسان ہے۔
لیکن'' پھٹتے ہوئے پیکر'' نے شاعر کو ایک دہری کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آخری دو مصرعے اسی کیفیت کا اظہار ہیں کہ جن میں شاعر نے بصیرت اور بصارت کے فرق کو حذف کر دیا ہے۔ پانچویں مصرعے کو پڑھنے کے بعد ہم یہ سوال بھی اٹھا سکتے ہیں کہ آنکھ تو کبھی نہیں سوچتی، سوچنا تو ذہن کا کام ہے، لیکن شہزاد نیّر نے آنکھ کو ایک ایسے مرکزی استعارے کے طور پر پیش کیا ہے کہ جس میں ''شناسائی'' اور تفکر دونوں موجود ہوں۔ تاہم کسی ایک کے تفاعل کو کلی طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ تفکر اور آنکھ کے درمیان ایک ربط موجود ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص تفکر کے عمل سے گزر رہا ہو، تو اس کا چہرہ اور آنکھیں اس عمل کو منعکس کر رہی ہوتی ہیں۔
یعنی تفکری عمل کے نقوش چہرے پر ثبت ہوتے ہیں۔ اگر آنکھوں کی گہرائی میں اتریں تو ان کے اندر تفکری عمل کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ یہی پہلو اس نظم کی خصوصیت بھی ہے کہ جہاں آج کل مابعد جدیدیت کے نام سے انسان کو ہی لا مرکز کیا جا رہا ہے تو وہاں انسان سے منسلک صلاحیتوں (Faculties) پر کامل انحصار کر کے انسان کی اہمیت کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ کہ انسانی صلاحیتوں پر انحصار کیا گیا ہے بلکہ ان سے گہرے احساسات اور تصورات بھی منسلک کیے گئے ہیں۔
پہلے بند کے اختتام پر نکتہ یہ سامنے آتا ہے کہ ''خود کش'' بلاشبہ ایک عام انسان ہے۔ شاعر کی اس سے شناسائی تو تھی مگر انسان ہونے کی حد تک! تاہم جو عوامل اس کو اس سطح تک لے گئے کہ وہ ''خود کش'' کا روپ دھار چکا ہے، ان کی نوعیت متضاد ہے۔ اس ''پھٹتے ہوئے پیکر'' کی اصل ''شناخت'' کو کریدنے کا مطلب آئیڈیالوجی کی دنیا میں داخل ہونا تھا، جس سے گریز کرنا ہی شاعر نے مناسب سمجھا۔
تجریدیت پسند ہمیشہ سے موضوعات کے سماجی، سیاسی اور حتیٰ کہ انسان کے وحدتی وجود سے متعلق پہلوؤں سے خائف رہے ہیں۔ ان کے لاشعور میں یہ نکتہ گردش کرتا رہتا ہے کہ کہیں آئیڈیالوجی کے اغلب کردار سے شعری جمالیات ثانوی یا انفعالی شکل نہ اختیار کر لے۔ ماورائیت اور تجریدیت بھی آئیڈیالوجیز کے زمرے میں ہی آتی ہیں ، یہ آفاقی سچائیاں ہر گز نہیں ہیں، ان کا کام بھی فنی ''تخلیق'' میں مضمر جمالیاتی اثرات کے احساس کو محو کرتے ہوئے خود کو ابھارنا ہوتا ہے۔
سماجی و سیاسی موضوعات چونکہ شاعر کی شعوری سطح کا بھی تعین کرتے ہیں، اس لیے جمالیاتی تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسے موضوعات سے برسرِ پیکار ہونے کی بجائے بیشتر شعراء ان سے گریز کرنے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اگر آئیڈیالوجی غالب آ جائے تو یقیناََ مافیہا (سگنی فائڈ) زیادہ فعال اور متحرک نظر آتا ہے، اور اگر ہیئت (سگنی فائر) کا کردار اغلب ہو تو مافیہا سے متعلق معنویت کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہمہ وقت موجود رہتا ہے۔ مذکورہ نظم ہیئت اور مافیہا کی وحدت سے معنویت کے احساس پیدا کرتی ہے۔ شہزاد نیّر کی نظم میں تصورات کی تحلیل کی بجائے ان کی ترکیب کا رجحان اغلب ہے تا کہ فہم کو بروئے کار لا کر نظم کو قابل فہم بنایا جا سکے۔
نظم کے دوسرے اور تیسرے بند میں خود کش حملے کے گہرے خارجی اثرات کو استعاروں اور تشبیہات کے کثرتِ استعمال نے خوبصورت امیجری میں تبدیل کر دیا ہے۔ نظم کے پہلے اور دوسرے بند کے درمیان ایک فتق (Rupture) دکھائی دیتا ہے، مگر دوسرا اور تیسرا بند باہم مربوط ہیں، لیکن خصوصیت ان دونوں بندوں میں متشکل کیے گئے منظر نامے کی یہ ہے کہ استعاروں (سگنی فائر) کی کثرت کے باوجود کہیں بھی نظم کے بنیادی استعارے (''خودکش'') سے ربط منقطع نہیں ہوتا۔ دوسرے اور تیسرے بندوں میں معنی پہلے ہی سے موجود نہیں ہے، بلکہ اسے جنم دینے کی کوشش کی گئی ہے تا کہ اسے حقیقی واقعے کے قریب لا کر قابل فہم بنایا جا سکے۔
فہم کا متحرک ہونا ایک اور انسانی صلاحیت کو اجاگر کرنا ہے۔ یہاں ملاحظہ کریں: آج بھی خوں کی ندی میں نہایا سورج/ آج پھر ان شعاعوں میں لہو کاری ہے/ رنگ سب ایک ہی کایا میں ڈھلے جاتے ہیں/ دشت و دل ایک سے منظر میں چلے جاتے ہیں/ کنج لالہ ہو کہ ہو سینۂ ارضِ وطن/ ہر جگہ ایک سی گل کاری ہے/ ! آنکھ پر دید بہت بھاری ہے۔ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ تمام امیجری کا انحصار'' آنکھ'' پر ہے۔''آنکھ'' انسان کے اعضاء میں سے ایک ہے، جو اس کے محض ہونے کا نہیں بلکہ احساسات کو جنم دینے اور شعور کو متحرک کرنے کا ''استعارہ'' بھی ہے۔ واقعات کے نفسیاتی اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔
ان دہشت انگیز اور خون سے لت پت واقعات کو محسوس کرتے ہوئے ان کی عکاسی کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اسی طرح تیسرا بند دوسرے ہی کا تسلسل ہے: رنگ اب پیڑ کے سائے اترے/ سوکھتے حلق ۔۔۔ ٹپکتی بوندیں/ سرخ دانوں سے ٹپکتی بوندیں/ پیاس کا حقِ نمک اور بڑھا دیتی ہیں/ گُل کی پوشاک ہو یا پھول سے تن کی پوشاک/ ہر جگہ ایک سی گل کاری ہے۔ ''خود کش'' حملے سے منسلک معنویت کا یوں اظہار کرنا شہزاد نیّر ہی کی خصیوصیت ہے! نظم کے آخری بند میں ایک پکار سنائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ابھی معنویت کو رخصت کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ اس معنویت کو ممیز کرنا زیادہ ضروری ہے جو جمالیات اور اخلاقیات کو ہم آہنگ کر دے۔
شاعر خود اخلاقیات کا مجسمہ بن کر اس ہولناک عمل کے تدارک کی خواہش ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ساتھیو! کوئی تو آواز ملے۔۔/ ایک آواز میری شباہت لے کر'' آئے۔ اگرچہ یہاں کسی مسیحا کے انتظار کا تأثر بھی ابھرتا ہے، مگر حقیقت میں ''آواز'' کا استعارہ ایک اجتماعی شعور کی جانب اشارہ ہے؛ ایسا اجتماعی شعور جو محض'' آواز'' کی سطح پر مماثلت نہ رکھتا ہو، بلکہ عملی سطح پر فعال کردار ادا کر سکتا ہو۔ اس طرح نظم کا آخری بند جو ایک مخصوص عمل کے تداراک کی خواہش کو دکھاتا ہے، آخری تین مصرعوں میں ایک طرح کی یاسیت پر منتج ہوتا ہے کہ آنکھ میں صرف اندھیرے ہیں ...... سماعت کی طرح/ دور تک آتی نظر آتی نہیں ہے آواز! / دور تک شور کا سناٹا ہے۔