قصہ کرسی کا
کرسی کو حاصل کرنے کے لیے دیار غیر سے لوگ آ رہے ہیں، اقتدار کی ہوس ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
جناب یہ کرسی بھی کیا چیز ہے، بے شمار اختیارات کی مالک، جو چاہے وہ کر سکتی ہے۔ بے حد دلفریب ہے، لوگ اس کے عاشق ہیں، سیاستدان اسے حاصل کرنے کے لیے جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، اس کو پانے کے لیے زندگی کی قیمتی متاع لٹانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں، یہ کرسی وہ چیز ہے، جو اپنوں کی محبت چھین لیتی ہے اور ایک دوسرے کا ازلی دشمن بنا دیتی ہے، اس کرسی کے پیچھے فتح و شکست کی بے شمار داستانیں پنہاں ہیں اور عیاں ہیں۔
تاریخ کے طالب علم اس کی جفا و وفا سے اچھی طرح واقف ہیں، یہ اچھے اچھوں کو نچا دیتی ہے، زنداں کی چار دیواری میں پہنچا دیتی ہے، اور خون کی ہولی کھیلنے والوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہے، یہ کرسی جس قدر مضبوط ہے اتنی ہی کمزور بھی ہے مگر اس پر براجمان ہونے والا اس بات کو یکسر بھول جاتا ہے کہ کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کرسی بے وفا و ہرجائی کا رول ادا کر سکتی ہے اس کا ساتھ ہمیشہ کے لیے چھوڑ سکتی ہے، اسے قبر کے اندھیروں میں اتار سکتی ہے، لیکن کرسی کا نشہ اس قسم کی باتیں سوچنے کے لیے وقت ہی کہاں دیتا ہے۔
موجودہ عہد کے ممتاز شاعر فضا اعظمیٰ کی کتاب بعنوان ''قصہ پاکستانی کرسی کا'' حال ہی میں شایع ہوئی ہے، یہ دوسرا ایڈیشن ہے، پہلا ایڈیشن 1998 میں شایع ہوا تھا۔ فضا اعظمیٰ نے پاکستانی کرسی کی بہت اچھے انداز میں عکاسی کی ہے، پاکستان کی کرسی کے حوالے سے صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔
یہ کرسی ہے
یہ کرسی گھومتی ہے' جھومتی ہے' گنگناتی ہے
یہ کرسی دیکھتی ہے' بولتی ہے' کسمساتی ہے
جو اس پر بیٹھتا ہے' یہ اسی کے گیت گاتی ہے
اسے لوری سناتی ہے
اسے راہیں دکھاتی ہے
برا کیا ہے بھلا کیا ہے' اسے سب کچھ بتاتی ہے
اسے آفات سے محفوظ رکھتی ہے
کبھی بھونچال آتا ہے تو یہ اس کو بچاتی ہے
آج کل پاکستان کے منظر نامے میں کرسی کے طلبگار کرسی کے حصول کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں، سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور عوام کو ایک بار پھر سنہرے خواب دکھانے کے لیے طرح طرح کی ترکیبیں کر رہے ہیں کہ اقتدار کی کرسی ہر حال میں انھیں ہی مل جائے حالانکہ ماضی میں وہ اس کرسی کے مزے لے چکے ہیں لیکن عوام کو زندگی کے ہر معاملے میں بدمزہ کیا ہے۔ ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے، ان کی عزت نفس کو ہی داؤ پر نہیں لگایا گیا بلکہ ان کے وقار کو خصوصاً عورت کی عزت کے پرخچے اڑائے گئے، کسی حکمران نے پلٹ کر نہ پوچھا کہ اس گھرانے پر کیا گزری جس کی بیٹی اغوا کی گئی تھی یا جس کے گھر میں ڈکیتی پڑی یا جسے سر راہ لوٹ لیا گیا۔
غریب کے گھر میں فاقے پڑتے رہے، چولہا ٹھنڈا رہا، وڈیرے، زمیندار اپنے ہاریوں کو قید کرتے رہے، ان پر ظلم ڈھاتے رہے، عورت کاری ہوتی رہی، اس کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ سڑکیں ناپتے رہے، ڈگریاں لیے سرکاری اداروں میں ملازمت کی خواہش لیے یہ دفتروں کی خاک چھانتے رہے، لیکن گوہر مقصود ان لوگوں کے ہاتھ آیا جو اس کے اہل نہ تھے، ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں، ناکامی کے نتیجے میں مایوس شخص نے موت کو ترجیح دی، کتنے گھرانے خودکشی یا قتل و غارت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، تعلیمی زوال نے پورے ملک میں اندھیرے کی چادر تان دی ہے، اس تاریکی نے اچھے برے کی تمیز مٹا دی۔
اب جس کا جو دل چاہتا ہے وہ کرتا ہے، قاتل کو ذرا خوف نہیں کہ وہ پکڑا بھی جا سکتا ہے، بھتہ خور بھی تاجروں سے بھتہ لینا، انھیں اغوا کرنا، زدوکوب کر کے ان کی جان لینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آج تک کوئی بھتہ خور، کوئی قاتل پھانسی نہیں چڑھا۔ مارا بے چارا غریب انسان جاتا ہے چونکہ نہ اس کے پاس لاٹھی ہے اور نہ بھینس۔ اب وہ اپنی جان نہ گنوائے تو کیا کرے؟
کرسی کو حاصل کرنے کے لیے دیار غیر سے لوگ آ رہے ہیں، اقتدار کی ہوس ابھی ختم نہیں ہوئی ہے، سابق صدر کو ہی لے لیجیے وہ بھی بالآخر تشریف لے آئے۔ اب ان پر غداری کا مقدمہ چلانے کی تیاری کی جا رہی ہے کہ انھوں نے اپنے دور حکومت میں آئین کو پامال کیا تھا۔ جتنے بھی سابق وزرا ہیں ان کے دور حکومت میں قتل و غارت عام تھا، ناانصافی، تشدد، ظلم، عروج پر تھا، مہنگائی کا زہریلا ناگ ہر گھر میں بڑی آسانی سے داخل ہو گیا تھا اور اب ان سب تکلیفوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ لوگ آزما چکے ہیں مزید آزمانے کے خواہشمند نہیں ہیں، لیکن سابق حکمران ہر حال میں حکمرانی چاہتے ہیں کہ سلطنت کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔
سیاہ بھی اپنا سفید بھی اپنا، کوئی کچھ کہنے والا نہیں، اگر کوئی کہے گا بھی تو سننے والے کوئی نہیں، چیف جسٹس بارہا احکامات صادر کر چکے ہیں لیکن کوئی نوٹس نہیں لیتا۔ سردار اختر مینگل نے بھی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا ہے، انھوں نے کہا کہ ان کی پارٹی عام انتخابات میں بھرپور حصہ لے گی اور اگر اقتدار ملا تو پاکستان کے آئین کے تحت حلف اٹھائیں گے۔ کاش! کہ حلف اٹھانے والے سچا حلف اٹھائیں۔ ہائے! کرسی کے حصول کے لیے کیسے کیسے خواب دیکھے جا رہے ہیں۔ لیکن قوم کی بھلائی کے لیے کسی نے کوئی کام نہیں کیا۔ اقتدار کی بندر بانٹ کرنے والے ایک ہی سوچ اور ایک ہی طرح کے خیالات کے مالک ہیں۔ پاکستان کی بنیادوں میں دیمک نے اپنا گھر بنا لیا ہے۔
خوشحالی اور ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے والا پاکستان اب بدحالی کی تصویر بن چکا ہے، صنعتیں تباہ ہو گئی ہیں، بے شمار کارخانے اور فیکٹریاں دوسرے صوبوں میں منتقل ہو چکی ہیں چونکہ کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ لینے والوں نے لوگوں کے کاروبار پر شب خون مارا ہے، رات میں ہی نہیں بلکہ دن کے اجالوں میں بھی یہ لوگ سرگرم رہتے ہیں، انھیں کوئی گرفتار کرنے والا نہیں، کیا اتنے لوگوں کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے تختہ دار پر چڑھا دیا گیا ہے یا چڑھا دیا جائے گا۔ ملزموں اور مجرموں کا تحفظ عام شہریوں سے کہیں زیادہ ہے۔
امیدواروں کے لیے ڈگری کی شرط رکھی گئی تھی لیکن اب یہ شرط بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اور اب بہت سے امیدوار حضرات بجلی و ٹیلی فون کے بلوں کے نادہندہ قرار دیے گئے ہیں۔
اس بار نوجوانوں اور دانشوروں کے لیڈر عمران خان بھی ہیں اور اﷲ کا حکم ہوا تو انشاء اﷲ انھیں عظیم کامیابی سے اﷲ ہمکنار کرے گا اور اقتدار کی آزمائش میں ڈالے گا اور اگر آزمائش میں پورے اترے تو پاکستان اور اس کی عوام کی قسمت ہی بدل جائے گی، بے شمار دکھی دلوں کی دعائیں عمران خان کے ساتھ ہیں کہ قوم اب تبدیلی چاہتی ہے، دکھوں کی آگ میں جھلستے ہوئے بہت سارے سال بیت گئے ہیں، عدم تحفظ نے پاکستانی قوم کا سکون چھین لیا ہے۔ صاحب اقتدار و اختیار تو بلٹ پروف گاڑیوں، گارڈز اور پولیس کی نفری کے ساتھ شاہراہوں سے گزرتے ہیں اور بے چارے عوام سڑکوں کی خاک چھانتے ہیں اور بسوں کی چھت پر بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔
چنگ چی رکشوں کے بارے میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھا، لوگ شروع میں ان رکشوں میں سفر کرتے ہوئے شرماتے تھے، لیکن آج ان رکشوں میں سفر کرنا مجبوری بن چکا ہے چونکہ سڑک سے بسیں غائب ہیں، اگر چند ہیں تو بے حد بری کنڈیشن میں، رکشے اور ٹیکسی والے منہ مانگے دام مانگتے ہیں، اگر کرایہ کسی جگہ کا 100 ہے تو دو سو اور اگر دو سو ہے تو چار سو طلب کرتے ہیں، محدود آمدنی والا شخص رکشہ، ٹیکسی پر سفر کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے والے حکمران کاش! کچھ اچھا کرتے اور ماضی سے سبق سیکھتے کہ کرسی کسی سے وفا نہیں کرتی ہے، آج ہے کل نہیں۔