برق گرتی ہے تو…
فلسطین، افغانستان، عراق، شام، برما، کشمیر سمیت ساری دنیا میں روز مسلمانوں کو ہی اپنے لاشے اٹھانا پڑتے ہیں۔
WASHINGTON:
دنیا کے حالات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام غموں، دکھوں، آفات، قتل و غارتگری و خونریزی نے مسلمانوں کے گھروں میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔ ہر پریشانی و مصیبت مسلم امہ کے کمزور وناتواں لوگوں پر ہی اتر رہی ہے۔
مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک ہر جانب مسلمانوں کے ہی خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ ابھی ایک درد کم نہیں ہوتا کہ دوسرا اس شدت سے اٹھتا ہے کہ پہلے کی تکلیف بھول ہی جاتی ہے۔ ہر چڑھتا سورج کسی نئی آفت کی خبر دے رہا ہوتا ہے۔ ہر نئی صبح کوئی نئی قیامت کو لیے طلوع ہوتی ہے۔ قدم قدم پر اتنے مصائب ہیں۔ دنیا بھر میں مسلمان ہی نت نئے مصائب کا شکار ہیں۔
فلسطین، افغانستان، عراق، شام، برما، کشمیر سمیت ساری دنیا میں روز مسلمانوں کو ہی اپنے لاشے اٹھانا پڑتے ہیں۔ خون مسلم مچھر اور مکھی کی جان سے بھی ارزاں ہوگیا اور مسلمانوں کی جانیں ساحل سمندر پر پڑے ریت کے ذرات اور جنگلات میں درختوں سے گرے خشک پتوں سے بھی بے وقعت ہوگئی ہیں۔شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے آج کے حالات کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا ''برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر''۔
شام کے شہر غوطہ میں ایک نئی قیامت ڈھائی گئی ہے۔ بشارالاسد اور روسی فوج کے طیاروں نے غوطہ کو کھنڈر میں بدل دیا اور صرف ایک ہفتے میں بمباری کر کے چھ سو سے زاید افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے، جن میں 121 بچے اور سیکڑوں خواتین بھی شامل ہیں۔ بچے تو پھولوں کی مانند ہوتے ہیں، جن پر دشمنوں کو بھی پیار آجاتا ہے، مگر دشمنوں سے مسلمانوں کے بچے بھی محفوظ نہیں۔ شام میں دشمن تو اپنے سینوں میں شاید بھیڑیے کا دل رکھتے ہیں۔
شامی فورسز نے بچوں کے اسپتال سمیت مختلف اسپتالوں پر بم برسا کر انھیں ملبے کا ڈھیربنا دیا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) نے شام میں بمباری کے باعث بچوں کی مسلسل ہلاکتوں پر کہا تھا کہ کسی لغت میں وہ الفاظ نہیں جو اس دکھ کے اظہار کرنے کی طاقت رکھتے ہوں، اس لیے احتجاجاً '' خالی اعلامیہ '' جاری کرتے ہیں۔
یونیسیف کے ریجنل ڈائریکٹر برائے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ نے کہا کہ جنگ کے دوران بچوں کی ہلاکتیں ہمارے مستقبل کا قتل ہیں، جس سے دنیا آنے والی نسل کے بہترین ذہنوں سے محروم ہو جائے گی اور ان معصوم جانوں کے زیاں پر والدین کو تسلی دینے اور انصاف کے حصول کی یقین دہانی کے لیے الفاظ نہیں مل رہے ہیں۔
شیر خوار بچوں کی لاشیں اور ماؤں کی آہ و بکا بھی عالمی ضمیر کو نہ جھنجوڑ سکی۔ خون میں نہائے پھول سے بچے عالمی برادری سے اپنا قصور پوچھ رہے ہیں، لیکن انسانی حقوق کے چیمپئن ممالک خاموش ہیں۔ غوطہ پر 2013 میں باغیوں نے قبضہ کیا تھا اور اس وقت سے حکومتی فورسز فضائی بمباریاں کرتی رہتی ہے، تاہم بمباری کا حالیہ سلسلہ انتہائی خطرناک تھا۔
یہ صرف ایک شام میں ہی خون مسلم نہیں بہایا جارہا، بلکہ چاروں طرف مسلمانوں پر ہی قیامت ڈھائی جا رہی ہے۔ صرف اسلامی دنیا میں بیسیوں آتش فشاں ہیں جو خون اگل رہے ہیں۔ عالمی ضمیر خاموش ہے اور اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی فورم پراس مسئلے کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا۔ مغرب کو تو چھوڑیے خود ہماری بے حسی کا یہ عالم ہے کہ یوں لگتا ہے کہ ہم نے مظلوم مسلمانوں کو جانوروں سے بھی کسی نچلی سطح پر سمجھ لیا ہے۔
مسلم ممالک کو اس خونریزی کو ختم کروانے کی رتی برابر بھی فکر نہیں ہے۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر تاریخ انسانی کے بدترین مظالم ڈھائے گئے۔ روہنگیا مسلمانوں کو نشانے لے کر فائرنگ سے قتل کیا گیا، ان کے گھر جلا دیے گئے، تیز دھار آلات کی مدد سے اور تشدد کر کے مسلمانوں کو قتل کیا گیا اور لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا۔
اگست 2017 سے پہلے ہی قریباً تین لاکھ روہنگیا مسلمان بنگلہ دیش کے جنوب مشرق میں واقع کیمپوں میں رہ رہے تھے اور اب ان تمام مہاجرین کی تعداد دس لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔ میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان ان لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کی مہاجر کیمپوں سے وطن واپسی کے لیے چند ہفتے قبل ایک سمجھوتہ طے پایا تھا۔
بنگلہ دیش میں مہاجر کیمپوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ تعداد میں روہنگیا مسلمانوں رہ رہے ہیں، لیکن اس طرح کسمپرسی کی حالت میں رہنے کے باوجود بہت سے مہاجرین میانمار میں اپنی آبائی ریاست راکھین کی جانب لوٹنے کو تیار نہیں، کیونکہ انھیں یہ خدشہ لاحق ہے کہ واپسی کی صورت میں انھیں ایک مرتبہ پھر برمی سیکیورٹی فورسز اور بدھ مت انتہا پسندوں کے مظالم اور تشدد آمیز کارروائیوں کا سامنا ہوسکتا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپ روہنگیا مسلمانوں کا مستقل ٹھکانہ نہیں ہیں، بلکہ ان کی اصل جگہ وہی ہے، جہاں سے انہیں زبردستی نکالا گیا ہے، لیکن روہنگیا مسلمانوں کو اس وقت تک میانمار واپس نہیں بھیجنا چاہیے، جب تک وہاں مستقل بنیادوں پر انسانی حقوق کی صورت حال ٹھیک نہیں ہو جاتی اور واپسی کی صورت میں دوبارہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم نہ کرنے کی ضمانت نہیں دی جاتی۔
حال ہی میں میانمار کی حکومت اور بنگلہ دیش کے درمیان روہنگیا مہاجرین کی واپسی کے لیے طے پانے والے سمجھوتے میں ان کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی، اس لیے ان کے لیے گھروں کو واپسی بھی اتنی ہی خطرناک ہوگی، جتنا وہاں سے فرار پرخطر تھا۔
میانمار کی مقہور مسلم اقلیت کو ایک طویل عرصے سے جن نا انصافیوں اور مصائب کا سامنا ہے، وہ ہم سے ہمدردی اور بامقصد اقدام کا تقاضا کرتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ مہینوں کے دوران روہنگیا کی نسل کشی نے میڈیا میں بڑی توجہ حاصل کی ہے، مگر اس کے باوجودعالمی برادری ان کے مصائب کو کم کرنے کے لیے کوئی بامقصد اقدام کرنے کو تیار نہیں ہے۔