درخت لگائیے
صرف ایک برس میں خالی جگہ ایک چھوٹے سے جنگل میں تبدیل ہوگئی۔
شوبندھا شرما انتہائی قابل طالبعلم تھا۔آرام سے انجینئرنگ کرلی۔یہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ کچھ عرصہ پہلے کی حقیقی داستان ہے۔ جاپان کی ٹیوٹاکمپنی ہندوستان میںکارخانہ لگارہی تھی۔کمپنی کوشرماجیسے انجینئرکی ضرورت بھی تھی۔کمپنی میں آتے ہی نوجوان نے محنت سے جگہ بنالی۔تنخواہ بھی بہت اچھی تھی۔زندگی بے حدآرام سے گزر رہی تھی۔
ایک دن دفترگیاتوپتہ چلاکہ جاپان سے ایک سائنسدان لیکچردینے آیاہوا ہے۔ نام اکیرامایاواکی تھا۔ اکیرا انجینئرنہیں تھا۔وہ توپوری دنیا میں جنگلات لگانے کا ماہر تھا۔شرماکاخیال تھاکہ اکیراآج پورادن ضایع کردے گا۔ بھلاٹیوٹاکے کارخانہ میں درخت اورجنگل اُگانے کاکیا مقصد ۔ بے جان سی تقریب تھی۔ شرما بھی بے دلی سے اس بوڑھے آدمی کوسننے چلاگیا۔جب اکیرا نے تقریرمیں درخت لگانے کے منفردطریقے بیان کیے۔
اپناتجربہ بتایا،تو شرما مکمل طورپرحیران رہ گیا۔اکیرا،تھائی لینڈسے لے کرجنوبی امریکا تک نئے جنگل اُگاچکاتھا اور ہرجنگل کامیابی کاایک نمونہ تھا۔ شرماکے دل میں خیال آیاکہ وہ بھی اسی طرح ہندوستان میں درخت لگائے گا۔ وہ گھرآیا۔والدین سے بات کی کہ وہ انجینئرنگ ترک کرناچاہتاہے۔والدنے غصے سے پوچھا کہ پھرکیاکروگے؟اتنی بھاری تنخواہ اورکون دے گا۔شرماکے پاس اس سوال کامناسب جواب تھا۔نئے جنگل لگاؤں گا اور اپنی روزی اس سے کماؤںگا۔
گھروالے پریشان ہوگئے کہ نوجوان شائد باولاہوگیا ہے۔ شرماکو بہت سمجھایا گیا مگر وہ ٹھان چکاتھاکہ اس کی زندگی کامقصد اب ہریالی پھیلانا ہے۔ خاندان نے اس کی ضدکے سامنے ہاتھ ڈال دیے۔
شوبندھا نے نوکری سے استعفیٰ دیا اوراکیراکے کام کو پڑھااورسیکھا۔مگراکیراکاکام ہندوستان کے لیے موزوں نہیں تھا۔سوال تھاکہ کیالائحہ عمل اختیار کیا جائے۔شرماکے خاندانی گھرکے پیچھے چھوٹی سی خالی جگہ تھی۔کسی نے بھی اس پرتوجہ نہیں دی تھی۔ شرما نے اکیراکی درخت اُگانے کی ترکیب کو مقامی حالات کے حساب سے تبدیل کردیا۔چھوٹی سی جگہ پرتیس مختلف پودے لگائے۔
صرف ایک برس میں خالی جگہ ایک چھوٹے سے جنگل میں تبدیل ہوگئی۔اس میں پھل دار درخت کثیرتعدادمیں شامل تھے۔شرما اُترکھنڈ کا رہنے والا تھا اور ایسا نایاب کام کرنے والا پہلا انسان۔ 2011میں اس نے ایک کمپنی بنائی، جسکا نام Afforesttتھا۔کمپنی کامشن تھاکہ وہ دنیاکی ہرجگہ پرموسم اور زمین کی مناسبت سے جنگل اُگا سکتی ہے۔ کمپنی کوپہلاآرڈرایک جرمن کارخانے نے دیا جو فرنیچربناتاتھا۔کام دس ہزار نئے درخت لگانا تھا۔
شرما نے محنت سے کام مکمل کیا۔معاوضہ حیران کن تھا۔اس کی سارے سال کی تنخواہ سے بھی بڑھ کر۔ شرما نے چھ ٹیمیں ترتیب دیں اوربنگلورمنتقل ہوگیا۔چھ سال میں وہ تنتیس نئے جنگل مکمل کرچکاہے۔اسی اثناء میں پچپن ہزارنئے درخت لگا چکا ہے۔کمپنی چالیس سے زیادہ آرڈرلے چکی ہے۔آج پورے ہندوستان میں سرکار نے بھی نئے درخت لگانے ہوں توشرما کو دعوت دی جاتی ہے۔کمپنی حددرجہ کامیاب ہوچکی ہے۔ پہلا جنگل تواپنے گھرہی میں تھا۔
یہ اس قدر زرخیزہے کہ شرما کی والدہ پورے محلے کومفت امرود، چیری اور مختلف پھل تقسیم کرتی ہے۔ صرف اورصرف آٹھ برس کی کامیاب کہانی ہے۔اس نے چند ماہ پہلے ایک سافٹ وئیربھی بنایا ہے جو لوگوں کو درخت اُگانے میں رہنمائی کرتا ہے۔اس کا بنایا ہوا سافٹ وئیر بھی پوری دنیا میں کامیاب ہوچکا ہے۔ شرما کا نیا نعرہ ہے ''اپناذاتی جنگل مکمل کیجیے''۔پوراملک اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اپنے نئے اورمنفردشعبے کا کامیاب ترین آدمی۔
شرماکی کہانی کاہمارے ملک کے جنگلات سے گہرا تعلق ہے۔پاکستان میں2004تک 2.5 فیصد کا علاقہ درختوں سے ڈھکاہوا تھا۔بارہ سے تیرہ برس میں یہ تناسب خطرناک حدتک کم ہوگیاہے۔آج اس کی شرح1.9فیصد ہے۔ یہ انتہائی قیامت خیزسچائی ہے۔ جس شرح سے ہم جنگلات کوکاٹ رہے ہیں، اس شرح سے اگلے دس برسوں میں ہم ان ملکوں کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے جہاں انسانی زندگی کوشدید قدرتی آفات کاسامناہوگا۔
جیسے شدید گرمی، سیلاب اوربے وقت کی ہنگامہ خیزبارش۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ہم ان بدقسمت ملکوں میں موجود ہیں۔ پاکستان کوقدرت نے پانچ ہزار گلیشیئر عطا کیے ہیں۔ درخت کاٹنے سے درجہ حرارت میں جو اضافہ ہواہے،اس کی بدولت تمام گلیشیئرتیزی سے پگھل رہے ہیں۔بے وقت سیلاب توخیرہماری قسمت میں لکھ دیے گئے ہیں۔مگرہولناک ترین بات یہ ہے کہ 2035تک پاکستان میں موجود برف کے تمام ذخائر پگھل جائیں گے۔
اس کے بعددریاؤں میں پانی کہاں سے آئے گا، سوچ کربھی خوف آتاہے۔یعنی ہمارے تمام دریاجو گلیشیئرز سے پانی حاصل کرتے ہیں، خشک ہوجائیں گے۔ زراعت بری طرح متاثر ہوگی۔ زیرزمین پانی ہم سوچے سمجھے بغیراس بے دردی سے استعمال کررہے ہیں کہ یہ آبی ذخائربھی دوتین دہائیوں کے مہمان ہیں۔اس کے بعد کیاہوگا۔کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔جواب توبڑی دور کی بات ہے۔
کسی بھی سیاسی رہنما، قائد، لیڈر، صدر، وزیراعظم یاوزیراعلیٰ نے یہ نازک سوال اُٹھانے تک کی ہمت نہیں کی۔ سب ہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ان کاصرف ایک شوق ہے۔کسی طرح معاشرہ میں انتشار پھیلایا جائے۔ اللہ کے فضل سے یہ نیک کام وہ بڑی مہارت سے کیے جا رہے ہیں۔ نتیجہ مکمل تباہی ہے۔
جیسے جیسے بے دریغ درخت کاٹنے کا اضافہ ہواہے۔ فضاکے اوپراوزون کی تہہ(Ozone Layer) کمزور پڑتی جارہی ہے۔یعنی تمام لوگ سورج کی ان خطرناک شعاعوں کے سامنے بے بس کھڑے ہوئے ہیں ۔فطری نتیجہ جلدکے کینسراوردیگربیماریوں کاحددرجہ بڑھ جانا ہے۔ اردگرددیکھیے،توآپ کوپاکستان میں کینسرکے مرض میں غیرمعمولی اضافہ نظرآئیگا۔یہ صرف اسلیے ہورہاہے کہ ہم درخت کاٹتے جارہے ہیں اورجنگلات اُگانے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتے۔
ذاتی گزارش کرتاہوں، میڈیکل کالج سے لے کرسول سروسزاکیڈمی تک کوئی شعورنہیں تھاکہ درخت انسانی زندگی کے لیے کتنے اہم ہیں۔ سروس کے شروع میں ترجیحات اس اور تھیں، مطالعہ بھی کمزور تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اندازہ ہواکہ جنگل کس قدراہم ہیں۔سب سے پہلے اپنے سرکاری گھرسے کام شروع کیا۔ اس شعبہ میں مطالعہ نہیں تھا صرف مشاہدہ تھا۔اہل خانہ کے ساتھ ملکرسب سے پہلے گھر میں درخت لگانے شروع کر دیے۔
سرکاری گھرکی کشادگی بہت کام آئی۔تھوڑے عرصے میں پودے تیزی سے بڑھنے لگے۔اس کے ساتھ حیرت انگیزتبدیلی یہ آئی کہ اَن گنت پرندوں نے بسیرا کرلیا۔علی الصبح پرندے اپنی خوبصورتی سے حیران کر ڈالتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی چڑیاں،اس بڑی تعداد میں نظرآتی ہیں کہ اچھنبا سا ہوتا ہے کہ یہ کہاں سے آئی ہیں اورکہاں واپس جارہی ہیں۔ سارادن کہاں گزارتی ہیں۔
یہی قدرت کی خوبصورتی ہے۔یہی توازن ہے اورشائدیہی زندگی۔گزشتہ بیس برسوں میں جہاں بھی گیا،پہلی توجہ،اس ضلع یاسرکاری گھر میں نئے درخت اور پودے لگانے پردی۔جس طرح شرما ہندوستان کے لیے ایک ماڈل کی حیثیت رکھتاہے۔بالکل اسی طرح ہماری سروس میں چوہدری اشرف موجودتھے۔کمشنر ڈی جی خان کے طور پرانھوں نے نئے درخت لگانے پر بے حدتوجہ دی۔
ان کے دورکے لگائے ہوئے پودے اب مضبوط درخت بن چکے ہیں۔ چوہدری اشرف صاحب سے زیادہ ملاقات تو نہیںمگر ان کے ماڈل کوذاتی طورپرہرپوسٹنگ پراپنایا۔ لورالائی جاکر محسوس ہواکہ ہماری کاریزیں خشک ہوتی جا رہی ہیں۔ بلوچستان میں یہ معاملہ اب توبہت سنجیدہ ہوچکا ہے۔ زیرِآب پانی کم ہوچکاہے۔آپ کواندازہ نہیںکہ لورالائی کی سابقہ تحصیل،سنجاوی میں پانی کی کمی کے باعث بدولت لوگوں نے سیب،اخروٹ اوردیگرپھل دار درخت مجبوری میں کاٹ دیے ہیں۔ یہ بارہ برس پہلے کی بات ہے۔
اب کیا حال ہے۔بالکل اندازہ نہیں۔پنجاب میں لوگوں کواندازہ نہیں کہ بلوچستان میں طویل عرصے سے خشک سالی چل رہی ہے۔باغ کے باغ اُجڑچکے ہیں۔ کوئٹہ میں صورتحال اس درجہ مخدوش ہے کہ شہریوں کے پینے کاپانی Aquafer سے نکالاجارہاہے،جوکبھی بھی دوبارہ سیراب نہیں ہوتی۔ زیارت کے قدیم ترین جنگلات بھی انسانی آبادی کے دباؤ میں ہیں۔
پنجاب میں ہمارے جنگلات،آبادی کی بدولت تشویش ناک حدتک کم ہوچکے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تھوڑی سی ہل جل نظرآتی ہے۔ مگر اس پربھی سیاسی اختلاف موجود ہے۔سندھ کے متعلق بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ اس لیے کہ وہ تو بذات خود ایک ایساانسانی جنگل ہے جہاں صرف ایک ہی پھل کی ضرورت ہے،وہ ہے نقد پیسہ۔
ہم مجموعی طورپرجنگلات پروہ توجہ نہیں دے پائے جسکے وہ مستحق ہیں۔غیرمنصفانہ معاشرے میں انسانوں پرکوئی توجہ نہیں تودرختوں کی کیا اوقات ہے۔سب صنعتی ترقی کی طرف کوشاں ہیں۔سڑکیں اور پل بنانے کومعراج سمجھ بیٹھے ہیں۔ مگر غور کیجیے۔ اگر درخت ہی ختم ہوگئے توکیاہوگا۔جنگل ہی نہ رہے تو کتنی بڑی قیامت برپا ہوگی۔ جنگل توانسانوں کے بغیر پھل پھول سکتے ہیں۔پنپ سکتے ہیں۔ مگر انسان، جنگلات اوردرختوں کے بغیرزیادہ دیرسانس نہیں لے سکتے۔ مگر یہاں کس کوفکرہے!سب لمبی تان کرسوئے ہوئے ہیں!