یورپ کی ترقی کا راز

یورپی ممالک بہ ہرطور ہم سے بہترتو لگتے ہیں یہ بات درست بھی ہے مگر اس کے پس منظرکو نظراندازکرنا غیر سائنسی عمل ہوگا۔


Zuber Rehman March 06, 2018
[email protected]

اکثر لوگوں کو یہ کہتے سنتا ہوں کہ یورپ کو دیکھیں صاف ستھرے، نظم وضبط کے پابند، باشعور اور تعلیم یافتہ ہیں ، ایک ہم ہیں کہ ہرکام غلط کرتے ہیں ۔ یورپی ممالک بہ ہرطور ہم سے بہترتو لگتے ہیں یہ بات درست بھی ہے مگر اس کے پس منظرکو نظراندازکرنا غیر سائنسی عمل ہوگا۔

یورپ کے کچھ ممالک اسپین، پرتگال، ہالینڈ، جرمنی، فرانس ، اٹلی، برطانیہ وغیرہ اور مشرق میں جاپان نے ایشیا میں خاص کر ہندوستان ، چین، شمالی وجنوبی امریکا اورافریقہ پر قبضہ کرکے وہاں کے قدرتی وسائل کو نہ صرف لوٹا بلکہ یہاں کے انسانوں کو غلام بنا کرکیریبین ممالک ، جنوبی امریکا، فیجی اورافریقہ تک لے جاکر ان سے جبری جسمانی مشقت کروائی ۔

امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اورکینیڈا کے عوام کا قتل عام کیا اوروہاں یورپی ممالک کے لوگوں کو لے جاکر بسایا گیا ۔ آج بھی امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کی قدیم باسیوں سے حقارت آمیز اور دوسرے درجے کا شہری کے طرح برتاؤکیا جاتا ہے ۔ چین پر جاپان کا تسلط اور قتل وغارت گری کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

ایک بار افریقہ سے تین پانی کے جہازوں میں ایک لاکھ تیس ہزار افریقی غلاموں کو لاطینی امریکا اور یورپ لے جاتے ہوئے پچیس ہزار غلاموں کی موت ہوئی، جنھیں پنجرہ نما جہازوں میں لے جایا جا رہا تھا، راستے میں تیس ہزار غلام بھوک سے مرگئے انھیں سمندر برد کردیا گیا ۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ پر قبضے کے دوران برطانوی سامراج سے مقامی آبادی سالہا سال لڑتی رہی ۔ چونکہ ان کے پاس جدید اسلحہ نہیں تھا، اس لیے تیرکمان سے بندوق کا مقابلہ کیونکرکرسکتے تھے ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے صرف پچاس سال میں ہندوستان سے لارڈ کلائیوکی سرپرستی میں سات پانی کے جہازوںسے سونا، چاندی اور قیمتی جواہرات انگلستان پہنچائے۔ اسپین نے تو لاطینی امریکیوں پر قیامت ڈھائی، مقامی آبادی کو بسکٹ کھلاکران سے سونا چاندی لوٹتے رہے۔

لاطینی امریکی عوام اتنے پرامن تھے کہ لاما (گائے نما جانور)کوکاٹ کرکھانا تو درکنار وہ اس سے ہل بھی نہیں چلواتے تھے، صرف دودھ پیتے تھے ۔ جب ہسپانوی حملہ آور گھوڑوں پر سوار ہوکر تلوار لے کر مقامی آبادی کے کسی روایتی میلے میں پہنچے تو عوام نے ان حملہ آوروں کو مہمان سمجھ کر تحائف پیش کیے جب کہ ہسپانویوں نے ان کا قتل عام کیا۔

برطانوی سامراج نے ہندوستا نی عوام کو غلام بناکر سوری نام ( لاطینی امریکی ملک اور فیجی ،جاپان کے مشرقی ملک میں جبری مشقت کروانے لے جایا گیا۔آج بھی سوری نام میں تیس فیصد اور فیجی میں پچاس فیصد ہندوستانی عوام بستے ہیں ۔ مارشس، مڈا گاسکر اور جنوبی افریقہ میں لا کھوں نہیں بلکہ کروڑوں ہندوستانی نژاد کے لوگ بستے ہیں۔

کینیڈا میں توآج بھی مقامی آبادی کو فرسٹ سٹیزن کہا جاتا ہے لیکن ان کے ساتھ بر تاؤ حقارت آمیز ہے۔ مقامی آ بادی کا مذہب جبرا تبدیل کروایا جاتا ہے یعنی انھیں عیسا ئی بنایا جاتا ہے ، مقامی آبادی کے لوگ یہاں تک کے سگے بھائی بہن اپنی زبان میں بات نہیں کرسکتے،انھیں انگریزی میں بات کر نی پڑتی ہے ، چرچ مقامی آ بادی کے ساتھ خصوصا بچوں کے ساتھ بیہمانہ سلوک کرتا ہے۔اس پر موجودہ کینیڈین وز یراعظم نے فسٹ سٹیزن سے معافی بھی مانگی ہے، وہ بھی رسما۔

اگر جنگیں نہ ہوتیں اور فوج نہ ہوتی تو شاید اتنے انسان نہ مرتے ۔ عظیم کمیونسٹ انقلا بی خاتون کامریڈ ایما گولڈ مان نے کہا تھا ''سرمایہ دا ری کی سب سے بڑی پشت پناہ جنگجوئی اور فوج پرستی ہے ، فوج پرستی کا زوال ہی سرمایہ داروں کے زوال کا سبب بن سکتا ہے'' جب ملکوں کی سرحدیں نہیں تھیں اور طبقات بھی نہیں تھے، تو اس وقت استحصال اور لوٹ مار بھی نہیں تھی ۔

دورجدید میں دیکھیں تو صرف عالمی جنگ اول اور دو ئم میں پانچ کروڑ انسان جان سے جاتے رہے ۔ ان جنگوں کو روکنے کے لیے اقوام متحدہ تشکیل دیا تو دوسری جانب جنگ کو ہولناک اور خو نخوار بنانے کے لیے نیٹو تشکیل دی گئی ۔ آج امریکا کی صنعتی پیداوارکا ستر فیصد اسلحے کی پیداوار ہے۔

اس لیے آج کے دورکا ھیگل ، پروفیسر نوم چومسکی کے بقول عالمی برادری کا مطلب نیٹو، یو این او اور امریکا ہے۔ اس لیے بھی کہ یہی جنگوں کو طول دیتے ہیں ۔کسی نے درست کہا تھا کہ ''جنگ جتنی ہولناک ہے اتنا ہی منافع بخش ہے '' جب جنگ ہوتی ہے تو تباہی بھی ہوتی ہے۔ یعنی عمارات، سڑکیں، ریل کی لائنیں ، ہوائی اڈے، پل، جنگلات، جھیلیں،کھیت ،کھلیان، فیکٹریاں ، مل کارخانے سب کچھ تباہ ہوجاتے ہیں۔

انھیں تعمیر کے لیے مختلف شعبہ جات کمپنیوں کو ٹھیکے ملتے ہیں اور سرمایہ داروں کو لوٹ نے کے پھر سے نئے مواقعے ملتے ہیں ۔ جیسا کہ صومالیہ، سوڈان، عراق، لیبیا، افغانستان، پاکستان اور ہندوستان کی جنگوں میں جب تباہیاں ہوئیں تو اس کے بعد ان کی تعمیر کے لیے ملکی اور غیر ملکی سرمایہ داروں کو ٹھیکے ملے ۔ جس میں عا لمی سامراج پیش پیش ہوتا ہے اور انھیں کو زیادہ فائدہ ہو تا ہے ۔ اس لیے عالمی سامراج میدان جنگ تخلیق کرتا ہے ، ہتھیار پیداکرتا ہے اور ہتھیار اٹھانے والوں کو مختلف مصنوعی تضادا ت میں انسانوں کو بانٹ کر بے روزگارکرتا ہے پھر وہ مجبور ہوکر جنگ میں جڑجاتے ہیں ۔

ہندوستان اور پاکستان کو لے لیں ، ستر سال سے لڑتے آرہے ہیں ۔ یہاں کے عوام بھوک،افلاس اورغربت کے شکار ہیں۔کیا امریکا اورکینیڈا آپس میں لڑتے ہیں ؟ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا لڑتے ہیں،کیا جرمنی اور آسٹریا آپس میں لڑتے ہیں ؟ جی نہیں ۔ ان کا کام لڑوانا اور اسلحہ بیچنا ہے۔

آج کی دنیا میں کچھ ممالک دفاعی بجٹ پر پارلیمنٹ میں جوابدہ ہوتے ہیں مگر بہت سے ملکوں میں نہیں ہو تے ۔ امریکا میں پینٹاگون کے دفاعی بجٹ کو آج تک کانگریس میں کبھی زیر بحث نہیں لایا گیا ، مگرعالمی سرمایہ دارانہ بحران کی وجہ سے پہلی بار اسی کروڑ ڈالرکی خرد برد کی تحقیق ہورہی ہے۔

اس بار پاکستان کا جنگی بجٹ 930 ارب روپے کا ہے جب کہ تعلیم اورصحت کا ایک عشاریہ پا نچ فیصد ہے ۔ جس ملک میں دالیں دوسو رو پے کلو، تیل دو سو روپے کلو، چاول سو روپے ، روٹی دس روپے کی ایک ، دودھ نوے روپے فی لیٹر، چینی باون روپے اور گوشت گائے کا چار سو روپے کلو ہو وہاں ہم ایک میزائل بنانے اور ٹیسٹ کرنے پر چھ ارب روپے کیونکرخرچ کرسکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ نہ کریں تو ہندوستان قبضہ کرلے گا ۔ امریکا کے پاس ہزاروں ایٹمی وارہیڈ ہیں جب کہ امریکا سے سو میل دورکیوبا ہے اس کے پاس کوئی ایٹم بم نہیں ہے ، امریکا اس پرکیوں حملہ نہیں کر تا ؟ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر چودہ ڈالر لے جاتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے ہمیں کنگال کردیا ہے ، روز ہم پر ڈرون حملہ کرتا ہے۔

امریکی مفادات کے لیے ہم افغانستان میں طالبان کو بھیجا ، نتیجتا ہزاروں فوجی سپاہی اور عوام جان سے جاتے رہے، اربوں روپے کا نقصان ہوا جب کہ ہندوستان ہمارا پڑوسی ملک ہے، امریکا کے مقابلے میں کوئی بھی ایسا نقصان نہیں پہنچایا ، پھر بھی ہم انڈیا کو دشمن اور امریکا کو دوست گردانتے ہیں۔ اسلحے کی دوڑ کو روکنا ہوگا تب ہی دنیا کے عوام جی سکیں گے ۔

ساحر نے درست کہا تھا کہ '' جنگ جنگوں کے فلسفے کے خلاف ، امن پر امن زندگی کے بقا کے لیے۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں