ذرا استنبول تک

مسلمانوں کے لیے استنبول کوئی نیا شہر نہیں ہمارے بزرگ خلافت کے زمانے کی داستانیں سنا کر چلے گئے


Abdul Qadir Hassan March 07, 2018
[email protected]

ملک میں ٹیلی ویژن چینلز کی بہتات وجہ سے ہر قسم کی معلومات کے پروگرامز ٹیلی ویژن کی اسکرین پر دکھائے جا رہے ہیں۔ آپ جس نوعیت کی معلومات چاہتے ہیں وہ ٹی وی چینل پرموجود ہیں۔ انٹر نیٹ کا زمانہ ہے جس میں ٹی وی کی اسکرین پر دنیا جہان کی معلومات کا خزانہ ایک بٹن دباتے ہی سامنے آ جاتا ہے یعنی معلومات کی حد تک زندگی آسان ہو گئی ہے اور لکھنے والے کو معلومات تک اگر باآسانی رسائی ہو تو لکھنے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے ۔

ٹیلیویژن کی اسکرین گھر بیٹھے دنیا جہان کی سیر بھی کر ا دیتی ہے اور دیکھے ہوئے مقامات کی ان گنت یادیں بھی گھر بیٹھے آپ کو ماضی میں لے جاتی ہیں اور بعض نئے مقامات کی دلکشی بھی آپ کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہے اور آپ کا ذہن آیندہ کے سفر کے لیے کسی نئے مقام پر تیار ہو جاتا ہے۔ ایک طویل عرصہ ہو گیا ہے جب میں نے مسلمانوں کے کسی زمانے میں سب سے بڑے شہر استنبول کا سفر کیا، وہی متبرک شہر جس کی فتح کے بارے میں آپ ﷺ نے پیش گوئی کی تھی اور اس لشکر کو خوش نصیب قرار دیا تھا جو اسے فتح کرے گا۔

میں لاہور میں بیٹھے ترکی کے ایک ٹی وی سے جامع سلیمانیہ استنبول سے درود و سلام کی ایک محفل دیکھ رہا تھا، اس سے مجھے وہ دن بہت یاد آئے جب میں استنبول کی گلیوں ، بازاروں اور مزاروں میں ایک وارفتگی کے عالم میں گھوم رہا تھا اور ناقابل بیان حد تک حیرت انگیز اس پر شکوہ مسجد میں نماز ادا کر رہا تھا جو سلطان سلیمان عالیشان کی خواہش پر اس کے عظیم المرتبت معمار سنان نے تعمیر کی تھی ۔ عجوبہ روزگار اس مسجد میں ایک بڑا دائرہ بنا کر لوگ بیٹھے تھے جو مغربی سیاہ لباس میں ٹائی لگا کر دو زانو قرأت سن رہے تھے۔ ترکی کی مساجد ایک بڑے ہال پر مشتمل ہوتی ہیں جس کے اوپر کئی گنبد ہوتے ہیں، شاید سرد موسم کی وجہ سے صحن نہیں ہوتے اور مسجد کے دروازوں پر قیمتی قالین لٹکا دیے جاتے ہیں جو باہر کی سرد ہوا کو روک لیتے ہیں۔ ویسے مسجدوں کے باہر کھلی جگہ رکھی جاتی ہے لیکن وہ عموماً مسجد میں شامل نہیں ہوتی۔

میں نے استنبول کی تاریخ پڑھ رکھی تھی اور کتابوںمیں موجود اس شہر کے خاص مقامات کا ذکر بھی یاد تھا اس لیے جب اس شہر میں پہنچا تو میرے لیے اس شہر کی ہر گلی اور ہر بازار ایک عجوبہ تھا لیکن تاریخوں میں جن مقامات کا خصوصی ذکر ملتا تھا میں نے ان میں سے ایک ایک کو دیکھنے کا پروگرام بنا لیا، انھی میں یہ مسجد بھی شامل تھی جس کے قریب پہنچ کر میں دنگ رہ گیا ۔ بہت اونچی کر سی یعنی چبوترے پر تعمیر یہ عمارت حیرت انگیز حد تک پر شکوہ تھی ۔ ترکی کی مسجدوں کے اونچے پتلے نازک مینارترک معماروں کی خاص ایجاد ہیں جو گنبدوں والی عمارت کو گھیرے رہتے ہیں۔ کسی بھی مسجد میں داخل ہوں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے معماروں نے اپنے فن کا طلسم مسجد کی اندرونی دیواروں کی نقش کاری، مسجد کے اندر کی محرابوں اور ستونوں کی تعمیر اور مسجد کے منبر پر ختم کر دیا ہے اور خطاطوں نے ان دیواروں اور محرابوں کو اپنے خطوط سے آراستہ کر کے اپنی فانی زندگی کو دوام بخش دیا ہے۔

عثمانی سلاطین نے تاریخ کو اپنے جن کارناموں سے زندہ کیا اور زندہ رکھا ہے ان میں شہری آبادیوں کی آرائش بھی ان کے یاد گار کارنامے ہیں ۔ استنبول مجھے کئی حوالوں سے بے حد پسند ہے ایک تو اس کے اصل نام اسلامبول کا ترجمہ اسلام آباد ہے دوسرے اسے فتح کرنے والے لشکر کے لیے حضور پاکﷺ نے دعا فرمائی تھی۔ قسطنطنیہ یعنی موجودہ استنبول کو ایک عثمانی سلطان محمد نے فتح کیا اور وہ محمد فاتح کہلایا ۔ اس کی حیران کن جنگی چال کا ذکرمورخ بڑے شوق اور حیرت سے کرتے ہیں، بحری جہازوں کو خشکی پر چلا کر وہ راتوں رات قسطنطنیہ کے پانی کے راستے پر تنی ہوئی زنجیر کے اندر لے آیا اور یہ شہر جو ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا، اسے فتح کر لیا اور وہ جب وہ اپنے سفید رنگ کے گھوڑے پر تن کر بیٹھا ہوا ایا صوفیہ کے گرجے کی جانب چلا تو یکایک اسے خیال آیا کہ میں تو مغرور ہو رہا ہوں وہ گھوڑے سے اترا زمین سے خاک اٹھا کر اپنے سر میں ڈالی اور اسی درویشانہ حالت میں مسیحیوں کی مشرقی دنیا کی سب سے بڑی عبادت گاہ میں داخل ہوا اور یہاں شکرانے کے نفل ادا کیے ۔

میں اس مقام پر بیٹھ کر نہ جانے کتنی دیر تک تاریخ کے اس منظر کو چشم تصور سے دیکھتا رہا اور جسم میں دوڑ جانے والی ایک عجیب سی سنسناہٹ سے کانپتا رہا کہ عین ممکن ہے کہ جہاں میں بیٹھا ہوں سلطان محمد فاتح اسی مقام پر اپنے گھوڑے سے اترا ہو اور یہیں سے چل کر سامنے ایا صوفیہ میں داخل ہو ا ہواور پادریوں کو امن اور عبادت کی آزادی کی پناہ دی ہو ۔یہیں قریب ہی سلطان محمد فاتح کی تعمیر کردہ چھ میناروں والی نیلگوں مسجد بھی ہے اسی بابرکت شہر میں میزبان رسولﷺ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا مزار ہے جنہوں نے قسطنطنیہ پر ایک ناکام حملے کے موقع پر وصیت کی تھی کہ مجھے اس شہر کی فصیل کے قریب ترین جگہ پر دفن کیا جائے ۔

بعد میں عثمانی سلاطین نے بڑی مشکل سے اس قبر کو تلاش کیا اور اس پر روضہ بنوایا۔ میں استنبول میں حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کے مزار کی زیارت کے لیے جانا چاہتا تھا لیکن کئی لوگوں سے پوچھنے پر بھی کچھ سمجھ نہ آیا۔ ایک صاحب راہ چلتے ملے ان کو دیکھ کر شناسائی سی لگی، ان سے پوچھا تو انھوں نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سمجھایا کہ ایوب انصاری ؓکو استنبول کے لوگ ایوب سلطان کے نام سے جانتے ہیں، مشکل آسان ہوئی اور میں ان کے در پر حاضری کے لیے پہنچ گیا جہاں میرے جیسے کئی عشاق رونق لگائے ہوئے پہلے سے موجود تھے۔

مسلمانوں کے لیے استنبول کوئی نیا شہر نہیں ہمارے بزرگ خلافت کے زمانے کی داستانیں سنا کر چلے گئے لیکن ان داستانوں کے حروف آج بھی دل و دماغ پر نقش ہیں ۔ اور پھر اس شہر نے وہ وقت بھی دیکھاجب اس شہر میں عربی زبان کی تحریروں پر بھی پابندی لگا دی گئی اور عربی زبان میں ہونے کی وجہ سے اذان تک کو ممنوع قرار دے دیا گیا ۔ وقت بدلتا رہتا ہے، ینی چری فوجیوں نے یورپ کو لرزا دیا تھا لیکن جب ان اسلام دشمن طاقتوں کو موقع ملا انھوں نے اس شہر کے مسلمانوں کا روایتی لباس بدل ڈالا اور مذہب کا نام لینا جرم ٹھہرایا گیا اور اب پھر وہ وقت ہے کہ جب اسلام کے نام لیوا اس شہر کے محافظ ہیں۔

میں نے ترکی کے صدر کی خوبصورت تلاوت سنی ہے، سلسلہ نقشبندیہ سے وابستہ ترکی میں اسلامی تہذیب و ثقافت پھر سے زندہ ہو رہی ہے ۔کئی دہائیوں تک مسلمانوں کے گڑھ میں اسلام کو دبانے اور مٹانے کی کوشش کی گئی مگر دلوں کی دنیا نہ بدلی جا سکی ۔ عثمانیوں کی مسجدوں کے مینار اور توپ کاپی محل کا عجائب خانہ اپنے نوادرات اور تبرکات سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے آج بھی کشش رکھتا ہے اور ہمارے ملک کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی بیرون ملک سیرو تفریح کے لیے استنبول کا رخت سفر باندھ رہی ہے۔تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں