بارک اوباما کا دورہ اسرائیل آخری حصہ
فلسطینی عوام 1948 میں اسرائیل کے قیام سے قبل کی سرحدوں میں آزاد فلسطینی ریاست چاہتے ہیں۔
اردن میں شاہ عبداللہ اور اوباما نے مشترکہ بریفنگ میں اعتراف کیا کہ امریکی صدر کے اعلیٰ سطحی وفد کا یہ دورہ ہوم ورک تھا۔ اوباما نے دورے کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارد ن میں میڈیا کو بتایا کہ وہ پہلے فریقین کو براہ راست سننا چاہتے تھے اور یہ جاننا چاہتے تھے کہ امن عمل کی راہ میں کیا کیا رکاوٹیں ہیں اور فریقین سے بات چیت کے ذریعے ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کا طریقہ کار معین کیا جائے تا کہ ٹھوس نتائج حاصل ہوں۔
البتہ فلسطینی انتظامیہ کی اہم خاتون رہنما حنان اشراوی نے یہ کہہ کر امریکی کردار کو مسترد کر دیا ہے کہ فلسطینی امریکا کو امن قائم کرنے کا اہل نہیں سمجھتے۔ وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ بین السطور امریکا نے اس دورے سے یہ پیغام دیا کہ وہ اسرائیل کے لیے فلسطینیوں سے مزید قربانیاں چاہتا ہے۔ اس کے لیے امن مذاکرات امریکا و اسرائیل کی ضرورت ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری ان مجوزہ مذاکرات کا فریم ورک طے کرنے کے لیے دوبارہ خطے کے دورے پر آئیں گے۔ اردن ماضی کی طرح محمود عباس اور اسرائیلی قیادت کے درمیان رابطہ کار اور مذاکرات کی میزبانی کا کردار ادا کرے گا۔
اوباما کا کہنا ہے کہ اس ہوم ورک سے انھیں توقع اور امید ہے کہ دونوں فریقوں کے لیے ایک میکنزم طے کرنے، نئے طریقے سے امن مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے اعتراف کیا کہ مسئلہ فلسطین کی وجہ سے اسرائیلی تنہائی کا شکار ہیں اور خوفزدہ بھی ہیں کہ کب کوئی راکٹ ان کے درمیان آ گرے۔
اوباما نے محمود عباس سے ملاقات میں صرف فلسطین کے حوالے سے گفتگو کی جب کہ صہیونی قیادت اور اردن کے بادشاہ سے ملاقاتوں میں شام، لبنان اور ایران کے بارے میں بھی تبادلہ خیال کیا۔ یعنی دورہ کیا انھوں نے فلسطین کا لیکن ان کی توجہ فلسطینیوں کے حق میں اسرائیل سے کوئی بھی بات تسلیم کروانے سے زیادہ ایران اور شام پر رہی۔ جو اہم ترین مسئلہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں آیا وہ لاکھوں فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی ہے۔ اس انتہائی اہم مسئلے کو حل کرنا ناگزیر ہے۔
لیکن اہم فلسطینی ایشوز سے توجہ ہٹانے کے لیے امریکا مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے مخالف فلسطینی گروہوں اور ان کی مدد کرنے والی ایران اور شام کی حکومتوں کے خلاف عرب ممالک، ترکی اور دیگر ہم فکر ممالک کے اتحاد کو مزید منظم اور مضبوط کرنے کے چکر میں ہے۔ خبریں یہ بھی ہیں کہ امریکا، سعودی بادشاہ عبداللہ کے تجویز کردہ فارمولے کے تحت فلسطینی مسئلہ حل کرنے کا اشارہ دے چکا ہے اور جون کیری اسی فارمولے کو بنیاد بنانے کی کوشش کریں گے۔ یہ فارمولا سال دو ہزار دو عیسوی میں منظر عام پر آیا تھا جب شاہ عبداللہ ولی عہد تھے۔
اس فارمولے کے تحت مسئلہ حل کرنے کا مقصد عرب لیگ کو راضی کرنا ہے کیونکہ انھوں نے ایسی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔ حسن اتفاق ہے کہ اس فارمولے کے تحت بھی فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کا مسئلہ عادلانہ طریقے اور اقوام متحدہ کی قرارداد ایک سو چورانوے کے تحت حل کرنے کی تجویز شامل ہے۔ اسرائیلیوں کے لیے یہ انتہائی حساس مسئلہ اس لیے ہے کہ فلسطینی مہاجرین کا اصل وطن فلسطین کے وہ علاقے ہیں جو انیس سو اڑتالیس کی جنگ کے بعد سے اسرائیل کے براہ راست قبضے میں ہیں۔
ان فلسطینیوں کو صہیونی یہودی دہشت گردوں نے مقبوضہ فلسطین (جو کہ اب اسرائیل کہلاتا ہے) کے علاقوں سے جبراً بے دخل و بے وطن کر دیا تھا اور ان کے گھروں میں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کو آباد کر دیا تھا۔ ان پچاس لاکھ سے زائد فلسطینیوں کی وطن واپسی اسرائیل کی موت کے مترادف ہے کیونکہ اس وقت ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل میں یہودیوں کی کل تعداد پچپن لاکھ ہے جب کہ عرب آبادی پندرہ لاکھ سے زیادہ نفوس پر مشتمل ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کی صورت میں عرب آبادی یہودی آبادی سے زیادہ ہو جائے گی۔
ویسے بھی صہیونی حکومت کے زیر انتظامیہ علاقوں میں جو یہودی آباد ہیں ان کی غالب اکثریت دیگر ممالک سے نقل مکانی کر کے یہاں مقیم ہونے والے یہودیوں پر مشتمل ہے یعنی یہ لوگ فلسطین کے باشندے نہیں تھے۔
قصہ مختصر یہ کہ فلسطینی عوام انیس سو اڑتالیس میں اسرائیل کے قیام سے قبل کی سرحدوں میں آزاد فلسطینی ریاست چاہتے ہیں۔ اسرائیلی جارحیت کے مد مقابل فلسطین کی جانب سے مسلح دفاع کرنے والی مقاومتی و مزاحمتی گروہ بھی اس ہدف کو حاصل کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ گو کہ فلسطینی انتظامیہ نے چار جون انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں میں محدود فلسطینی ریاست کی امریکی تجویز کو قبول کر لیا ہے اور عرب لیگ بھی اس پر رضا مندی کا اظہار کر چکی ہے لیکن وہ بھی دیگر فلسطینیوں کی طرح بیت المقدس (یروشلم) کو اپنی آزاد مملکت کا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں اور لمحہ موجود کی حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بیت المقدس پر مکمل طور پر قابض ہو چکا ہے اور عملی طور پر اسے صہیونی ریاست کا دارالحکومت بنا چکا ہے۔ امریکا کسی طور اسرائیل کو اس پر راضی نہیں کر سکے گا کہ وہ یروشلم سے دستبردار ہو جائے۔
ایران کی حکومت بھی انیس سو اڑتالیس کی پوزیشن پر ایک فلسطینی ریاست کے قائل ہیں جس میں سیاسی نظام کا فیصلہ فلسطینی باشندے ریفرنڈم کے ذریعے کریں۔ یعنی اسرائیل کی نابودی اور صرف ایک ملک فلسطین جس میں فلسطینی مسلمان، فلسطینی عرب اور فلسطینی یہودی آباد ہوں نہ کہ پوری دنیا سے لا کر آباد کیے گئے یہودی۔ امریکی صدر کے دورے کے بعد اب عرب لیگ، فلسطینی انتظامیہ اور او آئی سی کی قیادتوں کا امتحان شروع ہو چکا ہے کیونکہ یہ سب یروشلم (بیت المقدس) کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کا اعلان کرچکے ہیں اور سبھی فلسطینی مہاجرین کی وطن واپسی کے حق کے قائل ہیں۔
اب یا تو وہ اسرائیل و امریکا سے یہ مطالبے منوا لیں یا پھر ان کے خلاف بلاک کا حصہ بن کر فلسطین کا دفاع کرنے والے مقاومتی و مزاحمتی گروہوں کی پشت پناہی کریں، اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی تیسرا آپشن نہیں۔گیند اس وقت عرب لیگ اور فلسطینی انتظامیہ کی کورٹ میں ہے۔ عرب لیگ کے اہم ترین اور مرکزی رکن ملک مصر میں اخوان المسلمون کے محمد مرسی کی حکومت کے باوجود غزہ کا محاصرہ جاری ہے۔ رجب طیب اردگان کی حکومت کے باوجود ترکی امریکا کا قریبی اتحادی اور حلیف ملک ہے۔
بجائے اس کے کہ یہ دو ملک امریکا سے فلسطینیوں کے حق میں کوئی فیصلہ کرواتے، یہ خود غزہ کے محصور فلسطینیوں کے خلاف صہیونی مظالم میں شریک ہیں۔اوباما نے اس دورے کے دوران صہیونی حکومت کو آمادہ کیا کہ وہ ترکی سے فریڈم فلوٹیلا پر حملے کی معافی مانگے۔ تاہم صہیونی حکومت نے واضح کر دیا کہ ترکی کے مطالبات تو تسلیم کر لے گی لیکن غزہ کا محاصرہ ختم نہیں کرے گی۔ فریڈم فلوٹیلا کا مقصد غزہ کا محاصرہ ختم کروانا تھا، جب محاصرہ ہی ختم نہیں ہوا تو فریٖڈم فلوٹیلا پر حملے کی معافی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اس دورے میں اوباما نے اسرائیل کو جو سب سے بڑا فائدہ پہنچایا وہ یہی تھا کہ اب اس کے ترکی سے تعلقات بحال ہو چکے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا؟