داستان تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں

غلطی پارٹی کے سربراہ بننے کے خواہش مندوں سے ہوئی ہے انھیں ہی خود کو درست کرنا ہے۔


نجمہ عالم March 09, 2018
[email protected]

کئی ماہ سے سینیٹ کے انتخابات نہ صرف ذرایع ابلاغ بلکہ ہرگھر میں اولین موضوع بنے رہے، بالآخر تین مارچ کو یہ انتخابات پایہ تکمیل کو پہنچ گئے۔ تمام خدشات شکوک اور قیاس آرائیوں کے باوجود۔ اب جب کہ ان انتخابات کے انعقاد کو چند دن ہوچکے ہیں قارئین! کئی زاویوں سے اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حقیقی نتائج کے بجائے غیر متوقع نتائج کا سبب کیا ہے۔ ایسی باتیں قبل از انتخابات بھی گردش کر رہی تھیں۔

کئی دانشور ان حالات کی جانب کھل کر اور کچھ اشاروں میں کہہ چکے تھے کہ تاریخ کی بدترین ہارس ٹریڈنگ کی جا رہی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ کے علاوہ قبل از انتخاب بھی ایوان بالا پر قبضے کے لیے کئی طرح کے جوڑ توڑ کیے گئے۔

بلوچستان میں صورتحال یکسر تبدیل ہونا اسی جوڑ توڑ کا بین ثبوت ہے۔ آصف زرداری جو ایسے ہی کرتبوں کے باعث خود کو ''بہترین سیاستدان'' مانتے ہیں، اگر ضمیر کا سودا واقعی سیاست ہے تو ان کا دعویٰ بھی درست ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے کچھ ارکان سے شکایت ہے کہ انھوں نے اپنی جماعت سے وفاداری کا تحفظ نہیں کیا اس سے بڑھ کر (جو کچھ حقیقت بھی ہے) تمام قائدین نے ہر دوسری جماعت پر ووٹ کی خرید و فروخت کا الزام عائد کیا ہے جب کہ اپنا اپنا دامن صاف قرار دیا ہے۔

نتائج کا بغور جائزہ لیا جائے تو پیپلز پارٹی نے ہر صوبے میں چمتکار دکھایا جس کو بعض ذرایع پیپلز پارٹی کی سخت محنت اور عمدہ کارکردگی بتا رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کرنے والے خود بھی اس کاروبار میں شریک ہیں۔

سب سے زیادہ واویلا اور غصہ عمران خان کی جانب سے سامنے آیا ان کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد کے پی کے اسمبلی میں صرف سات ہے لیکن ان کے دو سینیٹر کامیاب ہوئے جب کہ وہاں ایک سینیٹر کے لیے کم از کم بارہ ووٹ ہونا چاہیے تھے جس کا مطلب یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے کے پی کے اسمبلی کے ارکان خریدے۔

یوں تو عمران خان ہر معاملے پر اپنے ہاتھ صاف ہی ظاہر کرتے ہیں مگر پنجاب میں جو انھوں نے ایک سیٹ حاصل کی تو وہاں ان کے کل 30 ووٹ تھے، جب کہ ان کے امیدوار نے 44 حاصل کیے اسی بنا پر (ن) لیگ پی ٹی آئی پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام عائد کر رہی ہے ،آخر چوہدری سرور کو 14 مزید ووٹ کہاں سے اور کیسے ملے۔

پنجاب اسمبلی میں پی پی ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی حالانکہ اس ایوان میں ان کے آٹھ ووٹ تھے جب کہ ان کے امیدوار 26 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تو کیا ان کو اتنے ووٹ کسی نے تحفتاً دیے ہیں۔ یعنی پیپلز پارٹی نے 18 جب کہ پی ٹی آئی نے 14 ووٹ خریدے۔ (ق) لیگ بھی اپنے تین بے وفا ارکان کی تلاش میں ہے، اگرچہ یہ ساری صورتحال قارئین کو اب تک معلوم ہوچکی ہے اب ہم آتے ہیں اصل موضوع کی طرف جو سب سے زیادہ اہم ہے اور کسی نے اس پر اتنی توجہ نہیں دی، اگر دی بھی تو دوسرے زاویے سے۔

سندھ میں دوسری بڑی پارٹی ایم کیو ایم پاکستان نے 23 اگست کو بانی جماعت سے لاتعلقی کے بعد آہستہ آہستہ اپنا مقام (اگرچہ مکمل طور پر نہیں) دوبارہ حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوچلی تھی مگر یہ سینیٹ انتخابات ہر کوشش اور ہر آپریشن سے زیادہ قاتل قرار پائے کہ صرف ایک شخص کے متنازعہ ہونے پر وہ ایم کیو ایم جو بے حد منظم کہی جاتی تھی دو واضح گروہ میں تقسیم ہوگئی مگر خیال یہی تھا کہ انتخابات سے قبل کسی نہ کسی صورت ایک بار پھر متحد ہوجائے گی، مگر ڈاکٹر فاروق ستار اپنے اس چہیتے کو دستبردار کرانے پر طور آمادہ نہ ہوئے جب کہ وہ صاحب کامیاب بھی نہ ہوئے اور ایم کیو ایم صرف ایک نشست حاصل کرسکی۔

یہ بھی کوئی ایسی بات نہیں تھی ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے مگر اس تجربے کے بعد تو عقل آجاتی مگر دوریاں بڑھتی ہی جا رہی ہیں، سب سے اہم پہلو اس سارے قصے کا یہ ہے کہ سندھ اسمبلی میں اب تک ان اراکین جو نہ بکے تھے نہ جھکے تھے انھوں نے قائدین کی ضد اور انا کے خلاف بطور احتجاج اپنے ووٹ پی پی کو دیے جب کہ کچھ نے اپنا ووٹ ضایع بھی کیا پارٹی کی بے حد وفادار اور سینئر خواتین کارکنان نے چھپا کر نہیں بلکہ اعلانیہ اپنا ووٹ پی پی کو دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پارٹی کے بڑوں کے رویے اور ضد سے تنگ آکر یہ فیصلہ کیا کہ شاید عام انتخابات تک ہی یہ اپنی غلطی تسلیم کرلیں تو سینیٹ میں ہونے والا نقصان اتنا اہم ثابت نہ ہوگا۔ اب ان ارکان پر پیسے لینے کا خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اب ایسا ہوا یا نہیں یہ الگ سوال ہے اصل بات تو یہ ہے کہ پارٹی کے دونوں دھڑوں نے اپنے ارکان اسمبلی خصوصاً خواتین سے نہ بھرپور رابطہ رکھا نہ انھیں کوئی گائیڈ لائن دی نہ ان کے تحفظ کی ذمے داری قبول کی ایسے میں ان کو ڈرایا، دھمکایا بھی گیا ہوگا اور وہ دباؤکا شکار بھی رہی ہوں گی۔

اس صورت میں انھوں نے احتجاجاً یا دانستہ (دباؤ یا لالچ میں) کوئی فیصلہ کیا تو غلطی ان کی ہے کہ رہنماؤں کی؟ اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ انھوں نے اپنا ووٹ فروخت کیا تو بھی انھوں نے چھپا کر نہیں بلکہ اعلانیہ اپنے ووٹ کے بارے میں فیصلہ کیا۔ مگر اب ہو یہ رہا ہے کہ کنوینر کی جانب سے (جن کی اپنی حیثیت متنازعہ ہے) ان خواتین کو شوکاز نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں (کسی مرد رکن کے بارے میں ایسے نوٹس کی اطلاع نہیں ملی) مردوں کے اس معاشرے میں صرف عورتوں کو ہی زد پر کیوں رکھا جاتا ہے؟ بلا ان کی مجبوریوں اور حالات کو مدنظر رکھے۔

آخر کیا وجہ تھی کہ شازیہ فاروق نے (اطلاعات کے مطابق) خود کو ختم کرنے کی کوشش کی جب کہ وہ کتنے سنگین حالات میں بھی پارٹی کی وفادار رہیں ۔ نائلہ منیر کتنی سرگرم اور برے سے برے وقت میں پارٹی کے ساتھ کھڑی رہیں شوہر کے انتقال کے بعد گھر اور بچوں کی ذمے داری کے باوجود پارٹی کے لیے ہر وقت مصروف رہیں ۔ اب اگر انھوں نے اپنا ووٹ دوسروں کو دیا یا ضایع کیا تو ان سے حقیقت معلوم کرکے ان کی جائز شکایات کا ازالہ کرنا زیادہ بہتر ہے کہ ان کو شوکاز نوٹس بھیجنا ؟

کوئی بھی سیاسی جماعت چاہے خود کو کتنی بھی لبرل کہتی رہے مگر خواتین سے امتیازی سلوک ان کے لبرل ہونے کا بھانڈا پھوڑ ہی دیتا ہے۔ یہی کارروائی مرد ارکان کے ساتھ کیوں نہیں کی جارہی؟ اگر واقعی ان خواتین نے احتجاجاً ایسا کیا تو اب ضد اور انا کو چھوڑ کر پارٹی کو متحد اور مستحکم کرنے کی کوشش کی جائے۔ کتنے گھر برباد ہوئے کتنی جانیں گئیں ذرا ان ماؤں، بہنوں اور بیویوں سے پوچھیں۔ کئی گھرانے تو ایسے ہیں جن سے باپ، بھائی اور بیٹے کے جنازے نکلے اور اب پیچھے رہ جانے والوں کا کوئی سہارا نہیں۔ اس دھڑے بندی سے پہلے پارٹی اپنے شہدا کے لواحقین کا پورا خیال رکھتی تھی (اب بھی ایک دھڑے کی طرف سے کوشش جاری ہے)۔

اب بھی اگر آنکھیں کھل جائیں اپنے مخلص کارکنوں کے جذبات کا خون کرنے کے بجائے پہلے سے مضبوط و مستحکم حیثیت اختیار کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ کارکنان ساتھ نہ دیں کیونکہ کارکنان نے کہیں بھی کوئی غلطی نہیں کی۔ غلطی پارٹی کے سربراہ بننے کے خواہش مندوں سے ہوئی ہے انھیں ہی خود کو درست کرنا ہے ورنہ تو پی پی اور پی ٹی آئی اس خلا کو پر کرنے کے لیے پہلے ہی تیار ہیں۔ بس ''آپ ہی کی داستان تک نہ ہوگی زمانے میں۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں