قصہ کیلیبری فونٹ کا

جرح میں ریڈلے نے یہ بیان دیا کہ 2007میں کیلیبری فونٹ کمرشل استعمال کے لیے دستیاب نہیں تھا۔


اکرام سہگل March 10, 2018

جانب دار میڈیا نے ٹرسٹ ڈیڈ کی جعل سازی کے معاملے میں ''کیلیبری فونٹ'' سے متعلق الزامات کو یک طرفہ پراپیگنڈے کا سہارا لے کر حقیقت کے برخلاف ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے چلائی گئی اس مہم میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ ٹرسٹ ڈیڈ کی جائزہ لینے والے فورنسک ماہر رابرٹ ریڈلے نے عدالت میں ہونے والی جرح کے دوران یہ قبول کرلیا ہے کہ اگرچہ یہ فونٹ2007میں کمرشل استعمال کے لیے دستیاب ہوا تھا لیکن 2005میں بھی اس کا استعمال ممکن تھا۔

حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے مال و زر کی بنیاد پر اپنائے گئے ہتھ کنڈے تو الگ رہے، کئی معتبر تجزیہ کاروں نے بھی گواہ کے بیان کی نقول پھیلائیں اور اس طرح جعلی خبریں پھیلانے کے مرتکب ہوئے۔ ایسے افراد کی بڑی تعداد ، جو اس سے قبل یہ تسلیم کرتی تھی کہ پیش کی گئی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی تھی اور الزامات کی زد میں آنے والوں نے واضح طور پر عدالت کے سامنے غلط بیانی کی، وہ بھی اس سوچی سمجھی گمراہ کُن رپورٹنگ کے جھانسے میں آگئے۔ کام یابی سے پراپیگنڈہ کرنے والوں پر گوئیبلز کی روح یقیناً بہت خوش ہوگی۔

ویڈیو لنکس کے ذریعے گواہان کی پیشی ، دونوں گواہوں اور استغاثہ و تفتیش کاروں پر دو وکلائے صفائی کی جرح 22فرورری کو ہوئی جب کہ گواہان لندن میں پاکستان کے ہائی کمیشن کی عمارت میں موجود تھے۔

استغاثہ کے پہلے گواہ رابرٹ ریڈلے فورنسک ماہر ہیں اور پانچ دہائی قبل قائم ہونے والی ریڈلے فورنسک ڈاکیومنٹ لیبارٹری سے وابستہ ہیں۔ یہ لیبارٹری برطانیہ میں دستخط، لکھائی اور دستاویز کے دیگر فورنسک تجزئیات کرنے کا طویل ترین اور خاص تجربہ رکھنے والی نجی لیبارٹریوں میں سے ایک ہے۔

یہ ادارہ برطانیہ اور اس باہر فوجداری و دیوانی مقدمات میں پیش کیے گئے دستاویزات کی جانچ پڑتال اور تصدیق کی خدمات فراہم کرتا ہے۔ یہ کوئی معمولی لیبارٹری نہیں، اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے انتہائی محتاط انداز میں کام کرنے والا ادارہ ہے۔ جانچ پڑتال کی جو خدمات یہ لیبارٹری فراہم کرتی ہے۔

اس میں دستخطوں کی تصدیق کے لیے کی جانے والی جانچ، لکھائی کی شناخت، ای ایس ڈی اے امپریشن کی شناخت( جس میں ایک دستاویز کے دوسرے دستاویز پر آنے والے الیکٹرانک یا دوسری لکھائی کے نشانات/اثرات کا جائزہ لیا جاتا ہے)، لکھائی یا نشانات کی ترتیب کے تعین، دستاویز میں استعمال ہونے والی روشنائی کی جانچ پرکھ، مشترکہ ماخذ کے تعین کے لیے پرنٹنگ یا ٹائپنگ کا موازنہ، دستاویز کی نقول کے مشترکہ ماخذ کے تعین، دستاویزات میں کی جانے والی تبدیلیوں، صفحات کی تعلیق وغیرہ کی شناخت، مٹائے گئے یا بعد میں لکھے گئے لفظوں کی کھوج، لکھائی کے تواترکی شناخت، دستاویزات کی تیاری کے عرصے کا تعین، کاغذ کی جانچ پڑتال وغیرہ جیسی خدمات شامل ہیں۔

ریڈلے لیبارٹری دیگر ماہرین کی رپورٹس کا جائزہ لے کر اس پر تبصرے، اضافے اور اگر ضروری ہو تو اس پر تنقید کی خدمات بھی فراہم کرتا ہے تاکہ کلائنٹ کو پیش کردہ شواہد کی اہمیت سے متعلق پوری تسلی حاصل ہوجائے۔

ریڈلے نے اس بات کی تصدیق کی کہ اسے ''کوئسٹ سولسٹر'' لندن کی جانب سے فراہم کردہ دو ٹرسٹ ڈیڈز کی نقول کا ایک سیٹ دیا گیا۔ جن میں سے ایک ایونفیلڈ پراپرٹیز کی ملکیت رکھنے والی نیلسن اینڈ نیسکول کمپنی اور دوسری کومبر بی وی آئی کمپنی کی جانب سے جاری کی گئی تھیں، یہ دونوں دستاویزات تین تین صفحات پر مشتمل تھیں۔ فورنسک جانچ کے بعد یہ انکشاف ہوا کہ دونوں دستاویزات کے صفحہ دو اور تین بعینہ ایک جیسے ہیں۔

مزید یہ کہ ان دستاویزات کے پِن سے منسلک اوراق کو کسی آلے کی مدد سے الگ کرکے دوبارہ جوڑا گیا تھا، پن نکالنے سے بننے والے سوراخ بھی ان کاغذات پر واضح ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ٹرسٹ ڈیڈز پر اسٹیپل پن سے بننے والے متعدد سوراخ ہیں، تاہم دونوں دستاویزات کے پہلے صفحے اور بعد کے صفحات پر پنوں سے بننے والے سوراخوں کی تعداد مختلف ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعد والے کاغذات اس دستاویز میں شامل کیے گئے ہیں۔ ریڈلے نے یہ بھی تصدیق کی کہ اگر انھیں ان ڈیڈز پر لگے آئیلٹ کھولنے کی اجازت دی جائے تو وہ صفحہ اول اور بعد کے صفحات پر پنوں کے نشان کا جائزہ لے کر وقت کا تعین بھی کرسکتے ہیں جس میں یہ پنیں لگائی گئیں۔

دستاویزات پر ہونے والی تصدیق کی تاریخوں میں تبدیلی کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور 2004 کو تبدیل کرکے 2006کردیا گیا ہے۔ ریڈلے کو بعد میں دو ڈیڈز کی فائن کلر کاپی کا ایک اور سیٹ بھی بھیجا گیا(جو جے آئی ٹی کے سامنے پیشی میں ملزمان نے جمع کروائی تھیں)۔ اس میں شامل کومبر کی ڈیڈ پہلے بھیجی گئی دستاویزات سے مختلف تھی جب کہ نیلسن نسکول کی ڈیڈ پہلے ارسال کردہ دستاویز سے یکسانیت رکھتی تھی۔

جرح میں ریڈلے نے یہ بیان دیا کہ 2007میں کیلیبری فونٹ کمرشل استعمال کے لیے دست یاب نہیں تھا، 2005میں مخصوص ''سافٹ ویئر انجن'' کے بغیر اسے ڈاؤن لوڈ کرنا ناممکن تھا اور کوئی آئی ٹی ماہر ہی ایسا کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود اس کے لیے بہت وقت درکار ہوگا۔ ان حالات میں کسی خاص ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری میں خصوصی طور پر یہ فونٹ کیوں استعمال کیا جائے گا؟ اس مقصد کے لیے بہ آسانی دستیاب کوئی دوسرا فونٹ کیوں استعمال نہیں کیا گیا؟

وکلائے صفائی نے ریڈلے کے بیان پر جرح کرتے ہوئے یہ مؤقف اپنایا کہ کیلیبری فونٹ ونڈوز وسٹا سافٹ ویئر میں دست یاب تھا۔ جس پر استغاثہ کے گواہ نے وضاحت کی، بیٹا ورژن (پروٹوٹائپ) 2005میں خالصتاً آزمائشی بنیادوں پر متعارف کروایا گیا تھا اور اسے نقائص(بگز) اور مسائل دور کرنے کے لیے صرف آئی ٹی ماہرین، ہارڈویئر مینوفیکچررز تک محدود رکھا گیا تھا۔ اسے کمرشل بنیادوں پر 31جنوری 2007 کو متعارف کروایا گیا تھا اور اس سے قبل یہ عام یا معمول کے استعمال کے لیے دست یاب نہیں تھا۔ یہ تفصیلات بتاتے ہوئے ریڈلے اپنے ریسرچ نوٹس سے بھی مدد لے رہے تھے۔ وکیل صفائی نے استغاثہ کے گواہ کی جانب سے نوٹس پڑھنے پر اعتراض کیا۔

ریڈلے نے جواباً بتایا کہ برطانوی قوانین اسے بیان کے دوران نوٹس پڑھنے کا اختیار دیتے ہیں اور یہ بھی کہ وہ استغاثہ کی ٹیم کے ساتھ ان نوٹس پر پہلے بات کرچکے ہیں۔ تبھی صفائی کے وکلا نے جرح کے لیے اس کی نقل کا مطالبہ کرکے بنیادی غلطی کی اور وہ نوٹس بطور ثبوت نشان زدہ ہوگئے۔ اپنا بیان پڑھتے ہوئے ریڈلے نے اعتراض کیا کہ دو بیانات اس سے غلط طور پر منسوب کیے گئے ہیں۔ فاضل جج نے بعدازاں ویڈیو ریکارڈنگز میں دیکھ کر ریڈلے کے اس اختلاف کی توثیق بھی کردی۔

دوسرے گواہ راجہ اختر نے التوفیق کے سلسلے میں ہونے والی قانونی کارروائی(جس میں ایون فیلڈ کی جائیداد بھی شامل ہے) سے متعلق کوئینز کورٹ لندن کے حکم نامے پر اپنی رائے اور نوٹری پبلک جیرمی فری مین سے ہونے والی مراسلت سے متعلق اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔ جیرمی فری مین نے 2006میں مبینہ دو ٹرسٹ ڈیڈز کی تصدیق کی تھی۔ انھوں نے دو ٹرسٹ ڈیڈز کی اسکین شدہ نقول ، جن کی تصدیق فری مین نے کی تھی، ایم میل کے ساتھ ارسال کی تھیں اور تصدیق کی تاریخ اور اس سے قبل کے تقاضے پورے ہونے کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے۔

فریمین نے جواب میں کہا تھا کہ اس نے ان دستاویزات کی تصدیق کی تھی۔ راجہ اخترکا اصرار تھا کہ انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد بادی النظر میں پیش کردہ دونوں دستاویز میں جعل سازی کے شواہد سامنے آئے اور اسی وجہ سے انھوں نے یہ معاملہ جے آئی ٹی کی ہدایت پر فورنسک ماہرین کو بھیج دیا۔

اشتہارات دینے کا اختیارالیکٹرانک یا پرنٹ میڈیا کی خبروں، تبصروں، آرا اور دیگر خدمات پر اثرانداز ہوتا ہے۔ حال ہی میں یہ بات واضح ہوئی ہے کہ کس طرح حکومت مخالف میڈیا کو اشتہارات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ان ہتھ کنڈوں سے ''سرکش'' پرنٹ میڈیا کو دیوالیہ بنایا جاتا ہے اور ''وفادار'' میڈیا کو (مالی مفاد کے ساتھ) حقائق توڑ مروڑ کر افسانہ بنادینے کا اختیار مل جاتا ہے۔ ایسی چالبازی میں ملوث عناصر کے خلاف ایک جے آئی ٹی تشکیل دے کر تحقیقات ہونی چاہییں اور ایسے عناصر کو جیل بھیجنے کے ساتھ ساتھ ریاست کے چوتھے ستون کا اعتبار مجروح کرنے سے روکنے کے لیے بلیک لسٹ بھی کردینا چاہیے۔

عدالتی کارروائی کو خلاف واقعہ بیان کرنا صریح جرم ہے، اصل حقائق سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ سفید پوش ملزم اپنے ذاتی اور مالی اثرورسوخ کے بل پر غیر معمولی فائدہ نہ اٹھا سکیں اور نہ ہی انھیں سزا سے فرار کا راستہ ملنا چاہیے۔

(فاضل کالم نگار دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں