تڑکا
آج ہمارے پاس بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، تحقیقات کے لیے بڑی بڑی جدید لیبارٹریز ہیں، لیکن پڑھنے والوں میں وہ شوق۔۔۔
کسی عقل مند شخص سے سنا تھا کہ آج کل کے دور میں دو ہی طاقتیں چلتی ہیں ایک وہ جو پستول کی نال سے نکلتی ہے جس سے لوگ ڈرتے ہیں، دوسری قلم کی طاقت جس سے نکلنے والے الفاظ کی تکرار گولی کی تکلیف سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے، ایک گولی ایک ہی شخص کو نشانہ بناسکتی ہے لیکن قلم کی طاقت ایک وقت میں کئی لوگوں کو چت کرسکتی ہے۔ ویسے تو اس طاقت کا اندازہ ماضی میں اتنا اجاگر نہیں ہوا تھا لیکن حالیہ الیکٹرانک میڈیا کی ایجاد نے اس کی افادیت میں چار چاند لگا دیے ہیں اور اگر ایسا نہ ہوتا تو پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ کے انتخاب پر پورے ملک میں اتنی لے دے نہ ہوتی لیکن یہ دھار کچھ زیادہ ہی تیز تھی جس نے اپنے اور غیروں سب کو کاٹ کر رکھ دیا۔
طلعت حسین کے غیر جانبدارانہ تجزیے اور تبصروں نے انھیں کچھ اس طرح سے مقبول بنادیا کہ ان کو بھی ایک کرسی نوازش کی جانے لگی، وفاقی وزیر اطلاعات کے مشیر کی اسامی کچھ ایسی ہلکی بھی نہ تھی لیکن اگر اس کرسی کو قبول کرلیا جاتا تو شاید خود طلعت صاحب کے تبصرے اور تجزیوں کو لوگ کچھ شک کی نگاہ سے دیکھتے لیکن انھوں نے انتہائی عقلمندی کے ساتھ اپنے دامن کے بے داغ رہنے پر ہی اکتفا کیا کہ یہی ان کی کل جمع پونجی ہے اس طرح ان کی مقبولیت کا گراف بلند ہوا ہو یا نہیں لیکن ان کی عزت میں بہت اضافہ ہوا اور تمام ہی سینئر اور جونیئر صحافی حضرات نے ان کے اس رویے کی تعریف کی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ کرسی کا کیا ہے جناب! اس کی چولیں تو کسی وقت بھی ہل سکتی ہیں لیکن جو عزت اور نام انتہائی پیچدار راستے پر بچ بچا کر چل کر حاصل کیا جائے اس کی قدر کوئی اور کیا جانے، لیکن ایک پروفیشنل صحافی اس کی قدروقیمت سے بخوبی واقف ہے۔
سیاست کا میدان ہمارے ملک میں اس قسم کے اکھاڑوں سے سج چکا ہے کہ جس پر چلنا انتہائی دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے اب خود ہی ملاحظہ فرما لیجیے۔ وہی چہرے دوبارہ ٹکٹ خرید کر اس میدان میں ایسے داخل ہورہے ہیں جیسے عوامی ٹرین کی ٹکٹیں خرید کر کراچی سے لاہور تک کا سفر طے کیا جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ چھک چھک ٹرین چلتی ہے، چلے، نہیں چلتی تو نہ چلے، لیکن ٹرین میں بیٹھے مسافر سفر ختم ہونے تک اتنی آسانی سے اترنے والے نہیں ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ چہرے بھی ہیں جن پر بڑی لے دے ہوچکی ہے۔
لڑائی، مار کٹائی، دنگا فساد، اسلحے کی نمائش اور نجانے کیا کیا، پر مجال ہے کہ حضرات نے ایک قدم بھی پیچھے کی جانب بڑھایا ہو اور تو اور ہماری فلمی اداکارہ میرا نے بھی انگلستان کی بڑی آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے لکھے انتہائی سمجھدار خاندان سابقہ کرکٹ کپتان عمران خان کے مقابل اسی میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرا تصور تو کریں کہ کہاں خان جی اور کہاں فلم کھلونا میں ہوشربا رقص کرنے والی میرا۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے کسی ٹی وی شو میں خود میرا صاحبہ نے اپنے ہی منہ سے اعتراف کیا تھا کہ ساتویں جماعت کے بعد انھوں نے پرائیویٹ پڑھا تھا غالباً معین اختر مرحوم اس شو کے میزبان تھے۔ میرا کا کہنا تھا کہ کیونکہ ساتویں جماعت کے بعد (ظاہر ہے ساتویں جماعت میں زیادہ سے زیادہ تیرہ چودہ سال کی بچی ہوں گی) انھوں نے شوبز میں قدم رکھ لیا تھا اسی لیے وہ تعلیم کو جاری نہ رکھ سکی تھیں۔
خیر! اب اگر ان کا موڈ سیاست میں آنے کا بن ہی گیا ہے تو کیا ہوا، ذرا سیاسی جلسوں میں ہلہ گلہ ہی رہے گا۔ لیکن عمران خان کے مقابل سوچ کر خودبخود آنکھیں حیرت سے پھیل جاتی ہیں، ویسے تو مسرت شاہین (ماضی کی فلمی اداکارہ) نے بھی مولانا فضل الرحمن کے مقابل کھڑا ہونے کا اعلان کیا ہے اور سنا ہے کہ پہلے بھی وہ ان کے مقابل کھڑی ہوچکی ہیں۔ ویسے تو یہی جمہوریت کا اصل رنگ ہے کہ سب برابر۔۔۔۔۔ اب آگے کیا لکھوں۔۔۔۔؟ لیکن مسرت شاہین صاحبہ نے سیاست کے میدان میں لڑنے کے لیے اپنی شخصیت کو اس طرح ڈھالا کہ میرا جی کے لیے ایک مثال قائم کر دی، کیا میرا اس مثال کی رہنمائی میں اس خاردار وادی میں چل سکیں گی؟ سوچ لیں مہیش بھٹ کبھی بھی آفر دے سکتے ہیں۔
پاکستان کے پہلے آئین کی منظوری دینے والی وزارت کے وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علی کے بارے میں غالباً لوگ اتنا نہیں جانتے کہ وہ ایک کسان کے بیٹے تھے، سادگی، شرافت، ایمانداری یہی کچھ انھوں نے اپنے ماحول سے سیکھا۔ ایک غریب باپ کے بیٹے ہونے کے ناطے بخوبی اپنی جیب کی وسعت سے واقف تھے، کتاب سے انھیں ازحد لگاؤ تھا۔ علامہ اقبال کی مشہور فارسی مثنوی ''اسرار خودی'' پہلی بار چھپ کر بازار میں آئی تو آپ کے شوق نے سر ابھارا، لیکن جیب اجازت نہ دیتی تھی، انتہائے شوق دیکھیے ایک دوست سے کتاب مانگی اور راتوں رات اسے نقل کرلیا اور دوسرے روز وہ کتاب واپس کردی، ذاتی طور پر میں نے چوہدری محمد علی کا نام کورس کی کتابوں اور پاکستان کے پہلے آئین کے حوالے سے ہی پڑھا تھا لیکن ان کی قلم دوستی کے اس واقعے نے مجھے بہت متاثر کیا۔
اسلامیہ کالج لاہور میں کیمسٹری پڑھانے والے محمد علی صاحب جو کیمیائی فارمولوں میں کھو جانے کے باوجود ادب سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے، پہلے تو یہ کہ اس زمانے کی مشکلات، مالی وسائل کی کمی اور ایک دیہاتی گھرانے کے بیک گراؤنڈ کے ساتھ 1927 میں پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کیا اور کیمسٹری جیسے مشکل مضمون میں تحقیق کے لیے ساری عمر بتانے کا عزم کیا۔ آج کے اس دور میں کیا ہمارے کسی سیاسی امیدوار نے ماضی کے مقابلے میں اس طرح کی محنتیں اور صعوبتیں برداشت کیں؟
آج ہمارے پاس بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، تحقیقات کے لیے بڑی بڑی جدید لیبارٹریز ہیں، لیکن پڑھنے والوں میں وہ شوق، وہ لگن نہیں ہے، نقل مارنے کو اپنا حق سمجھنے والے کیا سیاست دان اور کیا بیوروکریٹ سب برابر ہیں۔ پچھلے دور حکومت میں تعلیم کے حوالے سے کیا پیش رفت ہوئی، ملازمتوں کے حوالے سے کیا کارنامے ہوئے؟ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ جاتے جاتے میٹرک اور انٹر پاس حضرات کو ایچ ایس ٹی کے لیول تک پہنچادیا گیا، ملازمتوں میں اپنے اپنوں کا حساب کتاب رکھا گیا، ہر میدان میں کرپشن کا میدان گرم رہا، لینڈ مافیا کے عیش رہے اور حقدار کے آنسو نہ رکے۔
دہشت گردی نے جھنڈے گاڑ دیے، بھتہ خور آگے نکل گئے۔ انسانیت سرنگوں ہوگئی اسی شہر کراچی میں!! ترقی کے معاملات بتدریج زوال پذیر ہی رہے، پانی کے ذخائر چیخ چیخ کر گلہ کرتے رہے کہ ہمیں توجہ دو، ورنہ ہم خشک ہوجائیں گے، دشمنوں نے چور گلی سے راستے نکال لیے، کچھ کرو۔۔۔۔۔! لیکن کیا کرتے نہ اہلیت، نہ تعلیم، نہ وہ دماغ، نہ وہ مزاج۔ ڈگریوں کو تو ردی پیپر میں بیچا بھی جاسکتا ہے لیکن عقل و شعور کسی منڈی میں بکاؤ مال نہیں ہوتی، اگر ایمانداری کا تڑکا بھی ساتھ ہو۔