انتخاب یا انقلاب
نپولین بونا پارٹ جب اقتدار میں آیا تو مردوں کی غلامی کو پھر ایک بار جائز قرار دے دیا۔
لاہور:
ایما گولڈمان کے بقول ''انتخاب سے عوام کے مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کا انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے'' آج کل میڈیا میں انتخابات آئین کی شق نمبر 63-62 شفاف الیکشن، الیکشن کمیشن، حلقہ بندی، ٹیکس نادہندگان، بدعنوانی،ایمانداری،عوامی مینڈیٹ، جمہوریت کے پانچ سال اور ایک نکتے پر نہ پہنچنے پر مشترکہ پریس کانفرنس، پھر الیکشن کمیشن پر عدم اعتماد، اقتدار میں آکر مزدوروں کی تنخواہ 18000 روپے کرنے کا وعدہ، سچ بولنے کا وعدہ اور انقلابی تبدیلی کا نعرہ وغیرہ وغیرہ کی بھرمار ہے۔
جب کہ بھوک، افلاس، غربت، بے روزگاری، لاعلاجی، ناخواندگی، مہنگائی، کرب، ذلت، اذیت، ٹارگٹ کلنگ، خودکشی، فاقہ کشی، جبر، چیٹنگ اور لوٹ مار زبان زدعام ہے۔ اب بھلا 99 فیصد لوگوں کا 63-62، شفاف اور ایماندار الیکشن، حلقہ بندی اور ٹیکس سے کیا تعلق؟ وہ تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ آٹا، دال، چاول، تیل، دودھ، چینی، طلبہ کی فیس، کتابوں کی قیمت، ٹرانسپورٹ کا کرایہ، گھر کا کرایہ، ادویات، بجلی اور گیس سستی ہو۔ یہ سب کچھ کبھی بھی ریاست، سرمایہ دارانہ جمہوریت اور قومی حد بندیوں میں رہتے ہوئے حل نہیں ہوئے۔ پانچ سو سال قبل از مسیح میں اسپارٹا (روم کا قصہ) میں غلاموں نے ایک بار بغاوت کرکے اسپارٹا کی چولیں ہلا ڈالی تھیں۔
لائی کارگس نے ریاست (غلامی کے نظام کو ) بچانے کے لیے عسکری معاشرے کی بنیاد رکھی۔ ہر چند کہ اسپارٹا کے سماج میں عورت کو مرد کے مساوی حیثیت حاصل تھی یعنی جائیداد میں بھی برابر کا حصہ تھا۔ طبقاتی نظام وجود میں آنے کے بعد سے ہمیشہ ہر ترقی پسند اقدام کو خطرناک، خونخوار اور ہیبت ناک ہونے کا پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے۔ جیساکہ 1780 میں سماجی تحریکوں کے دوران لفظ ڈیموکریسی بہت استعمال ہوا۔ تب تک ڈیموکریسی کے لفظ کو انارکی کے ہم معنی قرار دیا جاتا تھا۔ جس طرح کمیونسٹ مینی فیسٹو میں مارکس، اینگلز نے کہا کہ ''یورپ پر کمیونزم کا بھوت منڈلا رہا ہے۔'' 1789-99 فرانسیسی انقلاب کے دوران1794 میں اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ''فرانس اور اس کی نوآبادیوں میں مردوں کی غلامی ختم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے'' یعنی 1794 میں عورتوں کی غلامی آئینی طور پر جائز تھی۔
نپولین بونا پارٹ جب اقتدار میں آیا تو مردوں کی غلامی کو پھر ایک بار جائز قرار دے دیا۔ 1848 کے انقلاب میں مردوں کی غلامی ختم کردی گئی لیکن اس بار بھی عورتوں کی غلامی برقرار رہی۔ سرمایہ دارانہ نام نہاد مہذب معاشرے میں سب سے پہلے دور جدید میں 1893 میں نیوزی لینڈ نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا جب کہ 1789میں جزیرہ کورسیکا میں جب انقلاب آیا تو انھوں نے ری پبلک قائم کرنے کا اعلان کیا جس کے صدر پاسکل پاؤلی تھے۔ ان تمام اقدامات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صدیوں سے شہریوں کے عظیم جانثاروں کی قربانیوں کے باوجود، ان قومی ریاستوں میں رہتے ہوئے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ بقول ڈاکٹر لال خان کے جب ہاتھوں کے ووٹ سے کام نہیں بنتے تو پھر لاتوں سے ووٹ ڈالے جاتے ہیں۔
پاکستان کے عوام مہنگائی، بے روزگاری اور لاعلاجی سے تنگ آچکے ہیں۔ شیخ سعدی نے درست کہا تھا کہ ''تنگ آمد بہ جنگ آمد''۔ یہاں مشکل سے 10 فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہیں باقی ووٹ حکمران فرشتوں سے ڈلوا لیتے ہیں۔اس لیے اکثر عوام اپنے مسائل پر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ محکمہ بلدیات بدین کے ملازمین نے گزشتہ 2 ماہ کی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف شاہ نواز چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا اور دھرنا دے کر ٹریفک معطل کردی۔ گزشتہ دنوں پھلاڈیوں تھانے کی حدود میں واقع حاجی دلمراد گوٹھ میں زمین داروں نے کاروکاری کے الزام میں دولت آباد کے رہائشی 25 سالہ دلقرار مری اور اپنی بہن فاطمہ کو گولیاں مار کر شہید کردیا اور پولیس اپنی بے حسی میں ان کو گرفتار بھی نہ کرپائی۔
لیاقت آباد میں کئی روز سے بجلی کی عدم فراہمی پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا اور ایس ایم توفیق روڈ پر مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے کے ای ایس سی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مطالبہ کرتے ہوئے دو خواتین بے ہوش بھی ہوگئیں۔ نارتھ کراچی اور ملیر ٹاؤن کے خاکروبوں نے دو ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال کردی۔ جس کے نتیجے میں دفاتر کا عملہ اور اعلیٰ افسران دفاتر میں تالا لگا کر چلے گئے۔ ہڑتالی مظاہرین کا یہ کہنا تھا کہ حکومتی اکابرین کے پاس قیمتی گاڑی خریدنے، فلائی اوور بنانے ، اربوں روپے بینکوں سے قرضے لے کر معاف کروانے اور تقریبات میں اربوں روپے خرچکرنے کے لیے رقم ہے لیکن خاکروبوں کو تنخواہوں ادا کرنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے۔
نیب کے چیئرمین بخاری کا کہنا ہے کہ روزانہ اربوں روپے کرپشن میں چلے جاتے ہیں۔ واضح رہے کہ خاکروبوں کی بیشتر تعداد عیسائی اور ہندو شیڈول کاسٹ یعنی اچھوتوں میں سے ہے، ان میں سے کوئی بھی غریب خاکروب اسمبلی میں نہیں پہنچ پاتا۔ حیدرآباد اور میرپورخاص میں بھی خاکروب محنت کشوں نے مسلسل کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر ہڑتال کی اور مظاہرہ کیا ہر چند کہ خاکروبوں میں سب ہندو اور عیسائی ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ مسلمان شہری کارکنان بھی ان سے یکجہتی کے لیے مظاہرے میں شریک تھے۔ گزشتہ دنوں لائنز ایریا صدر کراچی کے بلدیہ کے ملازمین جنھیں 6ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں اپنی تنخواہوں کی وصولی کے لیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔
میرے پاس ایک دردناک خط ساہیوال سے آیا جس میں کہا گیا کہ محمد الیاس نامی شخص رہائش چک نمبر 89/6-R فون نمبر 0300-9444361، انگریزی اور علم سیاسیات میں ڈبل ایم اے ہے اور 17 سال سے ایک ان پڑھ کی سیٹ پر ملازمت کر رہا ہے۔ وہ اس وقت گورنمنٹ ہائی اسکول میں سیکیورٹی گارڈ کی سیٹ پر کام کر رہا ہے۔ اس کا یہ چیلنج ہے کہ اسے کسی بھی کالج میں اس کے مضمون پر ایک تدریسی پیریڈ کا موقع دیکر آزمایا جائے، استادوں اور طلبہ سے پوچھا جائے کہ یہ کیسا استاد ہے؟ یہ بات ہم سب کے لیے باعث شرم ہے کہ جعلی ڈگریاں لے کر اسمبلی میں جاکر کروڑ پتی اور ارب پتی بن رہے ہیں جب کہ ایک ڈبل ایم اے کو ملازمت کے لیے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ وہ اوور ایج ہے جب کہ 16 برس پہلے اس کی عمر تقریباً25 سال کی تھی۔
اگر اسے موزوں ملازمت پر رکھ لیا جاتا تو آج وہ شاید ایجوکیشن ڈائریکٹر ہوسکتا تھا۔ اسی طرح مالاکنڈ بار نے قرارداد پاس کی کہ کامریڈ غفران کو پیپلز پارٹی نے ٹکٹ دیا تو وہ ان کے لیے کام کریں گے، پشتون ملی عوامی پارٹی نے بھی اعلان کیا کہ اگر پی پی پی نے غفران ایڈووکیٹ کو ٹکٹ دیا تو وہ اپنے امیدوار سے دستبردار ہوکر کامریڈ غفران کی حمایت کریں گے۔ بٹ خیلہ پیپلز پارٹی کے صدر جوکہ اپنے حلقے سے قومی اسمبلی کے امیدوار بھی ہیں نے بھی اعلان کیا کہ اگر غفران احمد ایڈووکیٹ کو پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے ٹکٹ دیا تو ہم ان کے حق میں دستبردار ہوجائیں گے۔ مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ انھیں پیپلز پارٹی نے ٹکٹ نہیں دیا۔ اس لیے بھی کہ شاید امریکی سامراج کے آلہ کار اور جاگیردار یہ نہیں چاہتے کہ کامریڈ غفران منتخب ہوکر اسمبلی میں جائیں اور سامراجی عزائم کو بے نقاب کریں۔
گزشتہ دنوں صدر پاکستان اور گورنر سندھ نے دانشوروں، صحافیوں، ڈاکٹروں، انجینئروں، ادیبوں، موسیقاروں، فنکاروں غرض یہ کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کو اعزازات سے نوازا ۔ افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی مزدور اور کسان کو اعزازات سے نہیں نوازا گیا۔ یہی مزدور اور کسان پیداوار کرتے ہیں، انھی کی محنت سے سب پلتے ہیں۔ اور اعزازات سب کو دیے جاتے ہیں لیکن مزدور اور کسان کو نہیں۔ اسی طرح انتخابات کے ذریعے جو منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچتے ہیں ان میں کوئی بھی مزدور کسان نہیں ہوتا۔
سب صاحب جائیداد طبقات کے لوگ ہوتے ہیں۔ انتخابات کے ذریعے اگر مسائل حل ہوتے تو امریکا میں 6 کروڑ، جرمنی میں 50 لاکھ، جاپان میں 65 لاکھ، برطانیہ میں 30 لاکھ، ہندوستان میں 34 کروڑ اور چین میں 22 کروڑ بے روزگار نہ ہوتے۔ یہاں غریب شہریوں، مزدوروں اور کسانوں کی رہنمائی میں انقلاب برپا ہوگا اور سرحدوں کو توڑتے ہوئے عالمی انقلاب کی جانب گامزن ہوگا۔ جہاں قومی دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، کوئی ارب پتی ہوگا اور نہ کوئی گداگر۔