شامی عورتوں کی بے حرمتی ایک بڑا جنگی ہتھیار
وہ نفسیاتی، جسمانی اور سماجی گھاؤ کبھی نہ بھرسکیں گے جو ریپ جیسے قبیح فعل سے شامی عورتوں کو لگائے گئے ہیں۔
آٹھ مارچ کو پوری دنیا میں عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ یہی وہ تاریخ ہے جو ملک شام میں بہت اہمیت کی حامل ہے، اس دن یہاں عام تعطیل ہوتی ہے ۔ 8 مارچ 1963کو ہونے والی ایک کامیاب بغاوت کے نتیجے میں شام میں جو انقلاب آیا، اس کے نتیجے میں جہاں سب کچھ تبدیل ہوگیا ، وہیں شامی فضائیہ کے سربراہ کی کمان جس شخص نے سنبھالی وہ حافظ الاسد تھا ، جوکچھ عرصے بعد شام کا صدر بن گیا۔ اس کے بعد اقتدار اس کے بیٹے بشار الاسدکو منتقل ہوگیا ، یوں تو شام میں کسی کو امان میسر نہیں لیکن شامی عورتیں خصوصی مظالم کا شکار ہیں جن میں سب سے بھیانک ان کے ساتھ ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات ہیں ۔
یہ وہ بحران ہے جوکسی کو دکھائی ہی نہیں دے رہا ، وہ نقصان ہے جس کی تلافی ہو ہی نہیں سکتی، وہ درد ہے جس کا مداوا ممکن ہی نہیں ۔ اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا شام ہی وہ واحد جنگی خطہ ہے جہاں عورتوں اور لڑکیوں کی آبرو ریزی کو ایک اہم جنگی آلے کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے؟ یقیناً نہیں ! جنگوں کی قدیم تا جدید تاریخ کا ہر صفحہ اشک آلود ہے ۔ قدیم روم اور یونان میں ریپ جنگ کا ایک اہم قانون تھا ۔
منگول جہاں جہاں فتح کے جھنڈے گاڑتے وہاں طاقت کے اظہارکے لیے عورتوں کا ریپ کرتے ۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں اس جرم کا دھڑلے سے ارتکاب کیا گیا، 1857اور1947میں ہندوستان کی سرزمین پر عورتوں کی آبروریزی کے دل خراش واقعات تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں۔ تائیوان اورکوریا کی جنگوں میں عورتیں ریپ کا نشانہ بنائی گئیں ۔
جدید تاریخ میں روانڈا، بوسنیا، لائبیریا، صومالیہ، یوگنڈا ، بنگلہ دیش، افغانستان،کشمیر، میانمار غرض وہ کون سا جنگی علاقہ نہیں جہاں ریپ کے منظم طریقوں کو اہم جنگی اصول سمجھ کر بار بار دہرایا نہ جاتا ہو ۔ خواتین کا ریپ کرنے کے پیچھے طاقتورگروہ کی یہ نفسیاتی تسکین ہوتی ہے کہ اس نے اس قوم کی ثقافت پر بھی غلبہ حاصل کرلیا ہے، کیونکہ دنیا کے تمام معاشروں میں عورتوں کو ثقافتی اور روحانی اقدارکا نادر ذخیرہ تصور کیا جاتا ہے۔
اسی لیے جنگوں میں عورتوں کا ریپ کیا جاتا ہے اور جنگوں کے نتائج کے طور پر ان کو جسم فروشی اور انسانی اسمگلنگ کے راستوں پر دھکیل دیا جاتا ہے ۔ یہ قدیم قبیح جنگی رسم آج تک جاری ہے اور سب سے افسوسناک بات تو یہ ہے کہ یہ وحشی قانون جنگی جرم تو اکثر قرار دیا گیا مگر اس کے خلاف کوئی موثر قانون کبھی نہیں بنایا گیا۔
شام کی جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ سیاسی مفادات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟ کِس کی فتح ہوتی ہے، شکست کس کا مقدر بنتی ہے؟ کتنے وسائل جنگوں کی زینت بڑھانے میں جھونکے جاتے ہیں؟ مصالحت کے لیے کون میدان میں کودتا ہے؟
شام کی تقدیر بدلنے والا خفیہ ہاتھ کس اوٹ سے طلوع ہوتا ہے، اس سے مجھے قطعاً دل چسپی نہیں،کیونکہ اب کسی بھی طرح ان بچوں کے آنسو خشک نہیں ہوسکیں گے جو اپنے کھنڈر بنے گھروں کے ملبے پر پڑی ماں باپ کی لاشوں سے لپٹے رو رہے ہیں۔ وہ نفسیاتی، جسمانی اور سماجی گھاؤ کبھی نہ بھرسکیں گے جو ریپ جیسے قبیح فعل سے شامی عورتوں کو لگائے گئے ہیں۔ شام کی جنگ جب بھی ختم ہوگی، نقصان کا تخمینہ لگانے کے لیے لاشوں اور مسمارگھروں کو ہی شمارکیا جائے گا، لیکن عورتوں کے زندہ لاشے کسی گنتی میں نہیں آپائیں گے۔
شام کی سرزمین پر یوں تو عقوبت خانے ایک ناقابل معافی گناہ ہیں، جہاں صرف مملکت کے قرار دیے گئے باغیوں کو وحشت ناک سزاؤں سے نہیں گزارا جا رہا بلکہ ان کی بہنوں ، بیویوں اور بیٹیوں کے لیے بھی زندگی کو بھیانک ترین بنایا جا رہا ہے۔ جیلوں میں عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی ان کی ایک عام سزا ہے، ساتھ ہی ان کو بے لباس کرکے لٹکایا جاتا ہے، بری طرح زدوکوب کرنے کے ساتھ ساتھ کرنٹ لگایا جاتا ہے۔
سزا کے طور پر لڑکیوں کو تنہا ایسی کوٹھریوں میں بند کردیا جاتا ہے جہاں پہلے سے کوئی لاش پڑی ہو۔ مسلسل دی جانے والی سزاؤں سے ان عقوبت خانوں میں عورتیں ہیپا ٹائٹس، خون کی کمی اور ریپ کی وجہ سے انفیکشن کا شکار ہو رہی ہیں، لیکن ان کا کوئی مسیحا نہیں ہے۔ ان عورتوں کا قصورکیا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔
سی این این کی ایک رپورٹر نے جب شام کا دورہ کیا تو وہاں کے ٹیکسی ڈرائیور نے اسے بتایا کہ جب شامی خاندان یہاں سے نقل مکانی کرتے ہیں تو بارڈر پر پولیس اہلکار ان کو روک کر تقاضا کرتے ہیں کہ اپنی جوان لڑکیوں کو یہیں چھوڑ کر جاؤ ورنہ پورے خاندان کو گولیوں سے بھون دیا جائے گا ۔ کیا ایسے خاندانوں کے الم کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جن کے پاس جینے کا کوئی دروازہ نہ کھلا ہو۔ آگے کنواں اور پیچھے کھائی ہو۔
سی این این کی رپورٹر لکھتی ہے کہ ڈرائیور نے بتایا کہ وہ کتنے ہی ایسے خاندانوں کو دیکھ چکاہے جن کے پاس اپنی روتی بلکتی جوان بچیوں کوشامی اہلکاروں کے حوالے کرنے کے سوا،کوئی راستہ نہیں ہوتا۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق صنفی بنیادوں پر ہونے والے جرائم کی شرح شام میں تیزی سے بلند ہو رہی ہے، دانستہ بچوں اور عورتوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے جو براہِ راست انسانی حرمت پر حملے کے مترادف ہے۔
ریپ کے جرم میں صرف شامی حکومت ہی ملوث نہیں بلکہ یہاں سے جو لوگ بچ بچا کر نقل مکانی کر جاتے ہیں ان کی زندگیاں مہاجرین کے روپ میں پریشان ہیں ۔ اردن اور لبنان دو ایسے ممالک ہیں جہاں شامی مہاجر عورتوں کے ریپ کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پھر شام کے اندر ہی امداد کے نام پر شامی عورتوں کے ساتھ جنسی درندگی اس وقت کا سب سے بڑا موضوع ہے اور یہ جرم بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے کارکن کر رہے ہیں۔
قدیم زمانے کا بارٹر سسٹم دیگر جنگی خطوں کی طرح شام میں بھی بری طرح رائج ہے ۔ یعنی، جنس کے بدلے'' جنس'' کا تبادلہ ۔ شامی خواتین کو خوراک اور دیگر امدادی سامان فراہم کرنے کے نام پر ان سے جنسی تسکین حاصل کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔
لاتعداد بار وارننگ دیے جانے کے با وجود امدادی تنظیموں کی طرف سے ریپ کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔ مظلوم شامی خواتین امداد لینے کے نام سے ہی گھبرانے لگی ہیں کیونکہ افسران کے پاس ان کی مدد کرنے کا جو واحد طریقہ ہے وہ شامی عورتوں کے لیے مزید مصائب اور ذلت کا ہی باعث ہے، لیکن وہ اپنے پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے اکثر ان اہلکاروں کی جنسی بھوک مٹانے کے لیے مجبور ہوجاتی ہیں۔
شام کی جنگ کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی پوری فہرست موجود ہے۔ یہ جہنم ٹھنڈا ہو بھی گیا تو بھی اب کبھی امن اور سکون لوٹ کر نہیں آسکے گا۔ ایک طرف قتل عام کرکے جسموں کو بے جان کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف ریپ کے ذریعے عورتوں اور بچوں کو پُرسکون روحوں سے محروم کیا جارہا ہے۔
شام ہو یا یمن ! مذہب کے نام پر سیاست کا بازار گرم ہے، فِرقوں کی تقسیم نے الاؤ دہکا رکھے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ مظلوموں کا نسب کیا ہے، ان کا مذہب کون سا ہے، وہ کس فرقے اور امام کی تقلید کرتے ہیں، ان کی کتاب اور کلمہ کیا ہے، مجھے تو بس یہ پتا ہے کہ ان کی جانیں کعبے سے زیادہ محترم ہیں، مسجد کے میناروں سے زیادہ اہم عورتوں کی حرمت ہے۔ اس ظلم کی پشت پناہی کرنے والے اپنے ہوں یا پرائے، منکر، مشرک ہوں یا کلمہ گو ان کے خلاف اٹھنا پڑے گا۔ ظالموں کے ہاتھوں کو روکنا پڑے گا۔ اسی میں انسانیت کی بقا اور فلاح ہے۔
(میرے گذشتہ کالم میں دو جگہ غلطی ہوگئی ہے جس پر قارئین سے معذرت خواہ ہوں۔ امریکی پشت پناہی کے حوالے سے جو جملہ لکھا ہے وہاں ''جنوبی کوریا '' ہوگیا، جب کہ یہ شمالی کوریا ہے۔ پنگ پانگ ڈپلومیسی کے تذکرے میں سن 1917ہوگیا، جو 1971 ہے)