عدل وانصاف کی خاطر
مسئلہ ملک میں رائج نظام عدل میں پائی جانے والی خامیوں کا ہے۔
سینیٹ کے انتخابات کے بعد چیئرمین اور وائس چیئرمین کا انتخاب بھی مکمل ہوا ۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ حاصل گفتگو یہ ٹہرا کہ بالادست طبقات پارلیمان سے بھی بالادست ہیں۔ نادیدہ قوتوں کی سیاست اور سیاسی عمل میں مداخلت کوئی نئی بات نہیں ۔ روز اول سے جاری اس کھیل کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جس کو جب اور جہاں موقع ملا، اس نے جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کی کمر میں چھرا گھونپا ہے، چونکہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں ، اس لیے شکوہ و شکایت بے معنی ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ حکمران اشرافیہ میں نہ اہلیت ہے اور نہ وژن کہ نظم حکمرانی میں پائی جانے والی خرابیوں کے ازالے کی کوشش کرسکے۔ یوں ہر الیکشن، خواہ عام ہوکہ بلدیاتی یا پھر سینیٹ کا گزشتہ41 برس سے منڈیِ مویشیاں بنے ہوئے ہیں۔ اس لیے اس معاملے پر نوحہ گری کو نظر انداز کرتے ہوئے،ایک ایسے حساس مسئلے کی طرف آتے ہیں، جو پہلے سے زد پذیر (Fragile)ملک کو مزید زد پذیری (Vulnerability) کی طرف دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے۔
سب سے پہلے ایک وضاحت ضروری ہے، یعنی یہ سمجھنا لازم ہے کہ کسی عدالتی فیصلے یا کسی فاضل جج کے رویے کے بارے میں اظہار رائے یا تنقیدی نقطہ نظر کسی طور پر توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا ۔ اس لیے کسی حساس معاملے پر دیے گئے کسی کمزور فیصلے پر خاموشی یا تنقید سے گریز یا تو قانون اور عدالتی نظام کے بارے میں آگہی کی کمی ہوتی ہے یا پھر تاریخی حقائق سے عدم واقفیت ۔ ویسے بھی جب ایک مولوی کی جانب سے عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب کے بارے میں گفتگو پر توہین عدالت کا اطلاق نہیں ہوتا ، تو پھر ملک کے وسیع تر مفاد میں آئین و قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے کسی جج کے فیصلے اور شہریوںکے مختلف طبقات کے بارے میں ان کے رویے سے اختلاف کو بھی توہین عدالت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
ایک ایسے وقت میں جب وطن عزیزعالمی سطح پر مختلف نوعیت کے الزامات کی زد میں ہو، یہ بات تشویشناک ہے کہ ملک میں منصفی کے اعلیٰ اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن منصفین کی جانب سے ایسے ریمارکس بیانات اور احکامات سامنے آئیں، جن پر اصولاً کھل کر بات ہونی چاہیے تاکہ خرد افروزی کو فروغ ملے اور کچھ نئی اوراچھی باتیں بھی سامنے آ سکیں۔ چند ماہ قبل کہا گیا تھا کہ برٹش انڈیا میں دو قومیں آباد تھیں، ایک مسلمان اور دوسری کا نام لینا گوارا نہیں کیا گیا۔
اب چند روز قبل ایک فیصلہ سامنے آیا ہے کہ ہر سرکاری عہدیدار اور اہلکارکو اپنے عقیدے کے بارے میں حلف نامہ جمع کرنا ہوگا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسے احکامات آئین کی انسانی حقوق کی شقوں سے متصادم تو نہیں؟ بانی پاکستان کی جانب سے دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں دیے گئے اس پالیسی بیان کو کیسے دیکھا جائے' جس میں کہا گیاتھا کہ"In the state of Pakistan Muslims would cease to be Muslims and Hindus would cease to be Hindus, not in terms of religion but as a citizen of Pakistan. You are free to go to your masques, churches, temples or anyother place of worship".
مجھے کہنے دیجیے کہ اس قسم کے فیصلوں سے مزید ابہام اور پیچیدگی پیدا ہو گی۔ پاکستان جس پر پہلے ہی مذہبی شدت پسندی کی سرپرستی کے ان گنت الزامات ہیں ، ایسے فیصلوں کے نتیجے میں عالمی سطح پر مزید الجھنوں کا شکار ہوسکتا ہے۔
بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں نظام عدل روز اول ہی سے مختلف نوعیت کی مصلحتوں کا شکار اور غیر جمہوری قوتوں کی خواہشات کے زیر اثر رہا ہے۔ عدالتیں عوام کو عدل وانصاف مہیا کرنے اور ریلیف دینے کے بجائے غیر جمہوری حکومتوں اور ان کے عوام دشمن اقدامات کوتحفظ فراہم کرنے کا سبب بنی رہی ہیں۔ جسٹس منیر نے ملک غلام محمد کے آمرانہ اقدامات کو جواز فراہم کرنے کے لیے جو ''نظریہ ضرورت'' تخلیق کیا، وہ بعد میں آنے والے ہر طالع آزما کے لیے نسخہ اکسیر ثابت ہوا، یہ سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں آج بھی جاری ہے۔
جسٹس حمود الرحمان، جسٹس دراب پٹیل، جسٹس ایم آرکیانی، جسٹس صفدر شاہ، جسٹس حلیم ، جسٹس ناصر اسلم زاہد سمیت ایسے کئی منصفین عہدہ قضا پر فائز رہے ہیں، جنہوں نے اپنے عقائد، نظریات اور نسلی و لسانی وابستگی سے بالاتر ہو کراس طرح حق منصفی ادا کیا کہ آج بھی عوام و خواص میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ مسئلہ ججوں کی ذاتی قابلیت یا ان کی قانون کے بارے میں بصیرت کا نہیں ، بلکہ ملک میں رائج نظام عدل میں پائی جانے والی خامیوں کا ہے۔ اس نظام کو درست کرنے پر دانستہ توجہ نہیں دی جارہی، کیونکہ نظام عدل کی درستی اور عوام دوست ہونا، ان حلقوں کے حق میں نہیں، جو اقتدار و اختیار پر سانپ کی مانند کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے آئین کی مختلف شقیں شہریوں کے حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہیں۔ خاص طور پر آئین کی شق 3کہتی ہے کہ "The State shall ensure the elimination of all forms of exploitation and the gradual fulfillment of the fundamental principle, from each according to his ability to each according to his work"۔اسی طرح شق 8سے 27تک ہر شق شہریوں کے مختلف حقوق کے بارے میں آگہی دیتی ہے ، اگر ان شقوں کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کی جائے اور شہریت کے اصولوں کا درست ادراک کرلیا جائے، تو متنازع ، سطحی اور غیر ذمے دارانہ قسم کے احکامات جاری نہ ہوں ۔ پاکستان ریاستی اداروں کے غیر ذمے دارانہ اقدامات کی وجہ سے مذہبی شدت پسندی کی دلدل میں دھنس چکا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ملک کو اس دلدل سے نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آنے والی پارلیمان خود کوAssert کرتے ہوئے انتظامی اور عدالتی نظام میں اصلاحات لانے کی کوشش کرے ۔ اس مقصد کے لیے سب سے پہلے آئین کی ایک دوسرے سے متصادم شقوں کر ختم یا ان میں مناسب ترامیم کی جائیں ۔ اس کے بعد ترجیحی بنیادوں پر عدالتی نظام کو بہتر بنانا ہوگا، خاص طور پر ججوں کے انتخاب کے حالیہ طریقہ کار پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔