صحرا کی پیاس

یہ حقیقت ہے کہ سیاست کے کٹھن راستے بعض اوقات پورے گھرکو ذہنی طور پر منتشر کردیتے ہیں۔


Shabnam Gul March 15, 2018
[email protected]

میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر دکھ نہ ہوتے تو شاید انسان اس قدر مضبوط نہ ہوتا، مگر یہ بات سمجھ میں نہ آسکی کہ دکھ، انسان کا انتخاب کرتے ہیں یا وہ خود کٹھن راستے کو چنتا ہے۔ دکھوں سے محبت کرنے والے ایک ایسے شخص کی کہانی میں جدائیوں، قید و بند کی صعوبتوں اور صحرا کی پیاس کے علاوہ لازوال عوامی محبتوں کے سلسلے بھی ملتے ہیں۔

اس دن جب جام ساقی کی موت کی اطلاع ملی تو دل بے یقینی کے بھنور میں ڈوبنے لگا۔ شام کو ایک پروگرام کی کمپیئرنگ کرنی تھی۔ ان سے معذرت کی اور جام ساقی کے گھر کی طرف قدم اٹھنے لگے۔

وہ شاہ لطیف کے ُسر کھاہوڑی کا ایک انوکھا کردار ہے۔ ایک ایسا جوگی جس نے اپنے لیے نہ ختم ہونے والے مشکل راستے پسند کیے۔ یہ بلند حوصلہ و مستقل مزاج جوگی ہیں۔ جوکانٹوں پر چلنے کے عادی ہوتے ہیں۔ دھوپ کا سفر ان کے حوصلوں کو جلا بخشتا ہے۔ بقول شاہ لطیف کے:

جانتے ہیں وہ منتہائے طلب' زحمت انتظار سے واقف

ہر سحر ہے انھیں پیام سفر' سختی کوہسار سے واقف

میری ان سے ملاقات ادبی پروگرامز میں ہوا کرتی۔ میں جب بھی کسی پروگرام کی کمپیئرنگ کر رہی ہوتی تو وہ سامنے بیٹھے نظر آتے۔ ادب دوست، ادب نواز اورکتاب سے محبت کرنے والے۔ اپنی سیاسی مصروفیات سے وقت نکال کر ادبی پروگرامز میں شرکت کیا کرتے۔گھر میں داخل ہوتے ہی دل دکھ سے بوجھل تھا۔ لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا گھر تھا مگر اداسی میں لپٹا خالی لگا۔گھر کا بھی دل ہوتا ہے جس میں وہ مکین بستا ہے جو اس کا مالک ہوتا ہے۔ چیزوں کی اہمیت تعلق کی روشنی سے قائم رہتی ہے۔ روشنی روٹھ جائے تو پیچھے گھر میں یادوں کے دھندلکے باقی رہ جاتے ہیں۔ ان کی بیٹی بختاورجام گھر والے اور دوست واحباب بے حد غمزدہ تھے۔

بختاور ایک حساس فرد کی طرح والد کے دکھوں میں برابرکی شریک رہی۔ اس کی ذات میں ان تکالیف کا اثر موجود ہے، جس اس نے مثبت رخ دیا ہے۔ بختاورکہنے لگی ''چھوٹی تھی تو والدہ جدا ہوگئیں اور اب بابا بھی ساتھ چھوڑگئے۔'' یہ حقیقت ہے کہ بیٹی کا باپ سے ایک روحانی رشتہ ہوتا ہے۔ ماں اگر دھرتی جیسی ہے تو باپ آسمان۔ دھرتی کے سکھ اور شادابی آسمان کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ہر کامیاب بیٹی کی زندگی کے پیچھے شفیق والد کا سہارا دکھائی دیتا ہے۔ بیٹی کی سمجھ اور خود اعتمادی میں والد برابرکا حصے دار ہوتا ہے۔ بختاور اور سجاد کے دکھ بچپن کے ان تاریک دنوں سے جڑے ہیں جو ان کی بچپن کی خوشیوں کو نگل گئے۔ 10 دسمبر 1978ء کے دوران جام ساقی گرفتار ہوئے تھے۔ یہ ضیا الحق کے مارشل لا کا دور تھا۔ جام ساقی کی گمشدگی ان کے خاندان کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوئی۔ کسی اخبار میں جام ساقی کی موت کی خبر شایع ہوئی۔ یہ دن ان کی اہلیہ سکھاں کے لیے بڑے کٹھن تھے۔

''یہ دکھ ماں سے برداشت نہ ہوا۔ ماں نے خودکشی کر ڈالی۔ یہ بہت بڑا المیہ تھا بابا اور ہماری زندگی کا۔ میری عمر تین سال اور بھائی پانچ سال کا تھا ۔''

یہ حقیقت ہے کہ سیاست کے کٹھن راستے بعض اوقات پورے گھرکو ذہنی طور پر منتشر کردیتے ہیں۔ جام ساقی کی زندگی کے طویل دن جیل میں گزرے۔ اسی دوران بد ترین سلوک و تشدد بھی اس کے جذبے اور سیاسی عزائم میں کمی نہ کرسکے۔ 1980ء کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے کارکنان نذیر عباسی، پروفیسر جمال نقوی، احمد کمال، سہیل سانگی، شبیر شر، امرلال اور بدر ابڑو بھی گرفتار ہوگئے۔ ان کے خلاف ملٹری ٹریبونل میں کیس چلایا گیا۔ ماسوائے نذیر عباسی کے جنھیں شہید کردیا گیا۔ اسی دوران جام ساقی کی شہادت کی خبریں گردش کرنے لگیں۔

''یہ خبر سن کر امی نے ہمیں دادا کے پاس چھوڑا اور خودکشی کرلی۔ یہ ہماری زندگی کا ایسا دکھ ہے جس کی کسک آج بھی زہر بن کر رگوں میں دوڑتی ہے۔'' ماضی کی تلخ یادوں سے ماحول بوجھل ہوچلا تھا۔ تعزیت کے لیے آنے والوں کا سلسلہ جاری تھا۔ جام ساقی کی دوسری اہلیہ ایک کونے میں غم سے نڈھال تھیں۔ پہلی بیوی سکھاں کی المناک موت کے بعد انھوں نے دوسری شادی کی۔ جس سے ان کے چار بچے ہیں، مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ سکھاں کو کبھی نہیں بھولے۔ سکھ دینے والی شریک حیات کو بھولنا اتنا آسان نہ تھا۔ زبان سے ایک لفظ بھی نہ کہا مگر سکھاں ان گہری آہوں میں آباد تھی جو اکثر یادوں میں گم وہ لیا کرتے۔

''بابا جیل سے ہمیں خط ضرور لکھتے خط میں مخاطب ہوتے مٹھڑی امڑ (میٹھی ماں) پیاری بختاور اور سجاد۔ خط میں ایک لطیفہ ضرور لکھتے۔'' یہ خط ان کی جدائی کی تاریکی میں انھیں روشن کرنے کی طرح لگتا ہے۔

بابا آٹھ اکتوبر 1987ء کو جیل سے رہا ہوکر واپس آئے اہلیہ کی موت کی خبر انھیں جیل میں مل گئی تھی۔

جام ساقی کی زندگی مشکل تھی۔ جیل کی صعوبتوں نے انھیں بیمار کر ڈالا۔ عمر کا بڑا حصہ بیماریوں سے نبرد آزما رہے، مگر کبھی مایوس نہیں ہوئے۔ دھرتی کے عاشق کبھی مایوس نہیں ہوتے۔ سادگی اور محبت کا قرینہ بھی وہ زمین سے مستعار لیتے ہیں۔ وہ نام کی طرح بلند مرتبہ انسان تھا جام سندھی میں بلند مرتبے کو کہتے ہیں جب کہ ساقی ان کی شاعری کا تخلص تھا۔ جام ساقی صحرا کی پیاس سے سیراب ہونے کا سلیقہ رکھتے تھے۔

جہاں نظریے فروغ پاتے ہیں، وہاں زوال پذیر بھی ہوجاتے ہیں۔ سوویت یونین کے عروج سے زوال تک اس تحریک کے منفی و مثبت اثرات دنیائے سیاست پر اثر انداز ہوتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ جام ساقی نے کمیونسٹ پارٹی سے ناتا توڑکر پیپلز پارٹی اور ٹرائیکائیت پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔

جام ساقی تھر کے قصبے جھنجھی میں پیدا ہوئے جو تھرپارکر میں واقع ہے۔ ان کے والد محمد سچ استاد اور سماجی ورکر تھے۔ تھر کی فضاؤں میں ایک عجیب سی کشش پائی جاتی ہے۔ تھر کے مکینوں کا سادہ رہن سہن اور نرم لہجے ان کی شناخت بنتے ہیں۔ مزاج میں دھیما پن، ملاحت اور محبت کی چاشنی انھیں منفرد حسن عطا کرتی ہے۔

''بابا محبت کرنے والے انسان تھے، کبھی شکایت نہیں کی کسی کی۔ نہ لوگوں سے ان کی توقعات تھیں۔ پیسے، رتبے، عہدوں اور مراعات سے قطعی دلچسپی نہ تھی۔ سادہ منش انسان تھے،کبھی مایوسی کی باتیں نہیں سنیں ان سے۔ سندھ کے حالات اور مستقبل سے مایوس نہیں پایا انھیں۔ فقط اپنے کام اور جہد مسلسل میں مصروف دیکھا۔ فقط پسماندہ طبقوں کی فکر تھی انھیں۔''

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی سیاست کے مشکل ترین دنوں کی جدوجہد میں جام ساقی دوسرے رہنماؤں کے ساتھ کھڑے رہے۔ جمہوریت کی بحالی میں جن کے خون کے قطرے شامل ہیں۔ یہ ایک طویل جدوجہد تھی۔

بختاور کو اپنے والد کے خمیر میں ماروی کے گاؤں، ملیرکی مٹی مہکتی دکھائی دیتی ہے۔ماروی جو تھر کی زمین سے عشق کی ایک لازوال داستان ہے۔ اپنے والد کے لیے لکھے ہوئے مضمون میں لکھتی ہے۔ ''ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے کارونجھر پہاڑ زمین بوس ہوگیا ہو۔ میرے سر پر لہلہاتا سرسبز گھنا درخت چھن گیا ہو۔ میرے ماتھے پر بوسہ دینے والا میرا مٹھڑا بابا دور چلا گیا ہے۔ وہ جس نے سالوں سے ظلم اور جبرکے خلاف جنگ لڑی،کسی جنرل،کرنل سے خوفزدہ نہ ہوا۔ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اور مشرف کی آمریت کے سامنے نہ جھکا۔ آج موت کے سامنے کیونکر ہتھیار پھینک دیے؟''

یہ سچ ہے کہ بختاور نے چھوٹی عمر میں والد کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے پایا۔ وہ اکثر والد سے ضد کرتی گھر چلنے کے لیے تو وہ کہتے ہنس کر جب زیاد خود ضیا الحق چھٹی دے گا تو گاؤں واپس آؤں گا۔''

پھر وہ لمحہ آیا جب جام ساقی کے جسد خاکی کو لے جانے لگے۔ کس قدر مشکل مرحلہ ہوتا ہے یہ۔ بختاور کانپ رہی تھی مگر اس کے بے دم وجود سے نعرہ بلند ہوا۔

تیرا ساقی میرا ساقی

جام ساقی جام ساقی

اس کے بعد گلی سے یہ نعرے سنائی دیے۔ یہ آوازیں دھیرے دھیرے دور ہوتی رہیں۔ پیچھے گھر میں دکھ کی طاقت سانس لینے لگی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں