چاچا علی جان کی یاد میں
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد وہ بھی لاکھوں مزدوروں کی طرح پاکستان آگئے اور کراچی میں آباد ہوئے۔
ISLAMABAD:
برصغیر ہندوستان میں بیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے اقتدارکو توسیع دینے کے لیے بنیادی اصلاحات نافذ کیں۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ہندوستان ریلوے کے نظام سے منسلک ہوا۔ بجلی کی پیداوار شروع ہوگئی، یوں جدید صنعتوں کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا۔ کسانوں نے زراعت کا پیشہ چھوڑکر صنعتوں میں ملازمتیں کیں اور مزدور طبقہ مستحکم ہوا۔
بمبئی ،کلکتہ ، دہلی، احمد آباد ، وغیرہ صنعتی شہر بن گئے ۔ میرٹھ ، لاہور،کانپور،آگرہ سمیت دیگر شہروں میں چھوٹی صنعتیں قائم ہوئیں ۔ مزدور طبقے کے حالات کار کو بہتر بنانے کے لیے اجتماعی شعور پیدا ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی کے قیام کے ساتھ ٹریڈ یونین تحریک ارتقاء پذیر ہوئی۔
عوامی تحریکوں پر تحقیق کرنے والے دانشور اسلم خواجہ اپنی کتاب "People's Movement in Pakistan" میں لکھتے ہیں کہ ہندوستان میں پہلی دفعہ 9 مئی 1891ء کو لاہور کے ریلوے ورکشاپ کے مزدوروں نے اپنی تنخواہوں میں اضافے کے لیے ہڑتال کا حق استعمال کیا ۔ہندوستان کی مزدور تحریک نے حالات کارکی لڑائی کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا ۔ چاچا علی جان کا تعلق اڑیسہ سے تھا۔ وہ نوجوانی میں ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک ہوئے اور احمد آباد کی مزدور تحریک میں کام کرنے لگے۔
ہندوستان کے بٹوارے کے بعد وہ بھی لاکھوں مزدوروں کی طرح پاکستان آگئے اور کراچی میں آباد ہوئے۔ کراچی کا صنعتی علاقہ سندھ انڈسٹریل ایریا 50ء کی دہائی میں ترقی پذیر ہوا ۔کوریا کی جنگ کی بناء پر ٹیکسٹائل کی صنعت کو فروغ حاصل ہوا اورکراچی سب سے بڑا صنعتی مرکز بن گیا ۔
یو پی ، سی پی ، حیدرآباد، بہار اور بنگال سے مزدوروں کی ایک بڑی تعداد کراچی میں آباد ہوئی اور کراچی کے صنعتی علاقوں میں اردو زبان بولنے والے مزدوروں کی اکثریت ہوگئی۔ صوبہ سرحد سے پٹھان مزدورکراچی آنے لگا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت اورکراچی پورٹ ٹرسٹ میں ملازمت اختیارکی۔
پاکستان اگرچہ ووٹ کے ذریعے وجود میں آیا ، ملک کے بانی محمد علی جناح نے ہمیشہ مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کی اور برصغیرکے مزدوروں کے حالات کارکو بہتر بنانے کے لیے پہلا قانون انڈین لیجسلیٹوکونسل منظورکرانے کا اعزاز جناح کو حاصل ہوا مگر قیام پاکستان کے بعد سے ہی صنعتکاروں نے مزدوروں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرنے سے گریزکیا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے صنعت کاروں کی سرپرستی کی۔ امریکا کی ایماء پر 1950ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی عائدکی گئی۔
اس کے ساتھ ہی کمیونسٹ پارٹی سے منسلک پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن (P.T.U.F) پر پابندی عائد کردی گئی ۔ مزدور رہنماؤں کوکمیونسٹ قرار دے کر سیفٹی ایکٹ کے تحت جیلوں میں بندکیا جانے لگا۔ مرزا ابراہیم، لعل خان، اسلم اعوان، فضل الہیٰ چوہان اورشرف علی وغیرہ جیل بھیج دیے گئے۔ مزدور تحریک کے بانیوں میں سے ایک فیض احمد فیض راولپنڈی سازش کیس میں ملوث کرکے لاہور کے شاہی قلعہ میں پابند سلاسل کردیے گئے۔
اس صورتحال میں چاچا علی نے سائٹ میں مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا۔ اس زمانے میں ایس پی لودھی، نبی احمد ، نایاب نقوی اور واحد بشیر وغیرہ کراچی میں مزدور تحریک کو منظم کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا۔ سیاسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مزدور یونین سرگرمیوں پر پابندی لگادی گئی۔ جنرل ایوب خان نے دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی منتقل کیا۔ بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے رہنماؤں نے ایوب خان کی اصلاحات کے خلاف مزاحمتی تحریک شروع کردی تھی۔ اس صورتحال کے منطقی نتیجے میں کراچی کی فضاء ایوب خان حکومت کے خلاف تبدیل ہوئی۔
کمیونسٹ پارٹی کے ایک سابق کارکن اعز عزیزی نے اپنی کتاب ''رفیقان صدق و صفاء'' میں لکھا ہے کہ چاچا علی جان منگھو پیرکی ایک مزدور بستی میں رہائش پذیر تھے۔ موٹے اور پستہ قد اورگول چہرے کے مالک تھے۔ چاچا علی جان پڑھے لکھے بالکل نہیں تھے لیکن ایک با علم آدمی کی طرح مزدوروں کے مسائل اورملک کی عمومی سیاست کا ادراک رکھتے تھے۔ مزدور ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ علی جان ٹیکسٹائل ملز میں ملازمت کرتے تھے تو دن بھر مختلف کارخانوں کا چکر لگاتے تھے، ہر یونین اور ہر مزدورکی خبررکھتے تھے ۔ انھوں نے باشعور مزدوروں کا ایک حلقہ بنا رکھا تھا ۔ چاچا علی جان پاکستان کمیونسٹ پارٹی کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے تھے۔
کمیونسٹ پارٹی کے رکن حسن ناصر سے قریبی رابطہ رکھتے تھے۔ چاچا علی جان نے 60ء کی دہائی سے سائٹ کے علاقے میں ٹیکسٹائل ملوں کے مزدوروں کو منظم کرنا شروع کیا تھا ۔ ان کا تعلق اگرچہ اردو بولنے والی برادری سے تھا مگر وہ پٹھان مزدوروں میں بھی یکساں مقبول تھے۔ ان دنوں میں مزدوروں کی اجرتوں کا معاملہ بڑا گھمبیر تھا۔ پہلی تاریخ کو تنخواہوں کی ادائیگی کی روایت نہیں تھی۔ مزدوروں کے اوقات کارکا تعین نہیں تھا اور ٹائم گریجویٹی اور میڈیکل کی سہولتوں کا ذکر صرف مزدور تنظیموں کے لٹریچر میں ملتا تھا۔ پھر مزدوروں کی برطرفیاں اور لے آف عام سی بات تھی۔ ایوب حکومت کی انتظامیہ مزدوروں کے حقوق کو تسلیم نہیں کرتی تھی۔
پولیس اور لیبر ڈپارٹمنٹ سرمایہ داروں کے تحفظ کی تدبیروں پر عملدرآمد کرتا تھا۔ ایک مزدور کارکن ارسلا خان ایک پمفلٹ میں لکھتے ہیں کہ چاچا علی جان کی کوششوں سے مزدور اپنے حقوق کے لیے اجتماعی جدوجہد پر متفق ہوئے۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا کہ اجرتوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے۔ ارسلا خان لکھتے ہیں کہ ٹیکسٹائل ملزکے مزدور ڈیوٹی کے بعد گیٹ میٹنگ کرتے تھے تو اس جرم کی پاداش میں ملزکی انتظامیہ کچھ مزدوروں کو چارج شیٹ دیتی۔ پھر جب مزدوروں نے قانون کے مطابق چارج شیٹ میں لگائے گئے الزامات کا جواب دیا تو انھیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا۔
چاچا علی جان کی کوششوں سے مزدور اپنے برطرف ساتھیوں سے یکجہتی کے لیے یکم مارچ 1963ء کو چورنگی پر جمع ہوئے، مزدوروں نے جلوس نکالے اور گورنر ہاؤس جا کر چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ مزدوروں کا ایک بنیادی مطالبہ تھا کہ تنخواہ میں ایک روپے کا اضافہ کیا جائے۔ مزدوروں اور ان کے اہلخانہ کی طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے سوشل سیکیورٹی کے اسپتال قائم کیے جائیں۔
جب مزدوروں کا جلوس مختلف ٹیکسٹائل ملز سے گزرتا ہوا پاک کالونی کے مرکز ی علاقہ بڑا بورڈ پہنچنے والا تھا کہ پولیس نے آنسوگیس کے ساتھ براہِ راست گولیاں برسانا شروع کر دیں، یوں 8 مزدور شہید ہوئے۔ مرنے والے بیشتر مزدوروں کا تعلق لالوکھیت، پاک کالونی اور اطراف کی بستیوں سے تھا۔ مزدوروں نے پولیس فائرنگ کے خلاف سارے صنعتی علاقے میں ہڑتال شروع کردی۔ یہ ہڑتال 8 دن تک جاری رہی۔ پولیس نے چاچا علی جان سمیت ان کے 12 ساتھیوں کو گرفتار کرلیا مگر حکومت کو مزدوروں کی طاقت کے سامنے جھکنا پڑا اور مزدوورں کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ تسلیم کرلیا گیا۔ یوں ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوورں کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا ۔
معمر مزدور رہنما عثمان بلوچ مارچ 1963ء کی اس تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت اردو بولنے والے مزدور سائٹ اور لانڈھی کے صنعتی علاقوں میں اکثریت میں تھے۔ یہ مزدور یوپی، بہار، بنگال اور حیدرآباد دکن کے مختلف شہروں سے ہجرت کرکے آئے تھے اور ان میں سے کئی متحدہ ہندوستان میں مزدور تحریک سے منسلک تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اردو بولنے والے مزدوروں کی مزدور تحریک میں شرکت کی بناء پر کراچی فضاء سیکیولر اور جمہوری تھی۔
عثمان بلوچ کا کہنا ہے کہ ایوب خان کی حکومت نے ایک حکمت عملی کے تحت پولیس ایکشن میں خصوصی طور پر اردو بولنے والے مزدوروں کو نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا ہے کہ پولیس کی شیلنگ اور فائرنگ سے بچنے کے لیے مزدور بستیوں کی گلیوں میں جمع ہوئے جہاں پولیس والوں نے ان گلیوں میں اندھادھند فائرنگ کی۔ حکومت کی حکمت عملی تھی کہ اس تحریک کو تقسیم کرنے کے لیے پٹھان مہاجر تضاد کو ابھارا جائے مگر چاچا علی جان کی کوششوں سے حکومت کی یہ حربہ ناکام ہوا۔
مزدور لسانی بنیادوں پر نہیں بٹے مگر انتظامیہ نے اردو بولنے والے مزدوروں کے لیے ملز میں ملازمتوں کے دروازے بند کردیے۔ معمر مزدور رہنما شاہ نور اس وقت کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پھر اردو بولنے والے مزدوروں نے اپنے رہائشی علاقوں میں چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائے جس سے مزدور تحریک کی قوت میں ہی کمزور نہیں ہوئی بلکہ کراچی شہر پر مذہبی انتہا پسندوں کا غلبہ بڑھ گیا۔
چاچا علی جان نے ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے سیکریٹری جنرل محمود الحق عثمانی اور نواز بٹ کی عرضداشتوں پر سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر علی خان ضمانت پر رہا ہوئے مگر اس مزدور تحریک کے نتیجے میں عثمان بلوچ، شاہ نور ، بلور خان، کرامت علی، شفیع قریشی اور کنیز فاطمہ جیسی قیادت ابھر کر سامنے آئی ۔ چاچا علی جان نے ایک لڑکی کو اپنی منہ بولی بیٹی بنایا تھا جس کو وہ اپنا چھوٹا سا مکان دے گئے۔
چاچا علی جان کا انتقال ہوا تو مسجد کے مولوی نے ان کا نماز جنازہ پڑھانے سے انکارکیا مگر ایک باریش مزدور نے منگھو پیر روڈ پر ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ چاچا علی جان اور ان کے ساتھیوں کی کوششوں کی بناء پرسے جنرل یحییٰ خان کے دور میں ایئر مارشل نور خان نے لیبر پالیسی تیار کی۔ بھٹو دور میں مزدوروں کے لیے لیبر قانون سازی ہوئی۔ وہ بڑھاپے میں کمزور اورکئی بیماریوں کا شکار ہوئے مگر ان کے عزائم توانا تھے ۔ وہ مرتے دم تک اپنے آدرش کے اسیر رہے اور استحصال سے پاک معاشرہ چاچا علی جان کا خواب تھا ۔