عمران بلاول مریم اور مرتی ہوئی روشنی
رکاوٹوں کے باوجود مریم اپنے والد کے جانشین کے طور پردھیرے دھیرے ابھر رہی ہیں۔
سڑکیں سنسان تھیں۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ چائے خانے سمٹ چکے تھے اور پیٹرول پمپس کی روشنیوں تلے ٹھہراؤ اور تھکن در آئی تھی۔ مزار قائد کے نزدیک سے گزرتے ہوئے، جو ہمیشہ کی طرح مصنوعی روشنی میں ڈوبا تھا، یہ احساس مجھ پر غالب تھا کہ یہ شہر سیاسی طور پر بے وقعت ہو چکا ہے۔
یہ اُس رات کا ذکر ہے، جب سینیٹ انتخابات نے ملک میں سنسنی پھیلا دی تھی۔ میاں صاحب کو پہلی بڑی شکست ہوئی۔ ایک حقیقی شکست، جسے سہنا مشکل تھا۔ حاصل بزنجو کے گریہ سے حکومتی آہ و بکا کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا، جس میں جلد میاں صاحب بھی، کسی اپوزیشن لیڈر کے ڈھب پر، اپنا حصہ ڈالنے والے تھے۔ بلوچستان، سندھ اور خیبرپختون خوا میں جشن تھا، یا شاید جشن کا التباس تھا، مگر اس رات۔۔ فٹ پاتھ کے تاریک گوشے میں کھڑے اس مشکوک شخص پر اچٹتی سے نگاہ ڈال کر آگے بڑھتے ہوئے، سڑک پر موجود گڑھوں سے بچتے ہوئے یہ احساس مجھ پر غالب تھا کہ''مقامی جمہوریت'' کے اِس اہم ترین واقعے، بلوچستان کے پہلے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے معاملے اور اپوزیشن کے گٹھ جوڑ سے جنم لیتی جیت میں۔۔۔ کراچی کہیں نہیں تھا۔
یہ شہر اپنے دل کی گہرائیوں سے اس بات سے باخبر ہے کہ وہ بے معنی ہو گیا ہے۔ اس کی سڑکیں دھول سے اٹی ہیں، ڈھانچا ڈھے رہا ہے، اس کے سیاسی نمایندے انتشار کا شکار ہیں اور اس کے شہریوں پراکتاہٹ اتر آئی ہے۔ بہتری کی امید اب ماند پڑ چکی۔ وہ چراغ نہیں رہے، جن کے جلنے سے روشنی ہو گی۔
معاشی شہ رگ، روشنیوں کا شہر، خطے کے ماتھے کا جھومر، 70 فی صد ریونیو دینے والا شہر۔۔۔ یہ خاک ہوا، ماضی کا قصہ ہوا۔ اب یہ شہر ایک مرتے ہوئی بوڑھی عورت کے مانند ہے، جو اپنی جوانی کو یاد کرکے گریہ کرتی ہے۔
یہ بحث طویل کہ کراچی کا مسئلہ کیا ہے؟ جو ایک کالم نہیں، پورے دفتر کی متقاضی ہے۔ البتہ اپنی اساس میں یہ ریاستی غفلت، بدنیتی، بدنظمی اور مفادات کی کہانی ہے۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں، ریاستی اسٹیک ہولڈرز ہوں یا غیرریاستی اسٹیک ہولڈرز، سب نے کراچی سے فقط مفادکا رشتہ رکھا۔ کسی نے پروا نہیں کہ یہ بدنصیب شہر مسلسل، بے ہنگم انداز میں پھیلتا جا رہا ہے۔ بنا کسی منصوبے کے ،بغیر کسی ریکارڈ کے اس کے چہرے پر بدنما عمارتیں کھڑی ہو رہی ہیں اورآبادی کا بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک کی آبادی اِس بد بخت شہر سے کم ہے۔ اس کا المیہ تو تب ہی شرو ع ہوگیا تھا کہ جب قائد اعظم کی بصیرت اور فیصلے کے خلاف جاتے ہوئے قسمت کے فیصلہ سازوں نے دارالحکومت یہاں سے منتقل کر دیا۔ جب ون یونٹ ختم ہوا، تو لیفٹ کے طلبا، مزدور جماعتیں اور پیپلزپارٹی اس کی سیاسی نمایندگی کرتی تھیں، مگر اس طبقے پر برا وقت آنے والا تھا۔
وعدہ خلافی کا عہد، ضیا الحق کا عہد شروع ہونے کو تھا۔کراچی میں لسانیات کے بیچ سازگار ماحول پا کر زہریلے درختوں کی شکل اختیار کر گئے تھے، جو آنے والے کئی عشروں تک یہاں کے باسیوں کا خون پینے والے تھے۔ جلداِس شہر کو اسٹیبلشمنٹ کے ناقابل فہم فیصلے، ایم کیو ایم اور پی پی پی کی مفاد پرستی، جماعت اسلامی اور اے این پی کی محدود سوچ ناقابل تلافی نقصان پہنچانے والے تھے۔
تو سینیٹ کے سنسنی خیز انتخابات میں، ایم کیو ایم کی جانب سے صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کے باوجود، کراچی بے وقعت تھا اور یہ بے وقعتی اس کے امراض کی طرح، اس کی مسلسل موت کی طرح، شناخت کے بحران کی طرح قائم رہے گی، تاآنکہ یہ وفاقی سیاست کے مرکزی دھارے میں نہ آ جائے، تاآنکہ یہ شہری، بلکہ کہنے دیجیے، لسانی سیاست کے چنگل سے نہ نکل جائے، یہاں پنجابی، پٹھان، مہاجر اور سندھی کی خلیج ختم نہ ہو جائے۔
ایسے میں جب ہم ایم کیو ایم سے لگ بھگ نصف سیٹوں کے حامل مولانا فضل الرحمان کو ایک قومی لیڈرکی مچان پر بیٹھا پر دیکھتے ہیں، توکراچی کے زخم کچھ اور ہرے ہو جاتے ہیں۔ اچھا، کراچی کے مسئلے کا حل ایم کیو ایم کی پوری قوت سے بحالی نہیں کہ یہ بحالی تشدد کی بحالی کے بغیر ممکن نہیں، اس مسئلے کا حل مصطفیٰ کمال کے آنسوؤں میں بھی دستیاب نہیں کہ ان آنسوؤں سے کشیدہ ہوتا بیانیہ مشکوک ہے، اس مسئلے کا حل پیپلزپارٹی کے راہ راست پر آنے میں بھی نہیں کہ یہ کم ازکم پیپلزپارٹی کے معاملے میں یہ ناممکن ہے، سورج کب مغرب سے نکلا ہے۔
البتہ یہ تقاضا کرنے میں کراچی حق بہ جانب ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے مرکزی قائدین، پی ٹی آئی کے عمران خان، پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو، ن لیگ کی مریم نواز ( فضل الرحمان اورسراج الحق کو رہنے دیں) اس شہر سے الیکشن لڑیں۔ یہاں انتخابی مہم چلائیں، لوگوں سے ملیں، مسائل کو سمجھیں، انھیں حل کرنے کا، جھوٹا ہی سہی، ارادہ باندھیں۔
عمران خان کی جانب سے حالیہ دورہ کراچی میں اِدھر سے الیکشن لڑنے کا اعلان خوش آیند ہے۔ جی، یہاں پی ٹی آئی کراچی قیادت کی ناقص کارکردگی کی خان کے لیے جگہ موجود ہے۔یہاں پُرو ایم کیو ایم کے ساتھ اینٹی ایم کیو ایم ووٹ بھی بڑے تعداد میں موجود،گزشتہ انتخابات میںاسی طبقے نے عمران خان کو متبادل کے طور پر دیکھا، تو ووٹوں کی برسات کردی تھی۔
بلاول لیاری سے الیکشن لڑیں گے، ہرکوئی سہولت کا متلاشی ہے۔ ہولوگرام خطبات بھی اسی کا حصہ۔ البتہ بہتر یہ ہے کہ وہ کسی ایسے حلقے کا بھی انتخاب کریں، جو اردو بولنے والے ووٹرز پر مشتمل ہو، پیپلزپارٹی وفاقی جماعت ہونے کی دعوے دار ہے، کراچی میں وفاق جماعت کا ہلکا پھلکا کردار نبھالے، یہی بہتر ہے۔ مریم نواز کی کراچی کی سیاست میں آمد اہمیت اور معنویت کی حامل ہو گی۔ ملک گیر جماعت ہونے کی دعوے دار ن لیگ عملی طور پر پنجاب کی جماعت ہے۔ وہیں سے جیت کر ہنستی مسکراتی وفاق میں حکومت بنا لیتی ہے۔ البتہ اس وقت ن لیگ ایک اندرونی اور بیرونی بحران سے گزر رہی ہے۔
رکاوٹوں کے باوجود مریم اپنے والد کے جانشین کے طور پردھیرے دھیرے ابھر رہی ہیں۔ ایسے میں کراچی کے میدان میں، جہاں خلا یکدم بڑھ گیا ہے، ان کی آمدنہ صرف شہر، بلکہ خود ن لیگ کے لیے بھی خوش بخت ثابت ہو سکتی ہے۔ یوں بھی جب ن لیگی قیادت اُن چھوٹے چھوٹے شہروں میں جوش و خروش سے جلسے کرتی ہے، جہاں قومی اسمبلی کی فقط دو تین سیٹیں موجود، تو ایسے شہر کا رخ کرنے میںعقل مندوں کے لیے نشانیاں ہیں، جہاں 21 سیٹوں پر مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔
یہ شہر متقاضی ہے کہ عمران، بلاول اور مریم نواز یہاں سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑیں۔
اور کچھ نہیں تو انھیں اِس شہر کی مرتی ہوئی روشنیوں ہی کا ادراک ہو جائے گا۔