کیا بیرونی سرمایہ کاری مسائل کا حل ہے
صنعت میں کیا ترقی ہوگی، یہ صورتحال روزگار کے مواقع تیزی سے کم کررہی ہے جس سے سماجی خلفشار بڑھتا جارہا ہے۔
ہماری معیشت کی بنیاد کالے دھن پر ہے، معاشی طور پر ہم کب کے دیوالیہ ہوچکے ہیں لیکن منشیات اور اسلحے کے بیوپار کی بیساکھیوں سے اسے روکے رکھا گیا ہے، اس لیے کہ ایوان میں بیٹھے افراد ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹی میں بہت بڑی چھوٹ حاصل کرسکیں، 2008 سے لے کر 2012 کے آخر تک حکومت 298 ارب روپے سے زیادہ کا انکم ٹیکس اور سیلزٹیکس چہیتے افراد کو معاف کرچکی، اسی طرح اس عرصے کے دوران 420 ارب روپے سے زائد کا کسٹم معاف کیا جاچکا ہے، اہداف میں ناکامی کے بعد ایف بی آر کا ادارہ اب بہت سی ایسی اشیاء پر ٹیکس لگانے کا سوچ رہا ہے جنھیں ٹیکس اور کسٹم سے چھوٹ دے دی گئی یا ان پر عائد ٹیکس بہت کم ہے۔
گزشتہ برسوں میں خصوصاً صدارتی حکم ناموں ایس آر او کے ذریعے تقریباً 84 فیصد ٹیرف اور ڈیوٹی ریٹ میں کمی یا خاتمہ کردیا گیا ہے جس کے پیچھے سرمایہ داروں کے بااثر گروہ کام کر رہے ہیں، اس کے علاوہ ایسے شعبوں کو ٹیکس کی مد میں لانے میں ایک لمبے عرصے سے ناکامی ہوئی ہے جو ٹیکس ادا ہی نہیں کر رہے جس میں زراعت کا شعبہ بھی شامل ہے، اس کی بنیادی وجہ بھی بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کا پالیسی ساز اداروں پر اثر و رسوخ ہے، اس سے اس ریاست کی نحیف حالت کا اندازہ ہوتا ہے جو اپنے اخراجات کے لیے بھی ٹیکس حاصل کرنے میں ناکام ہے، اس کا تمام تر بوجھ عام محنت کشوں پر بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے ڈالا جاتا ہے۔
یہاں سے اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کی ڈھٹائی کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو اپنی تجوریوں میں سے چند سکے بھی اس ریاست کے لیے خرچ نہیں کرنا چاہتے جس ریاست پر وہ حکمرانی کررہے ہیں، ریاستی دولت کا بڑا حصہ غیر ملکی بینکوں میں جمع رکھتے ہیں۔ یہ حکمران طبقہ اپنے اخراجات کی ایک ایک پائی کئی گنا سود کے ساتھ محنت کش طبقے سے حاصل کرتا ہے، اس کے لیے خواہ محنت کش عوام کی کھال بھی کیوں نہ کھینچنی پڑجائے۔ اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ سرمایہ دار طبقے کے ضمیر میں یہ ترقی پسند کردار نہیں،اور سماج کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اس طبقے کو کمزور کیے بغیر کوئی بہتری ممکن نہیں، ٹیکسوں اور لوٹ مار کے یہ وہ اعداد وشمار ہیں جو سرکاری کاغذوں میں موجود ہیں۔
حکومتی ذرایع کے مطابق پاکستان کی دو تہائی معیشت کالے دھن پر مبنی ہے، اس سے دولت مند افراد کی لوٹ مار کا صرف اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حقیقی اعداد و شمار انقلاب سے پہلے کوئی نہیں دے سکے گا، عالمی معاشی بحران اور داخلی معاشی بدحالی کے باعث پاکستان کو غیر ملکی ذرایع سے قرضے حاصل کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے اس لیے گزشتہ عرصے میں آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ملکی بینکوں سے قرضوں کا حصول رہا، اسٹیٹ بینک کی 2012 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملکی بینکوں سے قرضوں کے حصول میں 4.6 فیصد اضافہ ہوا، جب کہ ان بینکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے جانے والے قرضوں میں ایک فیصد سے بھی کم اضافہ ہوا، جو پانچ سال میں کم ترین اضافہ ہے۔
گزشتہ 5 سال میں حکومت کی جانب سے ملکی بینکوں سے قرضوں کے حصول میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے، حکومت کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر قرضے لینے کے باعث نجی شعبے کے لیے قرضے حاصل کرنے میں شدید مشکلات پیش آتی ہیں، پہلے ہی اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں کمی کی جاچکی ہے، دوسری جانب بجلی اور گیس کی بندش سے صرف پنجاب میں 40 فیصد صنعت بند ہوچکی ہے، ایسے میں معیشت میں روزگار کے مواقع میں اضافے کے کوئی امکانات نظر نہیں آتے، سرمایہ دارانہ معیشت میں صنعت کا پہیہ بینکوں کے قرضوں کا مرہون منت ہوتا ہے، لیکن یہاں حکومت کے اپنے اخراجات ہی پورے نہیں ہو پارہے ہیں۔
صنعت میں کیا ترقی ہوگی، یہ صورتحال روزگار کے مواقع تیزی سے کم کررہی ہے، جس سے سماجی خلفشار بڑھتا جارہا ہے، آئی ایم ایف کے اعداد و شمار کے مطابق 2012 میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد کے قریب رہی، معاشی ترقی کے لیے سود خور عالمی مالیاتی اداروں کی جانب سے دیا جانے والا نسخہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہے، اس مقصد کے لیے پاکستان میں دو دہائیوں سے بھی زائد اوقات میں نجکاری جیسی ظالمانہ پالیسی کو لاگو کیا جارہا ہے، اس پالیسی سے عوام کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے جہاں بنیادی ضروریات عوام کی پہنچ سے دور ہوجاتی ہیں اور ان ضروریات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔
عالمی معاشی بحران میں اضافے اور ملکی بنیادی ڈھانچے کی زبوں حالی کے باعث غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی تیز ترین کمی ہوئی ہے جس سے معیشت کا زوال مزید گہرا ہوا ہے، اس سال بھی 80 کروڑ ڈالر کی نجکاری کے ذریعے آمدن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن عالمی معاشی بحران اور ملک میں بنیادی ڈھانچے کی ابتر صورتحال کے باعث نجکاری آسان نہیں، نجکاری کے دوران محنت کش طبقے کی تحریک کا خوف بھی حکمرانوں کے ارادوں کو متزلزل کرتا ہے، پاکستان میں سال 2012 میں صرف 650 ملین ڈالر غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں آئے جو انتہائی کم ہیں، 2011 میں یہ رقم 1.97 ارب ڈالر جب کہ 2010 میں 2.08 ارب ڈالر تھی، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 2012 میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں 67 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی۔
جب کہ دوسری جانب ملٹی نیشنل اور بہت سی پرائیویٹ کمپنیوں کی جانب سے یہاں سے لوٹی ہوئی رقم غیر ملکی بینکوں میں بھجوانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، مالی سال 2011-12 میں اس رجحان میں 40 فیصد اضافہ ہوا، سال 2012 میں 1.061 ارب ڈالر ملک سے باہر بھجوائے گئے، اگر ملک میں آنے والی غیر ملکی سرمایہ کاری اور یہاں سے باہر بھجوائی جانے والی رقوم کا تقابلی جائزہ لیں تو واضح ہوگا کہ ملک سے باہر جانے والی رقم زیادہ ہے۔ یہ رجحان پہلے سے محدود غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے۔ 2012 کے لیگاٹم کے سروے کے مطابق ایشیا پیسیفک خطے میں پاکستان کی معیشت سب سے زیادہ خستہ حال ہے، دنیا کے 142 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر 132 واں ہے جب کہ افغانستان 140 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں بجلی، پٹرول، سیمنٹ، ادویات، آٹا و چینی، گھی، ایل پی جی، سی این جی ہر جگہ مافیا بن چکے ہیں، جو عوام کی مشکلات اور ضروریات کی پرواہ کیے بغیر اشیا کی مصنوعی قلت پیدا کردیتے ہیں اور اس کے بعد اپنی مرضی کی قیمت وصول کرتے ہیں، ریاستی ڈھانچے اور ادارے صرف برائے نام ہیں اور اخباری بیان بازی کی حد تک محدود ہیں، عملاً ان کا کام سرمایہ داروں کے منافعوں کا تحفظ کرنا اور عوام کی زندگیوں کو جہنم بنائے رکھنا ہے، اشیائے ضرورت کی ہر شے اجارہ دار سرمایہ داروں کی لالچ اور ہوس کا شکار ہے اور عوام کہیں زیادہ قیمت دینے کے باوجود بھی بنیادی اشیاء کے حصول کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں۔
ان تمام مسائل کا واحد حل آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضہ جات کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے، دفاعی بجٹ کو 10 فیصد پر لایا جائے اور اسے 18 کروڑ عوام کی تعلیم و تربیت پر خرچ کیا جائے، تعلیم اور صحت کے بجٹ کو 10 اور 0.8 کے بجائے 20 اور 24 فیصد پر لایا جائے۔ یہ بات کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں کہنے کو تیار نہیں۔ جب انتخابات سے مسائل حل نہیں ہوںگے تو پیداواری قوتیں پیداوار پر قبضہ کرکے خود کار امداد باہمی کا سماج قائم کریں گی۔