غلط رویے

آج کے مسند نشینوں کو قرآن کی ابتدائی سورتیں اور ان کے نام یاد نہیں، کلمے یاد نہیں۔ اسلامی معلومات سے نابلد۔


Naseem Anjum April 07, 2013
[email protected]

یوں تو ہمارے معاشرے میں کسی نہ کسی حوالے سے محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے اور مدعو کیے گئے حضرات اس میں خوشی بہ خوشی شرکت کرتے ہیں لیکن بعض محفلیں ایسی بھی ہوتی ہیں جہاں عقیدت و احترام کے ساتھ شامل محفل ہوا جاتا ہے کچھ مجالس میں عبادت کے ساتھ آنکھیں اشک باری کرتی ہیں اور دل بین کرتا ہے، زبان پر تلاوت کلام جاری رہتا ہے۔

پچھلے دنوں ہم نے ایسی ہی ایک نہیں بلکہ کئی محفلوں میں اپنی حاضری کو یقینی جانا کہ مرنیوالوں کی یاد میں اور انھیں ایصال ثواب کے لیے یہ مجالس منعقد کی گئی تھیں، بہت ساری خواتین خشوع و خضوع کے ساتھ قرآن پاک پڑھ رہی تھیں لیکن کچھ خواتین کرسیوں پر براجمان تھیں، صاحب خانہ نے اسی لیے فرشی نشست کے ساتھ کرسیوں کا بھی انتظام کردیا تھا کہ اگر بوجہ مجبوری نیچے فرش پر نہ بیٹھ سکیں تو کرسیوں پر بیٹھ سکتی ہیں، ہم نے یہ بھی دیکھا کہ ایک خاتون جو دیکھنے میں تعلیم یافتہ اور مہذب نظر آرہی تھیں وہ جوتا پہنے اور ٹانگ پر ٹانگ رکھے اس طرح تلاوت کر رہی تھیں جس طرح ڈائجسٹ یا اخبار پڑھا جاتا ہے۔

ہم سے رہا نہ گیا اور ہم نے بے حد عزت و احترام سے دھیمے لہجے میں دوسرے معنوں میں کانا پھوسی کے انداز میں انھیں سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اس قدر مقدس و متبرک کتاب پڑھتے ہوئے برائے مہربانی چپل اتار دیں، دوسرے لوگوں پر احسان ہو یا نہ ہو مجھ پر احسان عظیم ہوگا۔ انھوں نے مجھے گھور کر دیکھا، پہلے ہولے سے پھر ذرا تیز آواز میں بولیں، آپ کو کیا تکلیف ہے، چپل میں نے پہنی ہے، پریشان آپ ہیں، پھر انھوں نے اپنے عزیز و اقارب سے شکایت انگریزی زبان میں کی، انھوں نے غصے سے جواب دیا کہ یہاں کے لوگ ایسے ہی ہیں، گویا وہ دیار غیر سے تشریف لائی تھیں۔

ہم نے ان تمام خواتین کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے کہا کہ بھئی! آپ کی مرضی ہے، مجھے جو کہنا تھا وہ کہہ دیا۔ ایسی ہی صورتحال چند روز قبل پیش آئی یہاں تو آوے کا آوا ہی خراب تھا۔ ایک نہیں کئی خواتین شان بے نیازی سے تلاوت قرآن پاک کر رہی تھیں۔ ادھر ہم نے خاموش رہنا ہی بہتر جانا، لیکن صاحب خانہ سے ضرور اپنے دل کا بوجھ ہلکا کردیا لیکن انھوں نے سنی ان سنی کردی۔بعض لوگ کہنے لگے کہ سعودی عرب میں لوگ لیٹ کر بھی قرآن پاک پڑھتے ہیں۔ ہم لوگ قرآن پاک کو احترام کی حد تک مانتے ہیں مگر اس پر عمل نہیں کرتے جب کہ یہ وہ کتاب ہے جو زندگی کے بارے میں ہر بات بتاتی ہے۔

یہ ضابطہ حیات ہے، دنیا بھر کی تمام کتابوں کا علوم اس اﷲ کی آخری کتاب میں موجود ہے لیکن یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ ہم سعودی عرب کے رہنے والوں کی پیروی کریں کہ وہ کس طرح قرآن پڑھتے ہیں، کہاں رکھتے ہیں، کیسے رکھتے ہیں؟ اصل میں ہمیں قرآنی تعلیم اور اﷲ کے احکام کو ماننا چاہیے، سعودی باشندے بھی انسان ہیں، لیکن دنیا بھر کے تمام ملکوں سے زیادہ سعودی عرب میں اسلامی قوانین کا پرچار کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاک اور مقدس زمین چین و سکون کا گہوارہ بنی ہوئی ہے، جرائم سے پاک ہے۔ اب رہی قرآن شریف کی عزت و حرمت وہ سب پر واجب ہے۔

آج جو حالات اس قدر ابتر ہوئے ہیں، نفسانفسی کا عالم ہے، انسان گاجر مولی کی طرح کاٹے جارہے ہیں، امن کی دھرتی خون سے سرخ ہوگئی ہے، جگہ جگہ بے خطا لوگوں کے لہو کے دھبے منصفین سے انصاف مانگ رہے ہیں لیکن انصاف کون دے؟ کون فریاد سنے، کون مقدمہ لڑے، کون قاتلوں کو تلاش کرے؟ دور دور تک کوئی نظر نہیں آتا ہے، جہالت کا دور دورہ ہے قرآن پاک پر عمل کرنا تو دور کی بات تلاوت تک نہیں کی جاتی ہے۔ قرآن کے احترام سے واقف نہیں ، سوچنے کی بات ہے کہ جوتے پہن کر شاہراہوں، گلیوں اور راستوں پر چلا جاتا ہے، یہی جوتے اکثر لوگ واش روم میں بھی لے جاتے ہیں، وہ واش روم کے سامنے رکھی ہوئی سلیپر پہننے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں اور اسی جوتے یا چپل سے ہو آتے ہیں۔

یقیناً نہ راستے پاک ہیں اور نہ واش روم، چپل یا جوتا تو ناپاک ہوگیا ناں، تو اس ناپاک جوتے کو پہن کر قرآن پاک جیسی متبرک کتاب پڑھی جاسکتی ہے؟ یہ وہ کتاب ہے جسے مسلمان دل و جان سے مانتے ہیں، افسوس جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ قرآن پاک کا ادب لازمی ہے، پاک صاف جگہ پر بدن کی طہارت کے ساتھ، پھر اس طرح خواتین و حضرات اس پیاری دل کو بھانے اور روح کو خوش کرنے والی کتاب کی بے ادبی کیوں کرتے ہیں؟ اس کا ادب و احترام حدیث و قرآن سے واضح ہوچکا ہے۔

آج کے مسند نشینوں کو قرآن کی ابتدائی سورتیں اور ان کے نام یاد نہیں، کلمے یاد نہیں۔ اسلامی معلومات سے نابلد۔ اور پھر بیٹھتے ایسی کرسیوں پر ہیں جو اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ عوام کو راہ ہدایت دکھائی جائے، تاریکی کا خاتمہ کیا جائے لیکن جب اقتدار پر قابض لوگوں کو کچھ معلوم ہی نہیں سوائے ہوس زر کے، تو وہ اپنے عوام کو کیا دے سکتے ہیں، کچھ بھی تو نہیں، سوائے دکھوں کے جو مل رہے ہیں۔ موجودہ حکومت میں خوب خوب اذیتیں پہنچائی گئیں، لیکن اب جب کہ انتخابات ہونیوالے ہیں تو کچھ روشنی کی کرنیں اندھیرے دلوں کو روشن کر رہی ہیں۔

جعلی ڈگری والوں کو سزائیں دی جارہی ہیں اور دہری شہریت رکھنے والوں کے لیے سزاؤں کا اعلان کیا گیا ہے، ملزمان گرفتار بھی کیے گئے ہیں۔ بعض ایم پی اے فرار بھی ہوچکے ہیں، معلوم نہیں ہاتھ آئیں گے کہ نہیں، اہم محکموں کے اعلیٰ افسران کو تبدیل کرنے کا بھی حکم الیکشن کمیشن نے دے دیا ہے۔ اثاثوں کی کم قیمت ظاہر کی گئی ہے، کروڑوں، اربوں کی جائیداد کو لاکھوں کا بتا کر آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے۔ لیکن چالیں ناکام ہورہی ہیں اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی صاف نظر آرہا ہے اس کی وجہ سے کچھ ایماندار لوگ بھی سامنے آگئے ہیں ان سے ہی امیدیں وابستہ ہیں۔ بے گناہوں کا خون ضرور رنگ لائے گا۔

اسلامی تعلیمات سے دوری کا نتیجہ سامنے ہے، ان لوگوں کو اقتدار سونپا گیا جو اس کے ہرگز اہل نہ تھے، لیکن مسئلہ وہ ہی ہے کہ اپنے اپنوں کا بھلا چاہتے ہیں اعلیٰ عہدے وراثت تک ہی محدود ہوکر رہ گئے ہیں۔ پاکستان کا بھلا کوئی نہیں چاہتا۔ زمین و جائیداد، دولت، پیسے کی ریل پیل، نوکروں کی پلٹن، دس دس نہیں بیس بیس گاڑیاں اور گارڈ رکھ کر جھوٹی شان دکھائی گئی ہے۔ تحفظ اور پاکستان کے وسائل کا حقدار اپنے آپ کو ہی گردانا گیا۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کے تحت پاکستان کی بنیادیں ہل چکی ہیں، دشمن ہر دم تاک میں رہتا ہے اور آئے دن سرحدوں پر حملوں کی پہل اس کی ہی طرف سے ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ پاکستان کو ہندوستان کی خفیہ ایجنسیاں نقصان پہنچائیں یا امریکا اور اسرائیل کی دشمنی پاکستانی عوام کی جانیں لے اور وطن عزیز کو خسارے میں مبتلا کرے، جان کے لالے پڑ گئے ہیں، مسلمان آپس میں ہی لڑ لڑ کر ہلاک ہورہے ہیں۔

اﷲ کرے انتخابات شفاف ہوں اور آنیوالے حکمرانوں کے دل میں خوف خدا ہو وہ اپنے ملک کی حفاظت کے جذبے سے مالا مال ہوں تو پاکستان ایک بار پھر مضبوط پاکستان بن سکتا ہے، خوشی اور خوشحالی کا دور دورہ ہوسکتا ہے یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب عوام اپنے ووٹ کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں