خدارا درختوں کو بھی انفرا اسٹرکچر سمجھئے
برطانوی ادارے نے کراچی کو مسلسل 2016ء اور 2017ء میں دنیا کا چھٹا بد ترین ناقابل رہائش شہر قرار دیا
ملک کو ہر سال برآمدات میں کئی کئی سو ارب روپوں کے برابر زرمبادلہ کما کر دینے والے اور ہر سال مختلف محصولات میں کئی کئی سو ارب روپے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ادا کرنے والے شہر کوڑاچی (سابقہ کراچی) کے ساڑھے نو سال بھرپور لوٹ مار، تباہی اور بربادی کے بعد صوبائی حکومت نے کمال فیاضی سے پورے 10 ارب روپے شہر میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص کر دیے۔ اس ''خطیر'' رقم سے کراچی کی چند ایک سڑکیں بھی فیضیاب ہوئیں جن میں یونیورسٹی روڈ بھی شامل ہے۔
اس شاہراہ کے بڑے حصے پر دونوں جانب اور درمیان میں سیکڑوں ہرے بھرے درخت لگے تھے جن کا شہری انفرا اسٹرکچر یعنی سڑک کی تعمیر کے نام پہ مکمل صفایا ہوگیا۔ ان سیکڑوں درختوں کے عوض روڈ کے درمیان میں اندرون سندھ سے لائے گئے کراچی کے موسم کے لیے بالکل ناموزوں کھجور کے درخت لگائے گئے جو جلد ہی سڑک کی تعمیراتی کوالٹی کی طرح مرجھا کر رہ گئے۔ میڈیا میں کچھ ایسی خبریں چلیں کہ غالباً یہ درخت حکمران طبقے کی کسی فرد کو مالی فائدہ پہنچانے کے لیے لگائے گئے تھے نہ کہ کراچی کے محکوم شہریوں کے ماحولیاتی فائدے کے لیے، اب اگر آپ کا یونیورسٹی روڈ پر جانا ہو تو آپ کو درختوں سے محروم دھوپ میں جلتی جھلستی سڑک ملے گی جس کی بد صورتی کو دوبالا کرتے درمیان کھڑے ٹنڈ منڈ مظلوم کھجورکے درخت کراچی کے شہریوں کی سی بے چارگی کی بے رنگ تصویر بنے نڈھال بے حال ملیںگے۔
حالیہ نو دس سالوں میں کراچی کی جو مکمل تباہی و بربادی ہوئی ہے، اسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ آپ برطانیہ کے نمایاں میڈیا گروپ اکنامسٹ کے بین الاقوامی طور پر انتہائی معتبر ریسرچ اور تجزیاتی ادارے اکنامسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی مثال لے لیجیے جس نے کراچی کو مسلسل 2016ء اور 2017ء میں دنیا کا چھٹا بد ترین ناقابل رہائش شہر قرار دیا۔ ای آئی یو کی ریسرچ، تجزیوں، معاشی پیش گوئیوں اور مشاورت کو دنیا بھر میں سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے ایک اعلیٰ ترین معیارکے طور پر لیا جاتا ہے۔
ان نو ساڑھے نو سال میں کراچی کے لاوارث شہری سرکاری ملازمتوں، پینے کے پانی، باعزت ٹرانسپورٹ کی سہولتوں، با اختیار شہری حکومت، سرکاری جامعات میں تعلیم کے حقوق کے ساتھ ساتھ درختوں اور پارکوں سے بھی بڑے پیمانے پہ محروم کردیے گئے۔ 2008ء میں کراچی کے رقبے کے سات فی صد حصے پہ سبزہ موجود تھا جو 2016ء آنے تک صرف 3 فی صد رہ گیا جی ہاں درختوں اور پارکوں کا یہ صفایا اسی کراچی میں کیا گیا جو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور پیٹ گیسٹ کے ڈیٹا گرافکس کے مطابق دنیا کے پانچ سب سے زیادہ بد ترین آلودہ شہروں میں شامل ہے۔ ادھر 2016ء میں وفاقی حکومت کی طرف سے کراچی کے واحد ٹرانسپورٹ منصوبے گرین لائن بس سسٹم کی تعمیر کا آغاز ہوا اور صوبائی حکومت کی طرف سے چند سڑکوں کی تعمیر کی گئی تو ہزاروں کی تعداد میں مزید ہرے بھرے درختوں کو کاٹ پھینکا گیا۔ پہلے سے ہی درختوں سے گنجے شہر کی مزید صورت بگاڑ دی گئی۔
اب اگر ہم لاہور کی بات کریں تو سب سے اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کے صوبائی حکمران نہ تو لاہور کو اپنے لسانی دشمنوں کی اپنی مفتوحہ کالونی سمجھتے ہیں اور نہ ہی لاہور کے شہریوں کو اپنی مفتوح رعایا کہ جن کا پولیس سمیت تمام سرکاری نوکریوں، ترقیاتی فنڈز اور ترقیاتی منصوبوں، تعلیمی اداروں اور صوبائی حکومت میں نمایندگی کا سرے سے کوئی حق ہی نہ ہو۔ چنانچہ لاہور اور کراچی میں شہریوں کے حقوق، شہری سہولتوں، ترقیاتی فنڈز اور تعمیر و ترقی کے ضمن میں سرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ تاہم لاہور میں پچھلے دس سالوں میں بے شمار ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل کے دوران بڑی تعداد میں درختوں کا صفایا کیا گیا۔
درختوں کے ضمن میں ہمارے ہاں بڑا مسئلہ اس مخصوص پسماندہ حکومتی اور بیوروکریٹک ذہن کا ہے جو انفرا اسٹرکچر کا کام شروع ہوتا ہے وہاں سب سے پہلے درختوں کی شامت آتی ہے۔ آپ سچ پوچھیے تو درختوں کے بارے میں اس پسماندہ حکومتی اور نوکر شاہی کی سوچ کے ساتھ اس ملک کا ترقی کرنا ناممکن ہے کہ جہاں کے شہر دنیا کے بد ترین فضائی آلودگی کا شکار شہروں میں شامل ہیں۔ جہاں فضائی آلودگی سے نہ صرف بڑے پیمانے پر انسانی صحت بلکہ معیشت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور یہ ہم کوئی ہوائی نہیں اڑا رہے بلکہ ورلڈ بینک کی سن 2014ء کی رپورٹ ''کلیننگ پاکستانز ایئر'' کے حوالے سے بات کررہے ہیں۔
آپ اگر بجلی گھروں کو ملک کے جسم میں بجلی پمپ کرنے والے دل، سڑکوں کو شریانیں سمجھتے ہیں تو جان رکھیے کہ درخت ملک کے پھیپھڑوں جیسے ہیں اور پاکستان کے لیے تو اور بھی اہم کیونکہ ہمارا ملک جنوبی ایشیا میں واقع ہے جہاں کا بڑا حصہ بشمول پاکستان، اس تیزی سے گرم ہو رہا ہے کہ آنے والے عشروں میں یہاں انسانی زندگی کا پنپنا ہی تقریبا ناممکن ہوجائے گا، یہ پیشن گوئی تاروں کو تاریں لکھنے، توجہ کو توجا پڑھنے اور لفظ عوام کو مذکرکی جگہ مؤنث اور جمع کی جگہ واحد پکارنے والے ٹی وی نیوز چینلز کے اینکر دانشوروں کی دانشوری کا نمونہ نہیں بلکہ دنیا میں جدید ترین اور بہترین ٹیکنالوجی کا ادارہ مانے جانے والے ادارے میسا چیوسٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے ریسرچرز کی کمپیوٹر سیمویشنزکی بنیاد پہ کی جانے والی ریسرچ پہ مبنی اسٹڈی میں بیان کیے گئے حقائق ہیں۔
مختصر یہ کہ ہمیں اگر واقعی ترقی کرنی ہے تو ہمیں ملک میں درختوں کو انفرا اسٹرکچر میں رکاوٹ کی جگہ انفرا اسٹرکچر کا بنیادی جزو ماننا ہوگا۔ ہمیں ایسے قواعد و ضوابط نہ صرف بنانے ہوںگے بلکہ ان پہ عمل در آمد بھی کروانا ہوگا کہ جن کے ذریعے تمام سرکاری محکموں، شہری اداروں، نجی کمپنیوں، ہاؤسنگ سوسائٹیوں اور غیر ملکی سرمایہ داروں سب کے لیے لازمی ہو کہ نمبر ایک وہ اپنے ہر پراجیکٹ کے ایک مخصوص حصے یا پراجیکٹ میں ایک مخصوص شرح سے مقامی درختوں کی شجر کاری، حفاظت اور دیکھ بھال کریں، نمبر دو کسی بھی انفرا اسٹرکچر منصوبے کی تعمیر و توسیع کے دوران کاٹے یا اکھاڑے گئے ہر ایک درخت کی جگہ کم از کم پانچ مقامی درختوں کی شجر کاری اور دیکھ بھال کریں۔
ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارا جنیاتی کرپٹ حکمران طبقہ صرف ان قوانین پہ عمل کرتا اور کرواتا ہے کہ جن سے اس کی کرپشن اور دوسرے جرائم کو تحفظ ملے چنانچہ ہماری سول سوسائٹی کو سوشل میڈیا کے ذریعے عوامی شعور کو بیدار کرکے ناقابل اصلاح کرپٹ حکمران طبقے پہ عوامی دباؤ پیدا کرنا ہوگا کہ وہ درختوں کو بھی انفرااسٹرکچر سمجھنا شروع کرے۔ باقی ہمارے کرپٹ حکمران خاندانوں کے دلدادہ مین اسٹریم ٹی وی نیوز میڈیا سے کم ہی امید ہے کہ وہ سیاسی چٹخاروں سے ہٹ کر ان معاملات پہ بھی عوامی آگہی پیدا کرے۔ گو کہ ہمارے میڈیا پہ چھائے مختلف میگا کرپٹ حکمران خاندانوں کے فیملی کالم نگار و اینکر جان بوجھ کر خیبر پختونخوا کے بلین ٹری سونامی کے بارے میں بات نہیں کرتے مگر واقعہ یہ ہے کہ اس مہم میں نہ صرف کروڑوں درخت لگائے گئے ان کی نشوونما کی گئی بلکہ عام لوگوں میں ان درختوں کی اونر شپ کا شعور بھی پیدا کیا گیا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اگر حکومتی سطح پہ درختوں کو انفرا اسٹرکچر کے طور پہ لینے کی کوشش کی جائے تو عام لوگ بھی اس کوشش میں بڑے پیمانے پہ ساتھ دے سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہ وفاقی حکومت کو چین کی حکومت اور نجی اداروں کے ساتھ مل کر چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے ساتھ ساتھ چائنا پاکستان گرین کوریڈور بھی بنانا چاہیے۔ یہ ملک میں درختوں کو انفرا اسٹرکچر کے طور پر اہمیت دینے کی جانب ایک اہم قدم ہوگا۔