خواب ریزہ ریزہ
اگر تقابلی جائزہ لیں تو ہم 1965کے بعد زیادہ تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوئے ہیں۔
آج جب سیاست اور سیاسی ماحول پر نظر ڈالتے ہیں ، تو سوائے مایوسی اور فرسٹریشن کے کچھ نہیں ملتا ۔ منظر نامہ پہلے بھی کوئی اچھا نہیں تھا، مگر وقت گذرنے کے ساتھ بد سے بد تر ہوتا جا رہا ہے ۔ جوانی میں قویٰ مضبوط تھے ، امید کی کرنیں چہار سو روشنی بکھری ہوئی تھیں ، مگر جیسے جیسے وقت گذر رہا ہے، حالات بہتری کی طرف جانے کے بجائے مزید ابتری کی جانب گامزن ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ پہلے بہت کچھ پوشیدہ تھا ، اب ابلاغ کے اس دور میں سب کچھ عیاں ہوگیا ہے اور کچھ زیادہ ہی عیاں ہوتا جا رہا ہے۔ وہ زبان جسے استعمال کرتے ہوئے سیاسی رہنما اور اکابرین نجی محفلوں میں بھی جھجھک محسوس کیا کرتے تھے، اب کھلے عام ذرایع ابلاغ کی زینت بن رہی ہے اور کوئی معترض نہیں ہے، بلکہ لغویات ہی کو طاقت اورجرات کے اظہارکا ذریعہ تصور کیا جانے لگا ہے۔
ساتویں جماعت میں سینے پر لالٹین سجا کر پہلی مرتبہ مادر ملت کے جلسے میں شرکت کی اور حبیب جالب مرحوم کو جب لہک لہک کر یہ نظم پڑھتے سنا کہ ''بیس روپئے من آٹا، پھر بھی گلیوں میں سناٹا ، صدر ایوب زندہ باد(طنزاً)'' تو رگوں میں جوانی کے انگڑائی لیتے خون نے جوش مارا اور سیاست میں دلچسپی پیدا ہوئی۔
فرسٹ ائیرمیں طلبہ تنظیم سے وابستگی اور اسٹڈی سرکلوں میں ہونے والے مباحثوں نے فکری تربیت کی ۔ چچا کے ساتھ شیخ ایاز، حسن حمیدی اور فتح اللہ عثمانی کی بیٹھکوں میں جاکر سیاست کی باریکیوں کو سمجھنے کا موقع ملا ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا گیا، مطالعہ ومشاہدہ بڑھتا گیا اور ذہن میں پختگی نے جوش کے بجائے ہوش سے کام لینے پر آمادہ کیا تو معاشرے کی برہنگی کھل کر سامنے آنا شروع ہوئی۔
یہ نہیں ہے کہ ڈھلتی عمر نے اعصاب مضمحل کردیے ہیں، اس لیے اچھائی کی جگہ برائی نظر آرہی ہے۔ ہم اپنی طبیعت کے اعتبار سے رجائیت پسند ہیں قنوطیت سے دور کا بھی واسطہ نہیں رہا ، مگر جو کچھ دیکھ، سن اور محسوس کررہے ہیں، وہ قنوطیت کی طرف دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔ جب تیزی کے ساتھ بڑھتی عدم برداشت، شدت پسندی اور جنونیت کے مظاہر دیکھتے ہیں اوراعلیٰ مسندوں پر براجمان اہل حکم و انصاف کے طرزعمل اور ان کے فیصلوں پر نظر ڈالتے ہیں تو چہار سو تیزی سے پھیلتے اندھیروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ۔ بات یہ نہیں کہ ماضی میں سب اچھا تھا، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ کم ازکم آج سے بہتر تھا۔
مگر دیدہ وروں کی چشم بینا نے ابتدائی زمانے ہی میں اندازہ لگا لیا تھا کہ یہ ملک ومعاشرہ کس سمت رواں دواں ہے۔ یہ گفتگو پہلے بھی کئی بار لکھی ہے اور پھر لکھ رہے ہیں کہ حمید اختر مرحوم نے ایک سے زائد مرتبہ بتایا کہ ''ساحر ہمارے ساتھ پاکستان آ تو گیا، مگر وہ ہروقت مضمحل و مضطرب رہاکرتا اور کہا کرتا کہ یار حمید واپس چل، یہ ملک جلد مذہبی شدت پسند عناصر کے چنگل میں پھنستا نظر آرہا ہے۔''
وہ کہتے تھے کہ'' میں اسے دلاسہ دیتا کہ ہم سیاسی کارکن اس ملک کو ایک متحمل مزاج جمہوری معاشرے میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ہمیں امید ہے کہ ہم ضرورکامیاب ہوں گے، مگر وہ کہتا ، یہ سب بہلاوے کی باتیں ہیں۔ مجھے وہ سب ہوتا نظر نہیں آرہا، جو تم کہہ رہے ہو۔''
آج اندازہ ہو رہا ہے کہ ساحر لدھیانوی کی سیاسی اور سماجی بصیرت اتنی وسیع تھی کہ اس نے ستر برس پہلے ہی اسے محسوس کرلیا تھا کہ ملک کو کس طرف لے جانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ ایسے ہی خیالات کا اظہار سائیں جی ایم سید نے 1952میں ویانا میں عالمی کانفرنس کے موقعے پرکیا تھا۔ ان کا کہنا بھی یہی تھا کہ پاکستان میں شدت پسند مذہبی عناصرکے ذریعے جمہوریت اور وفاقیت کا راستہ روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ نتیجتاً یہ ملک ایک ایسی عفریت کی شکل اختیار کرجائے گا ، جہاں آزادیِ اظہار اور عقل وخردکی بنیاد پرگفتگو بے معنی ہوجائے گی۔
سجاد ظہیر مرحوم انسان دوست معاشرے کے قیام کی خواہش لے کرآئے تھے، مگر جب انھیں راولپنڈی سازش کیس میں قید وبند اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ، تو رہا ہونے کے بعد وہ بھی مایوس ہوکر واپس بھارت چلے گئے۔ یہی کچھ معروف ادیبہ اور عالمی شہرت یافتہ دانشور قراۃ العین حیدرکے ساتھ ہوا ، وہ بھی جلد ہی پریشان ہوکر واپس چلی گئیں۔یہ صحیح ہے کہ بھارت میں بھی اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، مگر ہم نے اپنا ٹریک ریکارڈ خود اپنے ہاتھوں خراب کیا ہے۔
اگر تقابلی جائزہ لیں تو ہم 1965کے بعد زیادہ تیزی کے ساتھ تنزلی کا شکار ہوئے ہیں، جب کہ بھارت تمام تر خرابی بسیار کے باوجود تیزی کے ساتھ آگے بڑھتا رہا۔ ہمیں یہ تو یاد رہتا ہے کہ وہاں دس کروڑ آبادی کو بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ لیکن یہ نہیں دیکھتے کہ 50کروڑ سے زائد کا متوسط طبقہ بیرونی سرمایہ کاروں کو اپنی جانب کھینچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کی معیشت اور GDP میں تسلسل کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ ہمارا GDP زوال آمادہ ہے۔
ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ برادر مسلم ممالک جن کی محبت کا ہم دم بھرتے ہیں، کیوں ہم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ جب کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک اورگؤ ہتھیا کے الزام میں ان پر تشدد کے واقعات عالمی ذرایع ابلاغ کی زینت بننے کے باوجود مسلم ممالک کے سربراہ وہاں جانے میں فخر محسوس کرتے ہیں، مگر ہمیں کوئی تشویش نہیں ہے۔
وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہماری سیاست بے توقیر ہوئی ہے، ادارے بے اعتبار ہوئے ہیں اور نظم حکمرانی برباد ہوئی ہے ۔ ان ستر برسوں میں چار آمر حکمران آئے، مگرکوئی ڈیگال جیسا نہیں تھا ۔ کئی سویلین حکومتیں قائم ہوئیں، مگرکوئی مہاتیر محمد نہ مل سکا، کیوں؟ شاید ہم خود اپنے اوپر اعتبار نہیں کرتے ۔ نظام مملکت چلانے کے شاید اہل نہیں ہیں۔ جب گھٹی میں غلامی پڑجائے تو آزادانہ کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ جب خیرات کی روٹی ملنے لگے تو محنت میں دل نہیں لگتا۔
حالت یہ ہے کہ ادارے سیاست دانوں پر اعتبار کرنے پر آمادہ نہیں ۔ سیاست دان اداروں کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ جس کو جہاں موقع مل رہا ہے، ماورائے آئین اقدمات کو اپنی طاقت کا اظہار سمجھتا ہے۔ معاشرے باہمی اتفاق، اعتماد اور تعلق سے قائم ہوتے ہیں۔ ہم ستر برس میں معاشرہ بن ہی نہیں سکے۔ بس ایک ریوڑ ہیں، جسے پچاس برس امریکا ہانکتا رہا اور ہم اس کے پیچھے دم ہلاتے رہے۔
اب چین کی دوستی ہمیں شہد سے زیادہ میٹھی، ہمالیہ سے زیادہ بلند اور بحرالکاہل سے زیادہ گہری نظر آرہی ہے۔کیونکہ خود کچھ نہ کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ اس لیے اپنی سرشت کے مطابق ہر چند دہائیوں کے بعد ایک نئے آقا کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا ، نہیں معلوم ۔ ہمیں یہ بھی امید نہیں کہ ہماری زندگی میں ایک متحمل مزاج، کثیرالفکری جمہوری معاشرے کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے گا یا نہیں۔