میرا کراچی منجھو کراچی
ہمیں کراچی شہرکی وسعتوں کو اس کی وسعتوں کے مطابق دیکھنا ہوگا۔
یوں لگتا ہے کہ کراچی کسی یتیم بچے کی مانند ہو اور جس کا ہرایک وارث بننے کی کوشش کرتا ہے۔ ہر ایک اس کو لولی پاپ دکھا کر اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اتنے سارے خواب اور تعبیرکچھ بھی نہیں۔ دو سو سال پہلے یہ شہر مچھیروں کا چھوٹا سا قصبہ تھا۔کلہوڑو حکمران جب سندھ پر حکومت کرتے تھے،کراچی بلوچستان کا حصہ تھا اور جب میر سندھ کے حکمران بنے، لسبیلہ کے خان آف قلات سے یہ شہر پیسوں کے عوض خرید کیا۔
روایت ہے کہ کراچی کو میروں سے پہلے کلہوڑو حکمرانوں نے اپنے قبضے میں لیا تھا اور خان آف قلات کو دیا اور خان آف قلات سے تالپور حکمرانوں نے لیا۔ کراچی انگریزوں کے سندھ فتح کرنے سے پہلے ہی انگریزوں کے قبضے میں جا چکا تھا اور پھر چارلس نیپئر نے اپنی افواج تیار کر کے میروں پر حیدرآباد میں حملہ کیا جوکہ اس وقت سندھ کا دارالحکومت تھا۔
کراچی شہر اپنی تاریخ میں بڑے نشیب وفراز سے گزرا ہے۔ سسی کا بھنبھور ہو یا محمد بن قاسم کا دیبل۔ مرزا جانی جن سے591ء میں اکبر بادشاہ نے ٹھٹھہ سے یہ تخت حاصل کیا اور ہندوستان میں ضم کیا۔
ڈچ سمندر پار سے جب یہاں آئے تھے یا انگریزوں نے اپنے سمندری جہاز جب لنگر انداز کیے تھے وہ کولاچی تھا یا کیٹی بندر یا ٹھٹہ یا پھر ہنگلاج میں کالی دیوی کا مندر۔ وہ بھی زمانے تھے کہ کراچی کوکیٹی بندر قرضے فراہم کرتا تھا اور ایسا ہی ہوا کہ جب سکھر بیراج بنا جس کی وجہ سے گندم کی کاشت اتنی وسیع ہوئی کہ برآمدکرنا پڑی اور یوں کراچی میں West warf بنا اورکراچی ایک نئے شہر کے روپ میں ابھرا۔کراچی سندھ کا دارالخلافہ بنا اور پاکستان بننے کے بعد پاکستان کا دارالخلافہ بنا۔ بہت تیزی سے اس شہرکی ڈیموگرافی تبدیل ہوئی۔ اس سے پہلے یہ غیر مسلم اور خصوصا ہندوؤں کا اکثریتی شہر تھا۔
جیسے ہی سندھ بمبئی سے علیحدہ ہوا تو ایک الجھن یہ سامنے آئی کہ اس شہر سے غیر مسلم اکثریت کوکیسے کم کیا جائے۔ سرعبداللہ حسین ہارون اور اللہ بخش گبول نے بہت سے مسلمانوں کو بلوچستان اور دیگر شہروں سے منتقل کر کے کراچی میں آباد کیا۔ ورنہ یہ بہت ممکن تھا کہ کلکتہ کی مانند یہ شہر بھی ہمارے ہاتھوں سے چلا جاتا۔ اس بات کو ہم اس طرح سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ گوادر خان آف قلات کی حکومت میں تھا۔ جب امیر عمان کو قریب 1862 ء میں ملک بدر کیا گیا۔
اس وقت خان آف قلات نے اپنی پرانی دوستی کا بھرم رکھتے ہوئے گوادر امیر عمان کے حوالے کر دیا اور یہاں عمان کی جلا وطن حکومت قائم ہوئی۔ جب حالات بہتر ہوئے اور امیر عمان کی گوادر سے عمان واپسی ہوئی تو گوادر کی دوبارہ نیلامی ہوئی۔ اس نیلامی میں ہندوستان نے بھی حصہ لیا اورگوادر کی بولی لگائی گئی۔ امریکا نے اس خطے کا توازن برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان کو آگے نہ بڑھنے دیا اور اس طرح عمان نے پاکستان کی لگائی ہوئی بولی کو قبول کیا۔
ہمارے دوستوں نے اپنے اپنے حلقے کے لوگوں کے سامنے عجیب منظر پیش کیے کہ کراچی شہر امریکا کی کالونی بنے گا۔ سندھ سے الگ ہوگا اور وغیرہ وغیرہ اور ان دوستوں نے ملک سے بے وفائی کے تمام ریکارڈز توڑ دیے۔
ملک میں آمریت کا راج ہو تب بھی اپنے پورے مینڈیٹ کے ساتھ وہ آمریت کے ساتھ چلے، چاہے وہ مشرف کا دور ہو یا جنرل ضیاء الحق کا اور جب ملک میں جمہوریت بحال ہوئی تو ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔
کراچی کے نام پر خوب مال بٹورا اور اپنے ہی ووٹر کو یرغمال بنایا۔ لندن کے کشش ثقل پر بیٹھ کر وہ کراچی کی حساسیت کو بھول گئے۔ وہ کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت کام کرتے تھے اور یوں کئی سوالیہ نشان اس شہر پر اٹھنے لگے۔ یہ لوگ دلی کے وارث تھے، دلی کی سلطنت اور میراث کے وارث تھے ایک وسیع اور جامع تاریخ کے وارث تھے۔ لکھنؤ کی تہذیب سے لے کر آگرہ کے تمدن تک اور اردو زبان کے وارث تھے۔
کراچی پاکستان سے پہلے سندھی ہندوؤں کی میراث تھا۔ سیٹھ ناؤمل بھی کراچی کا ہی باشندہ تھا جس نے چارلس نیپئر کے ساتھ مل کر تالپوروں سے سندھ کی حکومت چھینی۔ برنس روڈ، شکارپور سے آئے ہوئے سندھی ہندوؤں نے بسایا۔ جو ہندو اکثریت یہاں آکر آباد ہوئی وہ نارتھ سندھ سے تعلق رکھتی تھی یعنیٰ شکار پور اور سکھر کے شہروں سے۔ پاکستان بننے کے بعد یہ ہندو یہاں سے جانا نہیں چاہتے تھے، نہ ہی ان کا کوئی یہاں کے مسلمانوں سے اختلاف تھا۔کیونکہ سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے۔
اس دھرتی پر اختلاف صرف وہاں تھا جہاں وڈیروں نے ہندوؤں کی ابھرتی مڈل کلاس کے ساتھ تعصبانہ رویہ اختیارکیا تو پھر ہندوؤں نے بھی بنیادی بنیوں کا سلوک مسلمانوں کے ساتھ روا رکھا، لیکن یہ تضادات بھی اتنے گہرے نہیں تھے۔ مائی کولاچی کی قدیم بستی لیاری کی گلی گلی میں ہندوؤں کی پرچون کی دکانیں تھیں۔
اب چلتے ہیں مسلمانوں کے سندھ اسمبلی سے علیحدہ وطن کی قراداد کی تاریخ کی طرف۔ اس وقت ایوان کے لیڈر شہید اللہ بخش سومرو تھے توکس طرح اقلیت نے یہ قراداد منظورکروائی۔ اس قراداد سے پہلے بھی یہ قراداد اسمبلی میں پیش ہوئی لیکن منظور نہ ہوئی، مگر یہ اسطرح منظور ہوئی کہ اس دن ایوان کے ٹریژری بینچ کے بہت سے ممبران ایوان میں موجود نہ تھے اور اقلیتی ووٹ زیادہ تعداد میں کاسٹ نہ ہوسکا۔
شہید اللہ بخش سومرو وڈیروں کے ریپرزنٹیٹو نہ تھے۔ وہ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے تھے اور یوں وہ وڈیروں کی سازشوں کا شکار ہوئے۔ ان سازشوں میں دو مرتبہ مذہبی تعصب پسندی کو بھی ہوا دی گئی اور تیسرے معرکے میں وہ کامیاب بھی ہوئے اور وہ تھا منزل گاہ مسجد سکھرکا واقعہ جہاں سیکڑوں بے گناہ لوگ مارے گئے۔
سندھ میں پاکستان کی حمایت نہ کرنیوالی ایک اور بڑی شخصیت وہ تھے پیر صبغت اللہ شاہ راشدی عرف سورھیہ بادشاہ، پیر شاہ مردان شاہ (پیر پاگارو)کے والد۔ انھوں نے اپنے حروں کی ایسی تحریک چلائی کہ پورا لندن لرزگیا۔ان دنوں لندن کے اخباروں کی شہ سرخی صرف یہ تحریک تھی۔ انگریزوں کو پہلی بار لفظ ''ٹیرر'' کا مطلب سمجھ آیا، سیکڑوں لوگ مارے گئے۔ محمد علی جناح بھی سورھیہ بادشاہ کے وکیل تھے۔
بہرحال سورھیہ بادشاہ کو انگریزوں نے20مارچ 1943 میں پھانسی چڑھایا۔ یہاں تک کہ ان کی میت کا آج تک پتہ نہ چل سکا، اگر آج سندھ میں ان کی میت کہیں دفن ہوتی تو اس جگہ شایدگڑھی خدا بخش سے زیادہ لوگوں کی حاضری ہوتی۔ ایک قیاس آرائی یہ بھی ہے کہ ہل پارک کے قریب کہیں ان کی میت دفن ہے یا پھر کراچی کے قریب کسی جزیرے میں۔
میری نظر میں شہر کراچی صوفی شاہ عنایت کی تحریک کا وارث ہے۔ مکلی کے قریب جھوک شریف سے اس تحریک کا آغاز ہوا۔ یہ برصغیر کی پہلی کمیون (طبقاتی) تحریک تھی جس نے مغل بادشاہوں کو لگان دینے سے انکارکیا اور اس بات کا آغاز کیا کہ زمین اسی کی ہے جو اس پر ہل چلائے یعنی ''جوکھیڑے سوکھائے'' ۔ اس جدوجہد میں صوفی شاہ عنایت کے ساتھ جو دانشور تھے وہ حیدرآباد دکن سے تعلق رکھتے تھے۔
سورھیہ بادشاہ کی پھانسی کے دو مہینے بعد ہی شکار پور میں اللہ بخش سومروکو بھی شہید کر دیا گیا۔
جی ایم سید نے1940 ء میں آل انڈیا مسلم کانفرنس کے جنرل اجلاس میں شرکت کی جس میں قراداد پاکستان منظورکی گئی، لیکن عمر کے آخری دنوں میں وہ شکار پور شہید اللہ بخش سومرو کی قبر پرگئے بہت روئے یہ کہتے ہوئے کہ ''اللہ بخش تم صحیح ثابت ہوئے اور میں غلط۔''
مجھے اکبر زیدی کا وہ اعتراف بہت معنیٰ خیز لگا جب انھوں نے کہا کہ ہم سندھ کی تاریخ کے وارث ہیں اور ہم ہی سندھ کی تاریخ سے لاعلم ہیں۔ قرۃالعین حیدر نے موئن جو دڑو کی تاریخ پرکتاب لکھ کر سندھ کا حق ادا کیا۔ مختصر یہ کہ کون بن سکتا ہے اس تاریخ کا وارث، کس کی نظروں کو یہ تاریخ ڈھونڈتی ہے۔
اس تاریخ کے وارث سندھ کے وڈیرے نہیں بلکہ سچل سرمست، شاہ بھٹائی اور سامی ہیں اور یہ سب وڈیرے نہ تھے۔ سندھ کی تاریخ کوئی عام تاریخ نہیں۔ اس کے وارث یسوع اور سولیوں پر چڑھنے والے ہیں۔ یہ دہقانوں کی تاریخ ہے اورہم سب ہیں اس کے وارث۔ یہ تاریخ کوئی اجنبی تاریخ نہیں، یہ تاریخ موئن جودڑو اور ہڑپا کی تاریخ ہے۔ اس کا آغاز لداخ سے اور اختتام دریا کی چھوڑ پر ہوتا ہے۔
ہمیں کراچی شہرکی وسعتوں کو اس کی وسعتوں کے مطابق دیکھنا ہوگا۔کراچی اگر آج یتیمی کی صورتحال کا شکار ہے تو ہم ہی اس کے ذمے دار ہیں کیونکہ کہ ہم نے اس کو محدود کیا ہے ایک محدود سوچ دے کر۔