یوم تجدید کا دن

آج کا دن ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے سیاست داں قرارداد پاکستان کی اصل وجہ کو یاد رکھیں۔


عینی نیازی March 23, 2018

دنیا کی تاریخ میں ایک معجزہ ہی ہے کہ ایک ایسا ملک معرض وجود میں آجائے جو محض اسلام اور جمہوری آئین کے نفاذ کے لیے بنا ہو۔ہم بحیثیت پا کستانی بہت خوش قسمت ہیں کہ اللہ نے اسے قدرتی وسائل اور تمام موسموں کی خوبصورتی عطا کی اب یہ دنیا کا تیسرا بڑا اور ایٹمی طا قت رکھنے والا ملک ہے لیکن اس علیحدہ وطن کو پانے کی قیمت بھی ہمیں یاد رکھنے کی ضرورت ہے۔

ان تمام محسنوں کو جنھوں نے الگ ملک بنانے میں قربانیاں دیں،انگریزوں اور ہندوؤں کی شاطرانہ چالوں کا مقابلہ کیا، بناء کسی جنگ وجدل کے اپنے مطالبات ٹھوس دلائل سے منوائے یہ وہ دلائل تھے جنھیں ایک ہزارسال پہلے ایک مشہورسیاح نے البیرونی بھی سمجھ چکا تھا جس نے برصغیرکے بارے میں اپنے سفرنامے ''کتا ب الہند ،، میں لکھا ہے کہ دونوں قومیں صدیوں سے ایک ساتھ رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔ان کی عبادات، رہن سہن،کھانا پینے کے آداب، شادی بیاہ کی رسمیں، تہوارغرض تہذیب و تمدن حتیٰ کہ ہندو اپنے مردے جلاتے اور مسلمان انھیں دفن کرتے ہیں۔

ان کی طرز حیات کسی ایک نقطے پر بھی ایک دوسرے سے نہیں ملتے،گویا پیدائش سے لے کر موت تک ہندو ہرلحاظ سے الگ قوم ہیں،البیرونی کی تمام تحقیق سچ پر مبنی تھی۔ برصغیر کے مسلمان جانتے تھے کہ اسلام سب انسانوںکو برابری کا حق دیتا ہے مگر ہندو ذات پات کی گہری خلیج کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں جنھیںعبورکرنا مسلمانوں کے بس کی بات نہیں۔

ہندو بظاہر تو مسلمانوں سے روابط رکھتے تھے، مگر انھیں بھی شودر(ہندوؤں کی سب سے نچلی ذات) کی حیثیت دیتے تھے تو ایسے میں یہ بات عیاں تھی کہ انگریز برصغیرکو آزادکر بھی دیں تو وہاں کی ایک بڑی آبادی جو مسلمان تھی، اس کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ایسے میں مسلم اکابرین بھی فکرمند تھے، مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں اپنا نظریہ رکھتے ہیں الگ وجداگانہ شناختکے حامل ہیں۔

زندگی کا ہر شعبہ مذہب سے جڑا ہے وہ اسی نصب العین کے تحت آزاد خود مختار زندگی گزارنا چا ہتے تھے ، ہندو یا انگریز غلامی میں رہ کر یہ کسی طور ممکن نہ تھا ایسے میں علامہ اقبالؒ نے نظریہ پاکستان کی صورت میں ایسا حل پیش کیا ، جسے تمام مسلمانو ںکی تائید حاصل ہوگئی ۔

علامہ اقبال 1930ء الہٰ آباد کے سالانہ جلسے میں یوں کہتے ہیں کہ '' تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو نظریہ پاکستان کوئی نیانظریہ نہیں اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ایک علیحدہ سرزمین ضروری ہے، جب تک مسلمانوں کی جداگانہ حیثیت کو تسلیم نہیں کرلیا جاتا،اس وقت تک یہاں یورپ کے اصولوں کے مطابق جمہوریت تشکیل نہیں پاسکتی، یہی سبب ہے کہ مسلمان ایک علیحدہ وطن کے مطالبے میں حق بجانب ہیں اور میری خواہش ہے کہ اسلامی ریاست میں پنجاب ،سرحد ، سندھ اور بلوچستان شامل ہوں ، مسلمانوں اور دوسری اقوام میں قومیت کا تصوریکسر مختلف ہے، اس لیے انھیں ایک علیحدہ خطے کی ضرورت ہے۔

مسلمانوں کو یہ احساس ہوچلا تھا کہ ہندوؤں کے سا تھ کانگریس میں رہ کر وہ کچھ نہ کرسکیں گے۔ آئے دن کی مسلمان لیڈروں کی بے عزتی اور ہندوؤں کا اپنے مفاد میں ہر فیصلے کرنے کی کوشش شامل ہوتی ہے، اسی وجہ سے مسلمانوں نے ایک الگ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے قائم کی جس نے آگے چل کر ایک علیحدہ ملک کی بنیاد میں اہم کردار ادا کیا تمام مسلمان اس کے پلیٹ فارمپر متحد ہوگئے، لندن سے قائداعظم نے واپس آنے کے بعد کانگریس میں شمولیت اختیارکرلی، لیکن جلد ہی ان پر ہندوؤں کی مکارانہ چالوں اور مسلم کش پالیسوں کا ادارک ہوا، آپ نے کا نگریس سے کنا رہ کشی اختیارکرکے مسلم لیگ میں شمولیت اختیارکر لی۔ آپ کی بے باک قیادت ، مدبرانہ فیصلوں نے مسلم لیگ کو جلد ایک مضبوط جماعت میں تبدیل کردیا۔

ہندو ہر مسلم مفاد کے فیصلوں کی پر زور مخالفت کرتے رہے، نہرو رپورٹ کا مقصد بھی مسلمانوں کی علیحدہ وطن کے قیام کو مسترد کروانا تھا جس کے مقابلے میں قائداعظم نے ا پنے چودہ نکات پیش کیے جس میں تمام صوبوں اور اقلیتوں کو مساوی حق دینے کی بات کی۔

برصغیر کے معاشی سیاسی اور معاشرتی حالات کا مکمل جائزہ لے کر عوام کے ساتھ حکومت کے برتاؤ میں انصاف کو لازمی قراردیا گیا۔قائداعظم کے چودہ نکات پاکستان کا دیباچہ بن گئے، جس نصب العین کے لیے مسلمان عرصہ دراز سے کوششیں کررہے تھے، اس کے لیے قاؑئداعظم نے مسلمانان ہندکی توجہ مبذول کرواتے ہو ئے منٹو پارک کے اجلاس میں تاریخی نوعیت کی ایک قراداد پیش کی جسے قرارداد پاکستان کے نام سے جانا گیا ۔

اس قرارداد کو بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کیا جس کی تائید میں چوہدری خلیق الزماں، بیگم مولانا محمدعلی جوہر، قاضی محمد عیسیٰ ، آئی آئی چندریگر، مولانا ظفرعلی خاناور نواب بہادر یارجنگ سمیت مسلم لیگ کے چوٹی کے رہنما شامل تھے۔

اس قرار داد میں کہا گیا کہ جغرافیائی لحاظ سے وحدتوں کے درمیان قائم کرکے انھیں آزادریا ستوں میں تقسیم کردیا جائے، جہاں اکثریت سمیت تمام اقلیتوں کے بھی تمام مذہبی، ثقافتی، معاشی ، سیاسی اور انتظامی غرض ہر طرح ان کے حقوق کی نگہبانی کی جائے،انھیں تحفظ فراہم کیا جائے انھیں اپنی مرضی سے جینے کی آزادی دی جائے۔

8مارچ0 194ء کو قائداعظم نے فرمایا '' پاکستان اسی دن وجود میںآ گیا تھا، جب ہندوستان میں پہلا ہندو مسلمان ہواپھر انھوں نے انگریز سرکارکو انتباہ کرتے ہوئے فرمایا تھا '' قدرت نے پہلے ہی ہندوستان کو تقسیم کر رکھا ہے، اس بارے میں کسی قسم کا شوریا ہنگامی واویلا قطعی سود مند نہ ہوگا، ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایک الگ قوم کی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی تہذیب وثقافت ، ان کی روایات واقدار ہندو قوم سے بالکل مختلف ہے، تمام مسلمانوں نے بلاتفریق قائدکے پیچھے متحد ہو کرانگر یزوں کو ملک بدرکرنے وعلیحدہ وطن کے قیام کی کوششیں تیزکردیں۔ ریاستی تشدد و بربریت کا بڑی استقامت سے سامنا بھی کیا۔

مسلم اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے ظلم وستم ، درندگی کا جس جواں مردی سے مقابلہ کیا، اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ۔ 14 اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر پاکستان ایک نیا ملک بن کر ابھرا۔

لیکن افسوس ! جس مقصد کے تحت پاکستان معرض وجود میں آیا جواس کی بنیادی وجہ تھی ہمارے ارباب اختیار نے وہی بھلا دیا،ایک قوم جو برابری کے حقوق پر قائم ہوئی، آج اسی ملک میں صوبائیت کی وبا پھیل چکی ہے، بڑے صوبے چھوٹے صوبوں کو اختیار دینے میں پس پیش سے کام لیتے ہیں انھیں دست نگر بنا رکھنے کی بھر پورکوشش کی جاتی ہے حتیٰ کہ صوبوںکے وسا ئل پر بھی ان کا اختیار نہیں رہنے دیا جاتا۔

آج کا دن ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے سیاست داں قرارداد پاکستان کی اصل وجہ کو یاد رکھیں، اس بات سے سبق سیکھیں کہ آپ عوام کو محض اپنی مفادکی خاطر زیادہ عرصے تک استحصالی نظام قا ئم کرکے نہیں رکھ سکتے اور ماضی کی طر ف دیکھتے ہوئے اپنا محاسبہ کرنے کے لیے 23 مارچ سے بہتر دن کیا ہو سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں