یونیورسٹیاں خودمختاری اور حکومت سندھ

پیپلز پارٹی کی قیادت کو سیاسی منظرنامے سے پس پشت محرکات کا جائزہ لینا چاہیے۔


Dr Tauseef Ahmed Khan March 24, 2018
[email protected]

سندھ میں علمی آزادی کے ادارے کو کنٹرول کرنے کے اقدامات شروع ہوگئے۔ حکومت سندھ نے صوبے کی یونیورسٹیوں کے قانون میں یکطرفہ طور پر ترمیمات کردی ہیں، جس کے سبب یونیورسٹیاں بیوروکریسی کے شکنجے میں جکڑی جا رہی ہیں۔ علمی آزادی کے ادارے پر قدغن لگنے سے آزادانہ تحقیق اور نئے نظریات تخلیق کرنے پر پابندیاں ہونگی جس کا نقصان جمہوری کلچرکو ہوگا۔

سندھ اسمبلی نے یونیورسٹیوں کوکنٹرول کرنے کے لیے جو قانون منظور کیا ہے اس کے تحت یونیورسٹی کے بنیادی ادارے سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل کی ہیئت میں اہم تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ اب سنڈیکیٹ میں کل 25 اراکین میں سے 6 منتخب اساتذہ ہونگے۔ اسی طرح یونیورسٹی کی اکیڈمک کونسل داخلہ پالیسی تیار نہیں کرسکے گی۔

سندھ کے محکمہ تعلیم کو چلانے والی بیوروکریسی داخلہ پالیسی تیارکرے گی اور ایک انتظامی حکم کے ذریعے یہ پالیسی نافذ ہوجائے گی۔ یوں بیشتر اساتذہ اور محققین اس داخلہ پالیسی پر غوروفکر اور پالیسی کو بہتر بنانے کے عمل سے دورہوں گے۔ سندھ جس کے شہروں میں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے اور دیہی علاقوں میں جہاں سند ھی بولنے والے اکثریت میں رہتے ہیں کے درمیان نئے تنازعات پیدا ہونگے۔ حکومت سندھ نے کسی ماہر تعلیم کو وائس چانسلر بنانے پر پابندی کو ختم کردیا ہے ۔ اب کوئی بھی بیوروکریٹ یا ٹیکنوکریٹ وائس چانسلر مقرر ہو سکے گا، جو یونیورسٹی کلچر سے نابلد ہوگا ۔

اسی طرح اساتذہ کے وائس چانسلر نہ بننے سے ایک طرف اساتذہ کا استحقاق مجروح ہوگا تو دوسری طرف بیوروکریٹ ، وائس چانسلرکا عہدہ سنبھالنے سے یونیورسٹی کا تعلیمی معیار اورتحقیق کا شعبہ متاثر ہوگا۔ کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ اس خوف کا شکار ہیں کہ ان کی تنخواہوں اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کے اجراء کی ذمے داری اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کو منتقل ہوگئی تو سرخ فیتہ اساتذہ کی زندگیوں کو مزید اجیرن کردے گا۔

سینئر وزیر نثارکھوڑو نے یونیورسٹی کی ضروریات کو محسوس کیے بغیر فیصلہ دیا کہ اب حکومت سندھ یونیورسٹیوں کو فنڈنگ کرے گی، جب حکومت سندھ یونیورسٹیوں کو فنڈ دے گی تو پھر اس کی پالیسیاں بھی حکومت سندھ ہی بنائے گی۔ ماہرین تعلیم اسکول،کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم میں فرق بیان کرتے ہیں کہ اسکول میں کلاس کا استاد سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ کتابوں کی مدد سے بچوں کی تربیت کرتا ہے۔ طلبہ کے لیے اسکول کے اساتذہ آئیڈیل کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ اساتذہ کی ہدایت حرف آخر ہوتی ہے۔کالج کی تعلیم میں اساتذہ اور طلبہ کا ایک نیا رشتہ قائم ہوتا ہے۔ استاد اسے لیکچر کے ساتھ کئی کتب مطالعہ کرنے کے لیے تجویزکرتا ہے۔

اساتذہ خود تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ طلبہ کو تحقیق کے لیے مائل کیا جاتا ہے۔ ہر استاد کی حیثیت ایک مشیر کی طرح ہوتی ہے جو نصاب کے عنوانات تجویز کرتا ہے۔ کچھ کتابیں بھی تجویزکی جاتی ہیں مگر طالب علم آزاد ہوتا ہے کہ جہاں سے جامع مواد جمع کرے اور پھر استاد کے لیکچر اور تحقیق سے حاصل کردہ مواد کی بنیاد پر وہ اپنے خیالات ترتیب دیتا ہے۔

طلبہ اور اساتذہ جو تحقیق کرکے نئے نظریات ترتیب دیتے ہیں جن پر بھرپور تنقیدی بحث ہوتی ہے۔ یہ بحث ریسرچ جرنل،کانفرنسوں اور ورکشاپوں میں ہوتی ہے۔ متعلقہ شعبے سے متعلق تحقیق پر آزادی سے بحث ومباحثہ ہوتا ہے اور پھر مختلف شعبے نئی تحقیق سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

دنیا بھرکی بڑی یونیورسٹیوں میں ماحول ریاستی اداروں کے خلاف ہوتا ہے اور ریاستی اداروں کی پالیسیوں کا بھرپور پوسٹ مارٹم کیا جاتا ہے۔ منتخب اراکین اس طرح کی تحقیق کی مدد سے پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

مہذب ممالک میں جدید ریاستیں یونیورسٹیوں کی مالیاتی پائپ لائن برقرار رکھنے کا فریضہ انجام دیتی ہیں تاکہ اساتذہ اور طلبہ کو تحقیق اور بحث ومباحثہ میں کوئی رکاوٹ محسوس نہ ہو ۔ یہ اصول کئی سو سال قبل دنیا کی قدیم یونیورسٹیوں میں رائج ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی دنیا آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کی مدد کرتی ہے ۔ یہ یونیورسٹیاں علمی آزادی کا محور ہوتی ہیں ۔

برصغیر میں 1856ء میں کلکتہ، بمبئی، مدراس اور لاہور میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد اقتدار برٹش حکومت کو منتقل کیا تھا۔ برٹش حکومت نے یونیورسٹیوں کے قیام میں اس کی خود مختاری کو بنیادی اہمیت دی ۔ یونیورسٹیوں میں سینٹ، سنڈیکیٹ اور اکیڈمک کونسل جیسے بنیادی ادارے قائم کیے۔ ان اداروں کو یونیورسٹیوں کے بارے میں پالیسیاں بنانے کا اختیار ملا۔

قیام پاکستان کے بعد یونیورسٹیوں کو محدود خودمختاری حاصل رہی مگر پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت میں تعلیمی اصلاحات میں پاکستان کی یونیورسٹیوں کو حقیقی خود مختاری کا تصور رائج ہوا۔ یونیورسٹی ایکٹ 1973ء برصغیر میں یونیورسٹیوں کی خودمختاری کے تناظر میں بہترین قانون تھا۔ اس قانون کے تحت یونیورسٹی کے تعلیمی شعبے کے چیئرمین کے لیے مدت 3 سال مقررکرگئی۔

فیکلٹی کے ڈین کا انتخاب منتخب اساتذہ کے ذریعے ہونے لگا۔ سنڈیکیٹ، سینیٹ اور اکیڈمک کونسل میں لیکچرار، اسسٹنٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر کی نمائندگی انتخاب کے ذریعے ہونے لگی۔ پروفیسر ایمیریٹس کو مستقل نمائندگی دی گئی۔ اسی طرح یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں کے اساتذہ اور کالجوں کے پرنسپل کی نمائندگی کو انتخاب کے ذریعے لاگوکیا گیا۔ یونیورسٹی کی منتخب طلبہ یونین اور یونیورسٹی سے ملحقہ کالجوں کی طلبہ یونین کے نمائندوں کو انتخاب کے ذریعے منتخب کرنے کا حق دیا گیا۔ 1973ء کے اس قانون کی بناء پر یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں منتخب نمائندوں کی تعداد بڑھ گئی۔

اب یونیورسٹی کا انتظام چلانے والے اساتذہ ہوگئے۔ بیوروکریسی کا سرخ فیتہ پس منظر میں چلا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین کے ادارے کو ختم کیا گیا اور اس کے ساتھ ہی ڈین کے انتخاب کا طریقہ کار بھی تبدیل کردیا گیا۔ گزشتہ دور حکومت میں گورنر ہاؤس کی بیوروکریسی نے یونیورسٹی کے اداروں پر قبضہ کرلیا۔ اب گورنر کے پرنسپل سیکریٹری اور دیگر افسران معروف شہریوں کی نشستوں پر یونیورسٹیوں کی سنڈیکیٹ پر قابض ہوئے۔

یونیورسٹی چانسلر کے معاونین کی یونیورسٹی سنڈیکیٹ میں نمائندگی قانون کے روح کے منافی تھی مگر کراچی یونیورسٹی کے اساتذہ کے نمائندوں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے آواز نہ اٹھائی ۔ سابق گورنر عشرت العباد کی ہدایت پر کراچی یونیورسٹی کی جانب سے سابق وزیر داخلہ رحمن ملک کو ڈاکٹریکٹ کی اعزازی ڈگری دی گئی جس سے کراچی یونیورسٹی کا تشخص پامال ہوا۔ اب اس قانون کے تحت صوبہ سندھ کے گورنر جو بالحاظ عہدہ یونیورسٹیوں کے چانسلر ہیں کے انتظامی اختیارات سندھ کے وزیر اعلیٰ کو منتقل کردیے گئے ہیں۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب وزیر اعلیٰ صوبے کا حقیقی چیف ایگزیکٹو ہے۔

اس بنیاد پر یہ فیصلہ درست مگر دائیں بازو کی ایک طلبہ تنظیم نے اس فیصلے کو لسانی شکل دینے کی کوشش کی جب کہ اصل مسئلہ وزیر اعلیٰ کو اختیار منتقل کرنا نہیں بلکہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری کو ختم کرنے کا ہے۔ سندھ کی بیوروکریسی نے چند سال قبل یونیورسٹی ایکٹ میں ترمیم کر کے یونیورسٹی کے رجسٹرار اور ڈائریکٹر فائنانس کی تقرری کے اختیارات وائس چانسلر سے چھین کر حکومت سندھ کو تفویض کردیے۔ یہ یونیورسٹیوں کی خودمختاری ختم کر کے یونیورسٹی کو اسکول اور کالج کے درجے پر لانے کی کوشش ہے۔

سندھ کے سینئر وزیر نثارکھوڑو نے یہ بیان دے کر کہ سندھ حکومت یونیورسٹیوں کو مالیاتی گرانٹ فراہم کرتی ہے اس بناء پر یونیورسٹی کی پالیسیاں بھی وہی بنائے گی دنیا بھر میں یونیورسٹیوں کی تاریخ سے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ انگریزوں کے دور سے اب تک وفاقی حکومت یونیورسٹیوں کو مالیاتی گرانٹ دیتی تھی تو کیا یونیورسٹی کی پالیسیاں اسلام آباد میں بننی چاہییں تھیں؟ پھر انھیں اپنی جماعت کی اساسی دستاویزکا غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔

پیپلز پارٹی نے اپنی اساسی دستاویز میں علمی آزادی کے حق کو تسلیم کیا تھا۔ اس بناء پر 1973ء کے قانون میں علمی آزادی کے حق کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ اس علمی آزادی کے اداروں نے جمہوری نظام کے استحکام میں بنیادی کردار ادا کیا اور پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت کو اس آزادی کا ثمر ملا۔

بھارت کے ممتاز قانون دان اے جی نورانی نے ایک آرٹیکل میں لکھا ہے کہ مودی حکومت نے کشمیر یونیورسٹی سری نگر ، پنڈت جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی کی خود مختاری کو ختم کرنے کے لیے قانون سازی کا سہارا لیا ہے۔ ان یونیورسٹیوں میں اساتذہ اور طلبہ مودی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت بھی کیا مودی کی پیروی کررہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو سیاسی منظرنامے سے پس پشت محرکات کا جائزہ لینا چاہیے۔ یونیورسٹی کی خود مختاری پر قدغن لگانے اور علمی آزادی سمیت دیگر شہری آزادیوں کو ختم کرنے کا فائدہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو نہیں ہوگا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت مقتدرہ کے لیے راستہ ہموار کر رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں