ہمارے نئے اور پرانے حکمران
ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کاحافظہ کمزور ہے اور وہ پرانی باتیں جلد بھول جاتے ہیں۔
RAWALPINDI:
چند دن پہلے عرض کیا تھا کہ جتنے قرضے حکومت نے اس دور میں لیے ہیں اتنے پاکستان کی تاریخ میں نہیں لیے گئے اور آئندہ سال ان کی ادائیگی کے وقت حکومت کو دانتوں پسینہ آجائے گا۔ ابھی ان حروف کی سیاسی خشک بھی نہیں ہوئی تھی کہ ڈالر کی قیمت میںیکایک اضافے کا دھماکا ہو گیا اور اضافہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ پورے پانچ روپے کا جس کے بعد ڈالر کی سرکاری قیمت ایک سو سولہ جب کہ اوپن مارکیٹ میں ایک سو اٹھارہ روپے سے زائد ہو گئی ہے ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل ڈالر کی قیمتوں میں اسی طرح اچانک اضافہ ہوا تھا اور ڈالر کی قیمت ایک سو دس روپے تک پہنچ گئی تو ہمارے اس وقت کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار نے اعلان کیا کہ یہ اضافہ مصنوعی ہے اور دو دن بعد واقعی ڈالر کی قیمت واپس آگئی لیکن پھر وقت کے ساتھ بڑھتے بڑھتے ڈالرکی روپے کے مقابلے میں قیمت اس قدر بڑھ گئی کہ اسحاق ڈار بھی ڈالر کو بڑھتا چھوڑ کر لندن جا کر اسپتال میں لیٹ گئے اور ہمیں ایک سادہ لوح مشیر خزانہ کے حوالے کر دیا گیا جو کہ اداروں کی لوٹ سیل لگانے کو تیار بیٹھے ہیں اور ایک کے بدلے ایک مفت دینے کو تیار ہیں جیسے یہ ان کا ذاتی مال ہو۔
مشیر خزانہ کہتے ہیں کہ روپے کی قیمت میں کمی سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کی گئی ہے انھوں نے بڑے بھولپن سے اس امید کا بھی اظہار کیا ہے کہ مہنگائی نہیں بڑھے گی کیونکہ پہلے بھی روپے کی قدر میں کمی کی گئی تھی اور مہنگائی نہیں بڑھی تھی۔
ہمارے مشیر خزانہ سادگی کی انتہا کو چھو رہے ہیں ان کو یہ معلوم نہیں کہ عوام کے حالات کیا ہیں ان کی قوت برداشت کا کیا حال ہے اوروہ مہنگائی میں کس قدر پس رہے ہیں، تیل کی آئے دن بڑھتی قیمتوں کے ساتھ مہنگائی میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، انھوں نے ایک اور خوشخبری بھی سنائی ہے کہ اگلے چھ آٹھ ماہ تک روپے کی قدر میں مزید کمی کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی یعنی وہ یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ عوام تیار رہیں اسی سال ایک بار پھر روپے کی قدر میں مزید کمی ہو گی۔
موجودہ حکومت ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پر چل رہی ہے، انھوں نے اپنی حکومتی مدت کے دوران آئی ایم ایف کے مطالبے پر روپے کی قدر میں کمی کر کے اپنا وقت گزارنے کا معقول بندوبست کر لیا ہے اور آئندہ الیکشن میںجو بھی حکومت برسر اقتدار آئے گی وہ جانے اور اس کاکام۔ یعنی ہم تو حلوہ کھانے آئے تھے اور اپنے حصے کا حلوہ کھا کر چلتے بنے ہیں اب مستقبل کے حکمران اپنے حلوے کا بندوبست خود کر لیں اور اپنی اس کمائی پر عیش کریں۔
روپے کی قدر میں کی جانے والی کمی کے نتیجہ میں ملکی قرضوں کا بوجھ بھی مزید بڑھ گیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ان قرضوں میں پانچ کھرب روپوں کا راتوں رات اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومت کے قائد میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ میرے چار سالہ دور اقتدار میں ڈالر کی قیمت مستحکم رہی حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جب میاں صاحب نے اقتدار سنبھالا تھا تو ڈالر کی روپے کے مقابلے میں قیمت ایک سو روپے سے کم تھی۔
ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کاحافظہ کمزور ہے اور وہ پرانی باتیں جلد بھول جاتے ہیں لیکن عوام اتنے بھی بھولے اور بھلکڑ نہیں کہ وہ اپنے اوپر مسلط کی گئی مہنگائی کو اتنی جلدی بھول جائیں جس نے ان کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔
میاں صاحب شائد یہ کہنا چاہتے تھے کہ ان کے دور میں ملک میں معاشی طور پر استحکام تھا لیکن کیا ان کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ حکومت سے ان کا کوئی تعلق نہیںجو کہ ان کی ہدایات پر ہی چل رہی ہے، انھوں نے ڈالر کی قیمتوں میں اضافے کو بھی عدلیہ کے فیصلے کی وجہ قرار دیا ہے۔
میاں صاحب تو ملک کے ہر معاملے کو اپنے خلاف فیصلے سے جوڑ رہے ہیں حالانکہ اگر دیکھا جائے تو جو بے چینی اور افراتفری کی کیفیت ملک میں پائی جا رہی ہے اس صورتحال نے راتوں رات جنم نہیں لیا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اس کی ذمے دار حکومت ہی ہے عوام تو ان کی پالیسیوں سے مستفید ہوتے ہیں یا پھر ان کا شکار بنتے ہیں اور موجودہ صورتحال میں عوام حکومتی اقدامات کے شکار نظر آرہے ہیں اور آنے والے دنوں میں بھلائی کی کوئی خبر نظر نہیں آرہی بلکہ عوام کو ڈرایا جا رہا ہے کہ روپے کی قیمت میں کچھ ماہ کے بعد مزید کمی کی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت اپنا آخری بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے ۔ پاکستان کے عوام کئی بجٹ بھگت چکے ہیں اور ہمیشہ بے بسی میں حکومتی اعداد و شمار کے ہیر پھیر کا شکار ہی بنتے رہے ہیں اس لیے آنے والے بجٹ سے بھی خیر کی توقع کم ہی ہے ویسے بھی یہ نواز لیگ کی حکومت کا آخری بجٹ ہے اور کسی کو یہ معلوم نہیں اور اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی بھی نہیں کی جاسکتی کہ آئندہ بجٹ کون پیش کرے گا ۔
صورتحال کچھ یوں بن رہی ہے کہ عام انتخابات کا بگل بج چکا ہے حکومت اپنے آخری دَموں پر ہے مستقبل کا منظر دھندلا دکھائی دیتا ہے ملکی معیشت کے حالات بے نقاب ہو چکے ہیں دراصل حکومت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔ہمارے وزیر اعظم اپنی کسی رائے پر نہیں کسی اور ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں،آئندہ کی سیاسی صورتحال اپنی پارٹی کے حق میں کرنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
اس سلسلے میںوہ امریکا کے 'نجی ' دورہ پر ہیں لیکن لگتا کچھ یوں ہے کہ فیصلے کہیں اور کسی دوسری جگہ ہو چکے ہیں اور یہ فیصلے عام انتخابات کے فیصلے سے مشروط کر دیے گئے ہیں کیونکہ الیکشن میں ایک دنیا بدل جاتی ہے اور بالاتر طاقتیں من موجی بن جاتی ہیں اور ایک مطلق حکمران بن کر کمزوروں پر حکومت کرتی ہیں، جب تک کوئی حکومت اندر سے مضبوط نہ ہو وہ ان 'بیرونی' حکمرانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی ان کے لیے ایک مضبوط حکومت کی ضرورت ہوتی ہے جو ان بیرونی حکمرانوں کو برداشت کر سکے اور ان پر اپنی حیثیت واضح کر سکے ۔ ان کے سامنے اگر کوئی حکومت جھک گئی تو پھر اس کی خیر نہیں ۔ ہماری وہی حکومتیں ملک کی عزت بچا سکتی ہیں جو اندر سے مضبوط اور خودی سے سرشار ہوں اور اپنے سامنے کسی مدمقابل کی پروا نہ کریں۔