انتہا پسندی کا غلبہ
سابق صدر پر مقدمہ چلانے کا مطلب ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سویلین پر بالادستی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔
پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کا آغاز جنرل ایوب خان کے وزیر دفاع بننے سے ہوتا ہے اور پھر اس بالا دستی نے ایسی شکل اختیار کی جس کا نتیجہ 1958ء کے مارشل لاء کی صورت میں نکلا اور یہ پاکستان پر مسلط ہونے والی تاریک رات کی ابتدا تھی۔ پھر پے در پے مارشل لاء لگے۔ ان مارشل لائوں کے نتیجے میں پاکستان پر انتہا پسندوں کا غلبہ ہو گیا۔ وہ انتہا پسند جنہوں نے پاکستان اور قائداعظم محمد علی جناح کی مخالفت کی اور پاکستان کا قیام روکنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اب ان انتہا پسندوں کا میڈیا سمیت پاکستان کے تمام اہم اداروں پر غلبہ ہو چکا ہے۔اس طبقے کی جمہوریت سے نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ جمہوریت ہی ہے جو گدھے اور گھوڑے کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔ ان پڑھ اور پڑھے لکھے میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ دونوں کے ووٹ کی قیمت ایک جیسی ہوتی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقے ان انتہا پسندوں کی مدد سے عوام کی حق حکمرانی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ 1970ء کے الیکشن میں پاکستان کے دونوں حصوں کے عوام نے جب اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا تو حکمرانوں نے بڑی چابکدستی سے قرارداد مقاصد کو پاکستان کے آئین کا حصہ بنا دیا۔
پاکستان کو حکمران اشرافیہ اور سیاسی عزائم رکھنے والے مذہبی طاقتوں کے گٹھ جوڑ نے آخر کار دو ٹکڑے کر دیا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ طاقتیں عوام پر اپنی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہیں۔ جیسے کہ انھوں نے 1971ء میں بنگلہ دیش بنا کر کیا۔ یعنی ان قوتوں نے یہ ثابت کیا کہ یہ اپنے آپ کو بچانے کے لیے ملک توڑ سکتی ہیں کیونکہ ان قوتوں کا پاکستان بنانے میں کوئی کردار نہیں اس لیے انھیں اس بات کی کوئی پروا بھی نہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقوں نے اپنی بقا کو یقینی بنانے کے لیے انتہا پسند قوتوں کو جنم دیا اور پھر ان کی پرورش کی۔ یہ بالادست طبقوں کی ایک ایسی عیارانہ چال ہے جس کو پاکستانی عوام ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں سکے۔
ان قوتوں نے فرقہ واریت کے نام پر لوگوں کو تقسیم کر کے پاکستانی عوام کی طاقت کو تقسیم کر دیا۔ اب ہر فرقہ ایک دوسرے کو دشمن سمجھ رہا ہے۔ فرقہ واریت کے ذریعے انھوں نے پاکستانی عوام کو ایسا دھوکہ دیا اور ان کی آنکھوں پر ایسی پٹی باندھی ہے کہ انھیں یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اصل دشمن ان کے حکمران طبقے ہیں جنہوں نے پچھلے 65 سالوں سے عوام کی دولت کو اس طرح لوٹا ہے کہ اگر یہ دولت نہ لوٹی جاتی تو پاکستانی عوام نہ صرف مفت صحت، مفت تعلیم اور مفت رہائش کی سہولتوں سے فیض یاب ہو رہے ہوتے لیکن بجائے اس کے پاکستانی عوام کی اکثریت کو پیٹ بھر روٹی کا حصول ہی ایک عذاب بن کر رہ گیا ہے۔
حکمران طبقوں کا اس وقت سب سے بڑا ہتھیار مذہبی انتہا پسند قوتیں ہیں۔ انھیں انتہا پسند قوتوں نے آج پاکستانی عوام کو اپنا یرغمال بنایا ہوا ہے۔ اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انتخابی پراسیس کو دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہوا ہو۔ 2008ء کے انتخابات میں بھی ایسا نہیں ہوا تھا لیکن اس دفعہ جلسوں، ریلیوں اور سیاسی لیڈروں کو دہشت گرد گروہوں سے خطرہ ہے۔ انھوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ کون کون سی ان کی پسندیدہ پارٹیاں ہیں اور وہ کس کو نشانہ بنائیں گے۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت سیاست میں جس طرح مذہب کو داخل کیا گیا کہ اب دہشت گرد گروہ ہی اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ کون انتخابات میں حصہ لے گا اور کون نہیں اور آخری نتیجے میں یہ دہشت گرد قوتیں ہی فیصلہ کریں گی کہ پاکستان کو جمہوریت کی ضرورت ہے یا آمریت کی۔ بہرحال پاکستانی قوم کو مبارک ہو کہ ان کی سادہ لوحی سے فائدہ اٹھا کر حکمران طبقوں اور ان کی اتحادی انتہا پسند قوتوں نے پاکستانی قوم کو 65ء سال کی طویل جدوجہد کے بعد شکست فاش دے دی ہے۔
میں نے اب تک جتنی بھی پیش گوئیاں کی ہیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا موسم کے حوالے سے اللہ کے فضل سے بیشتر پوری ہوئی ہیں۔ چنانچہ میں اس بات سے گریز کرتا ہوں کہ میں ہر دفعہ اس بات کا اظہار کروں کہ میری فلاں پیش گوئی پوری ہوئی ہے۔ پچھلے 20 سال سے قارئین بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ تازہ ترین پیش گوئی جو پوری ہوئی ہے وہ پرویز مشرف کے حوالے سے ہے کہ اس میں میں نے کہا تھا کہ ان کے آنے یا نہ آنے کا فیصلہ مارچ کا آخر کرے گا۔ سو آخر کار پرویز مشرف گزشتہ 24 مارچ کو پاکستان پہنچ ہی گئے۔ پاکستان کی تاریخ یوں تو بحرانوں کی تاریخ ہے یعنی بحران در بحران لیکن موجودہ بحران جو 99ء میں شروع ہوا ابھی تک PHASE OUT نہیں ہوا۔ اس بحران کے مکمل ہونے پر ہی پتہ چلے گا کہ پاکستان کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی درخواست سماعت کے لیے منظور کر لی گئی ہے اور اس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ پیر 8 اپریل سے سماعت کرے گا۔
سابق صدر پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی سویلین پر بالادستی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ ٭ آرٹیکل 6 پر عمل درآمد کے حوالے سے 2014ء اور 2015ء بڑے اہم ہیں جس کا آغاز 2013ء اور اس کے ''خاص مہینوں'' سے ہو جائے گا۔ پرویز مشرف کے حوالے سے پیش گوئی کی انتہائی غیر معمولی اہمیت ہے کیونکہ اس سے ہی پتہ چلے گا کہ پاکستان کا مستقبل کیا ہے۔ پرویز مشرف کے حوالے سے فوری طور پر آنے والی اہم تاریخیں 10 اپریل اور 13-12 اپریل ہیں۔