خود فریبی

ملکی منظر نامے پر بھی عوام اور خواص ایک ایسی خود نمائی، خود پرستی اور خود فریبی کے مرض میں مبتلا ہیں


Shirin Hyder March 25, 2018
[email protected]

وقت بدلنے کے ساتھ تمام شعبہ ہائے زندگی کا رنگ مختلف ہو گیا ہے، ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے سب نے اپنی زندگیوں میں کچھ نہ کچھ تبدیلیاں کی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی نے جہاں انسانوں میں آپسیں فاصلے پیدا کر دئیے ہیں وہیں اس نے ایسے ایسے ڈھب سے تبدیلیاں کی ہیں کہ مختلف لوگوںکے ٹیکنالوجی کے استعمال پر حیرت ہوتی ہے۔ بالخصوص پچھلی دو دہائیوں میںسارے ڈھب ہی بدل گئے ہیں۔ اس عرصے میں ہونے والی ایجادات سے انقلابی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔

یہ تبدیلیاں نہ صرف مادی طور پر واقع ہوئی ہیں بلکہ ان سے انسانی تعلقات اور سماجی اور معاشرتی نقشہ بھی تبدیل ہو گیا ہے ۔ پہلے گلی میں سبزی اور پھل بیچنے والا صدا لگاتا اور اسی طرح باقی ٹھیلوں والے بھی ، رمضان میں سحری کے وقت جگانے والا ڈھول پیٹتا ہوا آتا اور سوتوں کو جگاتا، اب یہ کام مسجد کے لاؤڈ اسپیکر سے سائرن بجا کر کیا جاتا ہے، اسی طرح ٹھیلوں اور ریڑھوں والے بھی اسپیکر کا استعمال کر کے اپنی اجناس کو بیچتے ہیں۔

اب کاروبار کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کافی مختلف طریقوں سے کیا جا رہا ہے، جس میں سے ایک استعمال ریڑھیو ں اور کھوکھوں والوں کا لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کر کے گاہکوں کو متوجہ کرنا ہے۔ شہر اور دیہات کی گلیاں ہوں یا بازار کا پر رونق علاقہ، ملی جلی آوازوں کی گڈمڈ سنائی دیتی ہے، سبزی سے لے کر کپڑا بیچنے والوں تک سب چلا چلا کر خریداری کرنے والوں کو متوجہ کرر ہے ہوتے ہیں۔

سب سے اہم نکتہ ہے دوسروں کو متوجہ کرنے کی کاوش۔ اسی طرح ایک مصروف علاقے میں ایک ریڑھی بان نظر آیا، بلکہ سنائی دیا، اپنے مشروبات کی پبلسٹی کے لیے وہ پکار پکار کر کہہ رہا تھا...'' ٹھنڈا ٹھار شربت ہے بھائی جان، شربت دل بہار!! بھائی صاحب، چھوٹے بھائی، آپا جی، خالہ جان ، بہنا پیاری ، غم نہ کریں سب کو ملے گا باری باری، براہ مہربانی قطار بنا لیں، قطار بنا لیں گے تو سب کو سہولت ہوجائے گی اور مجھے بھی۔ فکر نہ کریں مال کافی ہے ، سب کو حصہ ملے گا، تھوڑا سا انتظار کہ رش کافی ہے مگرکوئی پیاسا نہیں جائے گا۔

آپ لائن بنا لیں تو وقت کم لگے گا، شربت دل بہار تو سب کو اپنی باری پر مل جائے گا مگر یوں رش کریں گے تو سب کو کوفت ہو گی!!'' بازار کے شور میں ایسی آوازیں سن کر ہی میں کانپ گئی۔ اتنی سردی میں اتنا ٹھنڈا ٹھار شربت بھلا کون پیتا ہے؟

سردی میں توسادہ پانی بھی ہم لوگ مارے باندھے پیتے ہیں، اس سے بھی ٹھنڈ لگتی ہے چاہے وہ کم ٹھنڈا ہی کیوں نہ ہو۔ میں نے دائیں بائیں نظر دوڑائی کہ اس ریڑھی کو تلاشوں اور یہ تو دیکھوں کہ کون لوگ ہیں جو وہاں یوں اس سردی میں ٹھنڈے ٹھار شربت کے لیے رش لگائے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسا منظر نظر نہ آیا، چائے کے کھوکھے کے پاس بہت رش تھا مگر وہاں ایسی کوئی ریکارڈنگ نہ چل رہی تھی۔ سوچا کہ قریب جا کر دیکھتی ہوں، ممکن ہے کہ چائے کے کھوکھے کے ساتھ ہی یہ کھوکھا یا ریڑھی ہو، مگر ایسا بھی کچھ نہ تھا۔

مایوس ہو کر واپس مڑی ہی تھی کہ سامنے ایک ریڑھی نظر آئی، جس پر شربت دل بہار کا بورڈ لگا ہوا تھا، ریڑھی پر کینوس کی چھت تھی اور اسی طرح کے کینوس کی جھالر ریڑھی کے گردا گرد تھی۔ اس کینوس پر شربت کی بوتلوں اور گلاسوں کی تصاویر بنی ہوئی تھیں۔ اس پر ایک طرف وہ لاؤڈ اسپیکر بھی نظر آ گیا جس میں سے وہ آوازیں پھوٹ کر پورے ماحول میں پھیل رہی تھیں۔

ریڑھی پر کسی سستے مشروب کی، لال پیلی ، نیلی، جامنی، گلابی اور ہری بوتلیں بھی رکھی تھیں، جن میں سے شاید ہی کسی میں ایسا رنگ استعمال ہوا ہو گا جو کھانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ خودسستی سے کھڑا تھا جسم کھجا رہا تھا، کچھ بول بھی نہیں رہا تھا، وہ آوازیں جوکہ اس نے ریکارڈ کر رکھی تھیں، وہی بار بار دہرائی جا رہی تھیں۔

گرمیوں میں اس کی ریڑھی پر شاید رش ہوتا ہو گا کہ اسے بار بار بول کرلوگوں کو قطار بنانے کا کہنا پڑتا ہو گا، اس سے بچنے کے لیے اس نے یہ اختراع کی کہ اپنے الفاظ کو اس نے ریکارڈ کر لیا تا کہ اس کی مسلسل بولتے رہنے کی مشقت بچ جائے۔ اس وقت ریڑھی پر رش تو کجا، کوئی ایک آدمی بھی تک نہ کھڑا تھا مگر وہ ریکارڈنگ جو اس نے گرمیوں کے موسم کے لیے کر رکھی تھی ، وہی چل رہی تھی۔ جس طرح ساون کے اندھے کو ہمیشہ ہرا نظر آتا ہے ، اسی طرح اس کی آواز دھوکہ دے رہی تھی، مگر وہ دھوکہ کس کو دے رہا تھا؟؟

میں جسمانی طور پر تو وہاں سے تو ہٹ گئی مگر میں کئی دن تک دماغی طور پر وہاں سے ہٹ نہ سکی۔ سوچ کی لہریں بار بار اس طرف کو بہتیں، ہر واقعہ، ہر جملہ، ہر بات پلٹ پلٹ کر اسی طرف کو جانے لگی۔ اندازہ ہوا کہ ایک وہی نہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ اسی ڈھب سے زندگی گزارتے ہیں۔

ملکی منظر نامے پر بھی عوام اور خواص ایک ایسی خود نمائی، خود پرستی اور خود فریبی کے مرض میں مبتلا ہیں کہ سب اس ریڑھی بان کی طرح دکھتے ہیں جس کی نظرکے سامنے کوئی موجود نہیں ہے مگر اس کی خود فریبی اسے سال بھر ایک ہی منظر کے سحر میں مبتلا رکھتی ہے، اور وہی ریکارڈنگ اس کی ریڑھی پر چلتی ہے۔

سیاستدانوں کے تناظر میں دیکھیں تو اس کے ساتھ مماثلت اور بھی زیادہ نظر آتی ہے جن کے گرد خوشامدیوں کا جھمگھٹا کچھ عرصے کے لیے نظر آتا ہے، جب تک کوئی صاحب اقتدار اور صاحب اختیار ہوتے ہیں تو ان کی پوجا چڑھتے سورج کی طرح ہوتی ہے اور جونہی کرسیء اقتدار ان سے بے وفائی کرتی ہے، وہ سب غائب ہو جاتے ہیں اور وہ جھمگھٹا کسی اور کے گرد جمع ہو جاتا ہے... وہ خود پرست سیاستدان ، اس منظر سے کب آشنا ہوتے ہیں کہ مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہوئے ان کے فدائی یوں غائب ہو جائیں، پھر وہ اپنی طاقت اور مقبولیت کے مظاہرے کرنے کے لیے ، جلسوں اور جلوسوںمیں رقوم خرچ کر کے فدائی جمع کرتے ہیں تاکہ ان کی سیا سی ریڑھی پر گاہکوں کا رش اسی طرح نظر آئے جس طرح اچھے موسم میں ہوتا ہے۔

ہمیں لگتا ہے کہ بس ہماری ذات اہم ہے، ہم نہیں تو کچھ نہیں، گھر میں ہوں تو خود کو سب سے اہم سمجھتے ہیں، گھر سے باہر، سڑک پر، دوستو ں اور عزیزوں میں، کام پر، مجلسوں، محفلوں اور پارٹیوں میں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی ہماری طرح دل جمعی سے کام نہیں کرتا، کوئی ہماری طرح کی قوت گفتار نہیںرکھتا سو ہماری طرح بات نہیں کر سکتا۔ کوئی ہماری طرح سچا ہے نہ باکردار، با اخلاق نہ خوش مزاج۔ دوسروں کے عیو ب کے ہم جج بن جاتے ہیں اور اپنی غلطیوں پر نظر جاتی ہے نہ اپنے گریبان میں جھانکنے کی ہمت۔

دوسروں کی کردار کشی اور ان کی عیوب کی تشہیرہمارے کردار کا نمایاں وصف بن گیا ہے۔ کوئی کرسیء اقتدار پر آ جاتا ہے تو وہ خود کو ناگزیر سمجھنے لگتا ہے، ہرڈاکٹرخود کو سب سے اچھا ڈاکٹر سمجھتا ہے، ہر انجنئیر خود کو مستند، ہراستاد خود کو استادوںکا استاد سمجھتا ہے اورہرتبصرہ نگار خود کو عقل کل۔ کسی کا اتنا ظرف نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی مہارت، فہم ، بڑائی اور سمجھداری کو تسلیم کرے، اپنی کمزوریوں کو جانے، ان کا اعتراف کرے اور انھیں سدھارنے کی کوشش کرے ۔

نہ کوئی بات سنتا ہے، نہ توجہ دیتا ہے، نہ خود کو غلط سمجھتا ہے اور نہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتا ہے۔ اوپر سے نیچے تک سب اپنی اپنی دکانیں سجا کر، اسپیکروں میں وہ آوازیں ریکارڈ کر کے سناتے ہیں جو وہ خود ہی سن کر مطمئن ہوتے ہیں۔ جانے یہ ملک چل کس طرح رہا ہے؟

'' قطارمیں کھڑے ہوں بھائی صاحب اوراپنی باری کا انتظار کریں، ایک ایک کر کے... سب کو باری ملے گی!!''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں