پی ایس ایلاب بیرون ملک نہیں
کرکٹ کے مقابلوں سے زیادہ بڑے پیمانے پر جوش و خروش کی فضا بنتی ہے۔
حال ہی میں رمیض راجہ نے پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کے لیے بڑے کھلاڑیوں کو پاکستان لانے اوریو اے ای میں شائقین کی کم تعداد کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کچھ تجاویز دیں۔ ان کا خیال ہے کہ پی ایس ایل میں ''کھیلنے والی ٹیموں کے لیے معاوضے کی حد پہلے سے متعین ہے اور یہ طے شدہ بجٹ سے زیادہ نہیں ہوسکتی، اس پابندی کی وجہ سے دنیائے کرکٹ کے بہترین کھلاڑی اس لیگ میں دلچسپی نہیں لیتے۔''
کھلاڑیوں کو ٹیموں میں شامل کرنے کے لیے کھُلی بولی کا طریقہ بہتر ہے۔ انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) اور دیگر ٹی ٹوئنٹی لیگز میں عام بولی کا طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ یوں عالمی شہرت یافتہ کرکٹر ان مقابلوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔ بڑے ناموں ہی کی وجہ سے شائقین میدانوں کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں۔
دبئی اور شارجہ کے اسٹیڈیم تماشیوں سے بھرنے کے لیے رمیض راجہ کی دوسری تجویز یہ تھی کہ ''بین الاقوامی ٹور آپریٹرز کی خدمات حاصل کی جائیں جو پاکستانی شائقین کو سفری سہولیات فراہم کریں۔'' یہ تجویز حیران کن بلکہ بے معنی ہے۔ رمیض راجہ کا شمار آئی پی ایل کے لیے ''قابل قبول'' چند پاکستانیوں میں ہوتا ہے، پی ایس ایل کو پاکستان سے باہر منعقد کروانے کے لیے کہیں رمیض کسی اور کی طرف سے مہم تو نہیں چلارہے؟
پاکستان میں زرمبادلہ کا کال پڑا ہے(ڈالر 110روپے سے 115کی سطح کو پہنچ چکا ہے) ایسی صورت میں ملک اس بات کا متحمل ہوسکتا ہے کہ اس کے شائقین کرکٹ نقد زرمبادلہ دبئی میں ایک ماہ تک ہونے والے ٹورنامنٹ دیکھنے کے شوق میں ہوٹلوں، کھانے پینے اور سفر پر خرچ کرڈالیں۔
پاکستانیوں کے کرکٹ سے محبت اور جنون کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی بہ آسانی پاکستان کے میدانوں میں سو فی صد حاضری کی ضمانت دے سکتا ہے۔ صرف لاہور کے قذافی اسٹیڈیم میں شائقین کی آمد اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ ارے بھائی، کوئی ہمیں بھی کراچی فائنل کے لیے ''بلیک'' میں ٹکٹ لادے! متحدہ عرب امارات کے اسٹیڈیمز کو دیے جانے والے بھاری کرایے پاکستانی میدانوں کو بہتر بنانے میں استعمال ہونے چاہئیں۔
تیسری پی ایس ایل کے 34 میں سے صرف تین میچوں نے کرکٹ کے تشنہ کام شائقین کی سیرابی کا کچھ نہ کچھ سامان کیا۔ پی ایس ایل سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو معقول منافع حاصل ہوتا ہے، جس میں سے اچھی خاصی رقم (مقامی و غیر ملکی) کھلاڑیوں، ٹیم حکام، پی سی بی کے حکام اور دیگر عملے کے قیام و طعام، سفر اور دیگر مصارف پر خرچ ہوجاتی ہے۔ اس میں کھلاڑیوں، ٹیم حکام، ٹیم کے مالکان، ان کے خاندان اور دوستوں، اسپانسرز کے حکام، عملے ارکان، ٹی وی انجینئرز اور دیگر کے اخراجات بھی شامل کر لیجیے۔
پی ایس ایل کے لیے دبئی کا سفر کرنے والے پاکستانیوں کو بھی شمار کیجیے۔ محسوس ہوتا ہے کہ رمیض راجہ یو اے ای کے چلتے پھرتے سفیر ہوگئے ہیں اور اس کی معیشت کو پاکستانی سرمائے سے مزید پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یو اے ای میں براہ راست پی سی بی کے کیے گئے اخراجات سے قطع نظر اس ٹورنامنٹ پر براہ راست اور بالواسطہ دیگر اخراجات اور کثیر زرمبادلہ کی بچت کی جا سکتی ہے۔ یہ ٹورنامنٹ اگر یواے ای کے بجائے پاکستان میں منعقد کیا جاتا تو پی سی بی کے دس گنا کم اخراجات ہوتے اور ملکی معیشت کو سہارا ملتا۔
میچ دیکھنے کے لیے آنیوالے شائقین کی متوقع تعداد اتنی ہوتی کہ پی سی بی دبئی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ منافع کماتا اور ممکنہ طور پر غیر ملکی کھلاڑیوں کو پاکستان میں کھیلنے کے لیے دو تین گنا زیادہ معاوضہ اور مراعات دینے کے قابل بھی ہوتا۔ مزید یہ کہ پہلی ٹی ٹوئنٹی لیگ سے حاصل ہونیوالے 26 لاکھ ڈالر اور ٹیلی ویژن حقوق سے حاصل ہونیوالے 60 لاکھ ڈالر منافع کئی گنا زیادہ ہوسکتا تھا۔
بہرحال نجم سیٹھی کے سر یہ سہرا جاتا ہے کہ پی ایس ایل کے ذریعے صرف تین برسوں میں خاصا ٹیلنٹ متعارف ہوا۔ ان نتائج کو کئی گنا بڑھایا جا سکتا ہے، جس طرح آئی پی ایل کے ذریعے بھارت نے کیا۔ جب لوگ اپنے اسٹارز کا کھیل دیکھنے کے لیے پاکستانی اسٹیڈیمزمیں آتے تو اسپانسرز کو بھی زیادہ وسیع میدان ملتا۔ پی ایس ایل ملک میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوتی، یہ سبھی کے لیے فائدے کا سودا ہوتا۔
کرکٹ کے مقابلوں سے زیادہ بڑے پیمانے پر جوش و خروش کی فضا بنتی ہے۔ 20اور 21مارچ کو ہونے والے میچوں میں لاہور کے شائقین کا جذبہ اور جوش دیکھنے کے قابل تھا، کیسے شاندار مناظر تھے۔ کھیل حب الوطنی اور قومی اتحاد کے جذبوں کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کیا کوئٹہ، پشاور، فیصل آباد، ملتان، اسلام آباد، حیدرآباد اور دیگر شہر ذوق و شوق میں کسی سے کم ہیں؟ ایک ایسا ملک جہاں برسوں دہشتگردی کا خوف چھایا رہا، وہاں شائقین کا اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے میدانوں کا رُخ کرنا زخموں پر مرہم ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی مدد سے قومی اتفاق کو مزید مستحکم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔
اہم ترین پہلو یہ ہے کہ ''دہشتگردی کے خلاف جنگ'' کی بھاری قیمت ادا کرنے کے باوجود، جب پی ایس ایل پاکستان میں منعقد نہیں ہوتی تو دنیا کو اس سے کیا پیغام ملتا ہے؟ ہمارے بہادر سپاہیوں کی عظیم قربانیوں کے باجود اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ہماری سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ پاکستان میں امن و امان کے حوالے سے ابھی تک پُراعتماد نہیں ہوسکی ہے۔
اس لیے پی ایس ایل کا پاکستان سے باہر انعقاد پاکستان کی قومی سلامتی کے خلاف ہونے والے پراپیگنڈے کو تقویت دیتا ہے، المیہ یہ ہے کہ پی سی بی نادانستہ اُس مہم کے لیے مالی وسائل صرف کررہی ہے جس کا مقصد دنیا پر یہ ثابت کرنا ہے کہ پاکستان کو کھیلوں کے لیے ابھی تک محفوظ نہیں بنایا جاسکا۔ عجب نہیں ہوگا اگر غیر ملکی کھلاڑی اسی بنا پر پاکستان آنے سے انکار کردیں۔
عالمی سیکیورٹی ماہرین کی ایک ٹیم نے کراچی میں ہونے والے فائنل کے حفاظتی اقدامات کا جائزہ لیا۔ غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے ہزاروں اہل کار، ہیلی کاپٹر، فوج اور پولیس کے محافظ مامور کیے جائیں گے، عالمی ماہرین نے انتظامات پر اعتماد کا اظہار کیا اور انھیں کسی غیر ملکی ٹیم کے دورے کے لیے عالمی معیارات کے عین مطابق قرار دیا۔
یہ انتہائی اہم پیشرفت ہے، پی سی بی اس کی مدد سے آئندہ غیر ملکیوں کے لیے پاکستان آمد کو مزید پُرکشش بنا سکتا ہے۔ نجم سیٹھی نے پاکسانی کرکٹ کو اپنے ٹیلنٹ کے مظاہرے کے لیے عالمی سطح کا اسٹیج فراہم کرکے زبردست کام کیا ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ انھوں نے امید ظاہر کی تھی 2019ء کا پورا ٹورنامنٹ پاکستان میں کھیلا جائے گا۔ انھیں پاکستان میں ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے مطلوبہ تبدیلیوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ برائے کرم! کوئی پی ایس ایل اب بیرون ملک نہیں ہونی چاہیے!