امام علی نازش ایک درخشاں ستارہ
نازش کے بارے میں ہم واقعات بتائیں گے نہ کہ پیدائش سے موت تک کا سفر۔
جس طرح سے ایران کے شہرشیرازکو ایتھنزآف ایشیا کہا جاتا ہے تو اسی طرح امروہہ کو ایتھنزآف برصغیرکہنا غلط نہ ہو گا ۔ امروہہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، اس کے باوجود یہاں سائنسدان، شاعر،ادیب، محقق، دانشور اور دیگر اسکالرز جتنے پیدا ہوئے اتنے شاید اورکہیں نہیں پیدا ہوئے۔
امام علی نازش ایک ادبی آدمی تھے، پاکستان آکر انجمن ترقی پسند مصنفین میں شامل ہوگئے جوکہ کمیونسٹ پارٹی آف پا کستان کا ادبی محاذ تھا اور ہے۔ان کی بیوی پرو فیسر تھیں ،جب امام علی نے پاکستان آنے کی ٹھانی تواپنی بیوی کو ساتھ آ نے کوکہا مگر انھوں نے آ نے سے انکارکردیا تو نازش خود ہی مشرقی پاکستان آکر اپنے ایک رشتے دارکے پاس ٹہھرے۔کچھ عرصے کے بعد ان کے بہنوئی نے ان سے کہا کہ آپ نے مغربی پاکستان دیکھا ہے، یہ زبردست خطہ ہے اسے ضرور دیکھیں ۔
اصل میں وہ مہمان سے تنگ آ چکے تھے۔اس کے بعد وہ مشرقی پاکستان سے کوئٹہ آگئے۔ یہاں ان کے قریبی رشتے دارکے گھر ٹھہرے جو میونسپلٹی کے ملازم تھے، انھوں نے نازش کو میونسپلٹی میں ملازمت دلوا دی ۔ نازش نے کچھ عرصے کے بعد میونسپلٹی میں مزدوروں کی یونین بنالی اورایک ہڑتال بھی کروادی ۔ ایک اعلیٰ افسر نے نازش کے رشتے دار سے کہا کہ آپ کا رشتے دار میری نوکری کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور وہ ہمیں اندرکروائے گا، یہ زمانہ 1949 کا تھا ۔
نازش کرا چی آگئے ۔ وہاں وہ مزدور یونینوں کو تلاش کرتے کرتے شو ورکرز یونین والوں کے پاس پہنچے وہاں ایک دوست نازش کو اپنے ساتھ لے کر لائٹ ہاؤس کے پاس کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں لے گئے ۔ وہاں ایک اوردوست بیٹھے ہوئے تھے ۔امام علی نازش سے کہا گیا کہ آپ یہاں بیٹھیں اور دروازہ بندکردیں ، ہم کچھ دیر میں واپس آتے ہیں۔
اسی دوران کوئی صاحب آئے اور نازش سے ان کے بارے میں پوچھا توانھوں نے جواب دیا کہ وہ یہاں نہیں ہیں اور دروازہ بندکرنے لگے۔ آئے ہوئے صاحب نے کہا کہ میں یہاں بیٹھ کر ان کا انتظارکرسکتا ہوں ۔ جس پر نازش نے جواب دیا کہ نہیں اور دروازہ بند کردیا۔کچھ دیر بعد وہ دونوں ساتھ واپس آئے تو نازش نے انھیں بتایا کہ ایک صاحب آئے تھے جوخواہ مخوا ضدکررہے تھے کہ انھیں میں اندر بیٹھنے دوں ، میں نے منع کر دیا ۔ان دونوں نے تو پہلے یہ کہا کہ بہت اچھا کیا ۔ بعد میں پوچھا کہ اس شخص کا حلیہ کیسا تھا؟
تو انھوں نے بتایا کہ لمبا قد اورگورا رنگ۔ تو دونوں نے حیران ہوتے ہوئے کہا کہ یہ تم نے کیا کردیا وہ تو اپنا ہی ساتھی تھا۔ نازش اور دونوں خاموشی سے بیٹھ گئے،کچھ دیر بعد وہی لمبا اورگورا شخص دوبارہ آیا تو دونوں ساتھیوں نے کھڑے ہوکر اس سے ہاتھ ملایا اور آفس کی خاص کرسی پر بیٹھنے کوکہا ۔ اب نازش حیرانی کے عالم میں تینوں کو دیکھنے لگے۔ دونوں دوست اس آئے ہوئے مہمان کوکہنے لگے کہ نیا ساتھی ہے آپ کو پہچانتا نہیں ، اس وجہ سے آپ کو بیٹھنے نہیں دیا، ہم معذرت کرتے ہیں ۔ وہ شخص دراصل حسن ناصر تھے۔
حسن ناصر خوش ہوئے اور نازش سے کہا کہ تم نے بالکل درست کیا ۔ پارٹی کے ساتھیوں نے آپ کو جوکہا تھا آپ نے وہی کیا ۔ اس کے بعد حسن ناصر، نازش سے ان کی زندگی کے معاملات پوچھنے لگے ۔ نازش نے امروہہ سے کراچی تک کا پورا سفر بتایا تو ناصر نے نازش سے کہا کہ ہم آپ کو پارٹی ممبرشپ دیتے ہیں اور ساتھ ہی کل وقتی کارکن بھی مقررکرتے ہیں۔ اس دن سے لے کر زندگی کے آخری سانسوں تک نازش پارٹی ہی کے ہولیے۔
نازش کے بارے میں ہم واقعات بتائیں گے نہ کہ پیدائش سے موت تک کا سفر۔ ایک اور اہم واقعہ پاکستانی ہوائی جہازکے اغوا کا ہے ۔ اس وقت امام علی نازش افغانستان میں مقیم تھے۔ پا کستان سے ٹیپو ہوائی جہاز اغوا کرکے کابل ایئر پورٹ لے آ ئے۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کا امام علی نازش کو فون آیا ۔ نازش اور نجیب نے مل کر مرتضی بھٹو اور شاہ نواز بھٹو سے ملا قات کی اور انھیں اس جہازکے اغوا سے لاتعلقی کا مشورہ دیا ۔
شاہ نواز بھٹو نے اتفاق کیا اورمر تضیٰ بھٹو خاموش رہے ۔ نازش اور نجیب واپس چلے گئے ۔ اس وقت ڈاکٹر نجیب خاد کے ڈائریکٹر تھے ۔ پھر دوگھنٹے بعد نجیب کا نازش کو فون آیا کہ شاہ نوازکا فون آیا ہے کہ مرتضی بھٹو باز نہیں آ یا ، اغواکاروں سے ملنے کے لیے ایئرپورٹ روا نہ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر نجیب اور نازش ملکر شاہ نواز کے پاس گئے اورکہا کہ آپ اغوا کا روں سے لا تعلقی کا اظہارکریں اورکابل ایئر پورٹ انتظامیہ سے کہیں کہ مرتضیٰ بھٹو کو لاؤنج میں روک لیں اور اغوا کاروں سے ملنے نہ دیں ۔ جس پر شاہ نواز بھٹو نے انکارکرتے ہوئے کہا کہ میں بھائی سے کیسے لاتعلقی کا اظہارکرسکتا ہوں ؟
اس کے بعد نجیب نے ایئر پورٹ اسٹاف کوکہا کہ آ پ جہاز تک جا نے دیں لیکن جہازکے با ہر ملا قات کر نے دیں ۔ میڈیا نے اطلاعات دینا شروع کردیں کہ الذوالفقارکے لیڈر مرتضیٰ بھٹو نے اغوا کاروں سے ملا قات کی اور ان کی کارروائی پر خوشی کا اظہارکرتے ہوئے انھیں مبار ک باد دی۔
دوسرا واقعہ یہ ہے کہ روسی سفیر نے امام علی نازش سے ملا قات کی ،(اس وقت پاکستان میں 1973 کا آئین بن رہا تھا ) روسی سفیر نے کہا کہ آپ آئین بنانے میں رکاوٹ نہ ڈالیں اور نیپ کو دستخط کرنے سے نہ روکیں ( یعنی کمیونسٹ پارٹی نہ روکے) نازش نے کہا کہ ہم آئین کی بنیادی نکات پر مزاحمت کررہے ہیں۔ آئین کی پہلی شق کہ ملک کا نام اسلا می جمہوریہ پاکستان کے بجائے جمہوریہ پاکستان رکھا جائے ۔
ملک کا سربراہ مسلمان ہونے کی شرط نہ رکھی جائے، صوبوں کو مکمل خود مختاری دی جائے، بشمول معاشی خود مختاری کے ، مزدوروں کو حق ہڑتال کی آئینی ضمانت ملنی چاہیے، مزید زرعی اصلا حات کی جائیں ۔اس پر روسی سفیر نے کہا کہ آپ مخالفت کر رہے ہیں کہ آپ کو یہ پتہ ہے کہ پیچھے کونسی قوت کھڑی ہے ، اگر آئین پاس نہیں ہوا تو جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے ۔
نازش نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی امکان نہیں نظر آرہا ہے لیکن اس کے باوجود حالات کو ہم پوائنٹ آف نو ریٹرن نہیں لانے دیں گے ۔ روسی سفیر نے کہا کہ آپ کی ذاتی رائے کیا ہے؟ جس پر نازش نے کہا کہ میں سی پی کا سیکریٹری جنرل ہوں میری ذاتی رائے کچھ نہیں ہوسکتی ہے ۔ سفیر نے کہا کہ اگر آپ ہماری بات نہیں مانتے تو آپ کی پارٹی کے ساتھ ہمارے تعلقات خراب ہوجائیں گے اور آخرکار تعلقات خراب ہوگئے ۔ جوکافی سالوں کے بعد بحال ہوئے ۔
ایک اور واقعہ بڑا دلچسپ ہے کہ نازش، لیاری میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک جلسے میں شیروانی، دو پلی ٹوپی اورعلی گڑھ کا پاجامہ پہن کر جلسے میں گئے ۔ ایک بلوچ کامریڈ نے انھیں اس لباس میں دیکھتے ہی دوڑ کے کرسی لایا ۔ نازش صاحب اس عمل کو دیکھ کر فورا سمجھ گئے کہ وہ کرسی عزت کے طور پر نہیں بلکہ طنزیہ لایا تھا کہ میں مزدوروں کے جلسے میں کیا لباس پہن کر آیا ہوں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پھر اسی دن سے میں نے شیروانی کوکٹوا کر بنڈی بنوا لیا ۔ بہرحال وہ ساری زندگی غیر طبقاتی یعنی امداد باہمی کے آ زاد معاشرے کے لیے لڑ تے رہے ۔