سیاسی شطرنج پر کون کامیاب ہے
پاکستان میں درحقیقت جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت ہی رہی ہے۔
www.facebook.com/shah Naqvi
اس ملک میں کچھ بھی نیا نہیں ہورہا، وہی ہورہا ہے جو پچھلے ستر سال سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ نیا صرف یہ ہے کہ آجکل نشانہ نواز شریف ہیں ورنہ اس سے پہلے نواز شریف پس پردہ قوتوں سے مل کر دوسروں کو نشانہ بنایا کرتے تھے۔ اب دوسروں کی باری آئی ہے، نواز شریف سے پچھلا حساب کتاب چکتا کرنے کی۔
اب نواز شریف اور ان کے ہمنواؤں کی آئین، جمہوریت، ووٹ کی حرمت کی فریادیں کام نہ آئیں گی۔ نواز شریف اب کہہ رہے ہیں کہ میں لڑائی نہیں چاہتا، جب انھوں نے اپنا ٹارگٹ مکمل کرلیا ہے۔ وہ ٹارگٹ جسے پاکستان کی کوئی بھی سیاسی طاقت ماضی میں حاصل نہ کرسکی یعنی انھوں نے پنجاب کے عوام کی ایک بڑی تعداد کو اپنا ہمنوا بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
یہ ایک تاریخی کامیابی ہے جس کا امریکا سمیت مغربی طاقتوں کو شدت سے انتظار تھا تاکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو دباؤ میں لاکر خطے کے حوالے سے اپنی مرضی کے فیصلے کرائے جاسکیں۔ لیکن اس لڑائی کی شدت بھی تاریخی ہوگی۔ چوہدری نثار علی خان نے بھی اس کی نشاندہی اس طرح کی ہے کہ مریم نواز کے تندوتیز بیانات نے پارٹی کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے۔
بہرحال نواز شریف کے ایڈوائزر بہت سمجھدار ہیں۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی نے پاناما فیصلے کے بعد کے آٹھ ماہ کا عرصہ پنجاب کے عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے بھرپور طور پر استعمال کیا۔ اداروں پر طنز اور تنقیدآخری حد تک پہنچ گئی۔ پاکستانی تاریخ کا یہ انوکھا واقعہ ہے کہ اس سب کے باوجود نواز شریف آزاد ہیں۔ نااہلی کے باوجود نواز شریف ریاستی طاقت کا بھر پور استعمال کررہے ہیں۔ مرکز اور پنجاب میں ان کی حکومتیں قائم ہیں۔
وزیراعظم نہ ہونے کے باوجود ان کو تمام تر پروٹوکول میسر ہے۔ ریاستی وسائل کے ذریعے ریاستی اداروں پر تنقید جاری ہے۔ نواز شریف کا مؤقف عدلیہ اور پس پردہ طاقتوں کے حوالے سے اصولی تو ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر انھیں اقتدار سے محروم نہیں کیا جاتا تو ان کا موقف یہی رہتا جو آج ہے۔ کیونکہ نواز شریف اور ادارے ایک دو پانچ دس سال نہیں پورے 30 سال ایک دوسرے کے مددگار رہے ہیں۔
یہ وہ حقائق ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔ نواز شریف کے ساتھی محمود خان اچکزئی بھی ہیں، جنہوں نے اقتدار میں آتے ہی اپنے بھائی کو گورنر اور دوسرے رشتہ داروں کو حکومت کا حصہ بنا دیا۔ دوسرے مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مشرف آمریت میں متحدہ مجلس عمل کے روح رواں مولانا صاحب ہی تھے۔ مولانا صاحب بھی اقتدار کے مزے لوٹنے میںکسی سے پیچھے نہیں۔
پاکستان میں درحقیقت جمہوریت کے لبادے میں بادشاہت ہی رہی ہے۔کیا ہم ضرورت سے زیادہ آئیڈیل ازم کا شکار ہیں۔ لگتا تو ایسا ہی ہے۔ ہم خواب دیکھنے والی جذباتی قوم ہیں، ہم سویلین بالادستی کے خواب دیکھتے ہیں یہ جانے بغیر کہ زمینی حقائق کیا ہیں اور اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ پاکستان میں نادیدہ قوتوں کی بالادستی ستر سال سے یا شاید اس سے بھی پہلے سے قائم ہے۔ یہ بالادستی کس کی ضرورت تھی اور ہے۔
یہ ہمارے بہت سے بقراط اس پر غور کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ چنانچہ سویلین بالادستی کی کھائی میں چھلانگ لگانے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس بالادستی کی کوشش میں ماضی میں ملک ٹوٹ گیا۔ یہ امریکی سامراج کا بلف تھا جو اس وقت کی سیاسی قوتوں کو دیا گیا کہ پاکستان ٹوٹنا امریکا کی ضرورت تھی کہ مشرقی پاکستان کا کانٹا نکالے بغیر سوویت یونین کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی تھی کیونکہ باشعور بیدار باخبر بنگالی مسلمانوں کا شعور آڑے آتا تھا۔
اس کھائی میں ذوالفقار علی بھٹو بھی گرے جس کا نتیجہ پھانسی کے پھندے کی شکل میں نکلا۔ عالمی برادری، عالمی سیاست پر گہری نظر کے باوجود ان کا یہ انجام ہوا۔ بھٹو نے یہ ایڈونچر اس وقت کیا جب امریکا سویت یونین کے درمیان سرد جنگ میں تبدیل ہوکر اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی تھی۔
یہ ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام اور سوشلزم کے درمیان مقابلہ تھا۔ بھٹو اس وقت امریکا کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر پاکستان اور خطے کے عوام کے مفاد میں امریکا سے ڈیل کرنا چاہتے تھے لیکن امریکا اتنی بڑی قیمت دینے پر تیار نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے پاکستان میں اپنی کٹھ پتلی طاقتوں کو اشارہ کیا اور بھٹو کو بڑی آسانی سے راستے سے ہٹا دیا گیا۔ بھٹو کے اس ایڈونچرازم اور سیاسی بالادستی کی کوشش نے پاکستان اور خطے کو ایک طویل خوفناک تاریکی میں دھکیل دیا۔
مقامی اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ہتھیار پاکستان سمیت خطے میں مذہبی گروہ اور جماعتیں بن گئیں۔ 1970ء کے الیکشن کے بعد پاکستانی عوام ناقابل اعتبار ٹھہرے، آئین، جمہوریت، آزادی، انسانی حقوق کا خناس پاکستانی عوام کے ذہن سے نکالنے کے لیے ان کے ذہن میں مذہبی جنونیت کا زہر بھردیا گیا۔ پاکستان کی حقیقی جمہوری قوتوں کی کمر اس طرح توڑ دی گئی کہ وہ پھر سے نہ اٹھ سکیں۔
ایک طویل آمریت ہمارا مقدر ٹھہری، پھر عالمی طاقتوں نے ہمارے لیے محدود جمہوریت کا نسخہ تجویز کیا تاکہ ہمیں سیاسی بالادستی کا ہیضہ نہ لاحق ہوسکے۔ نادیدہ قوتوں نے حقیقی جمہوریت کی ایسی اینٹ سے اینٹ بجائی کے اللہ دے اور بندہ لے۔ اب ہمیں پھر سے سیاسی بالادستی کا جنون لاحق ہوگیا ہے۔ یہ جانے بغیر کہ خطے میں عالمی اسٹیبلشمنٹ کے مفاد داؤ پر لگے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کی سرپرستی میں امریکا سمیت تمام دنیا کی جمہوری قوتیں کمزور ہورہی ہیں۔
مستقبل میں فیصلہ کن جنگ تیسری عالمی جنگ کی شکل میں ہمارے خطے میں متوقع ہے تاکہ دنیا کی نئی ابھرتی ہوئی قوتوں کو پسپا کیا جاسکے۔ مئی۔ ٹرمپ کی طرف سے یورپی یونین اور ایران کو دی گئی ڈیڈ لائن تاکہ طے شدہ عالمی جوہری معاہدے میں امریکا اسرائیل کے حسب منشاء ترمیم کی جاسکے۔ شمالی کوریا کے سربراہ اور امریکی صدر کی مئی میں ملاقات متوقع ہے تاکہ شمالی کوریا سے فارغ ہوکر ایران کو ٹارگٹ کیا جاسکے۔ یورپی یونین کی مزاحمت جو جوہری معاہدہ برقرار رکھنے کی شکل میں تھی اب وہ بھی امریکی ہم خیال ہوتی جارہی ہے۔
حال میں سینیٹ کا جو الیکشن ہوا اس میں جو کچھ ہوا اس میں بھی کچھ نیا نہیں ہوا۔ اس کو ہم ماضی میں دو تہائی اکثریت اور بدلے ہوئے انتخابی نتائج کی شکل میں بارہا دیکھ چکے ہیں۔ اگر مسلم لیگ ن سینیٹ کے الیکشن میں کامیاب ہوجاتی تو اس کی ساکھ میں بہت زیادہ اضافہ ہوتا۔جو شاید نادیدہ قوتوں کو منظور نہیں ہے۔ پاکستان کے بے خبر عوام کو نہیں پتہ کہ اس وقت کیا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ 1970ء اور 1977ء کی تاریخ پھر سے دہرائی جانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ کیا یہ عمل ملک سے دوستی ہے یا دشمنی۔
سیل فون: 0346-4527997