پالیسی تضاد
مسلمانوں کے لیے سعودی عرب اور وہاں کے حکمرانوں سے دلی وابستگی سے سب واقف ہیں۔
''صرف موت ہی مجھے حکم رانی کرنے سے روک سکتی ہے''۔ یہ الفاظ ہیں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے، جو انھوں نے امریکا کی سرزمین پر پہنچنے سے پہلے امریکی ٹی وی چینل سی بی ایس کے ایک پروگرام ''60 minutes'' میں انٹرویو دیتے ہوئے ادا کیے۔ محمد بن سلمان کا بطور سربراہ مملکت کسی امریکی نیوز چینل کے لیے یہ پہلا انٹرویو تھا، جسے بین الاقوامی میڈیا نے بہت کوریج دی۔ محمد بن سلمان کو ایک ایسا حکمراں تصور کیا جاتا ہے۔
جس نے سعودی عرب میں بے شمار انقلابی اصلاحات متعارف کروائی ہیں، لیکن یمن کی خانہ جنگی اور بڑھتی ہوئی افراتفری کے بعد ایک دنیا ان کو ''یمنی تنازعہ کا معمار'' کے نام سے بھی پکارتی ہے۔ امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے باتیں تو بے شمار کیں، کچھ سوالات کے تیکھے جواب دیے تو کچھ جواب سے تنازعات سامنے آئے۔ کبھی وہ سعودی عرب میں متعارف کروائی جانے والی نئی پالیسیوں کو فخر سے بیان کرتے نظر آئے تو کبھی مشرق وسطیٰ کی ابتر صورت حال کی ذمے داری کا بوجھ دوسرے تیسرے کاندھوں پر ڈالتے دکھائی دیے۔
مسلمانوں کے لیے سعودی عرب اور وہاں کے حکمرانوں سے دلی وابستگی سے سب واقف ہیں۔ سرزمین مقدس کی نگہبانی کے فرائض انجام دینے والوں کو ہمیشہ سے ہی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ لیکن دنیا کی سیاست نے جو بے شمار انداز بدلے اور نئے رنگ اوڑھے ہیں اس میں سعودی فرماں رواؤں کے بدلتے رنگ بھیشامل ہیں۔ امریکی چینل کو دیا جانے والا یہ انٹرویو بھی اسی نئے رنگ میں ڈوبا ہوا نظر آیا، جس سے یہ تاثر مزید واضح ہوگیا کہ دنیا کے تقریباً تمام ہی حکمرانوں کی طرح وہ بھی قانون کی حکمرانی کو انھیں کی طرح سمجھتے ہیں۔
دورۂ برطانیہ کے بعد اب محمد بن سلمان امریکا پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیاں امریکا اور سعودی عرب کے مثالی تعلقات کی گواہ ہیں۔ ٹرمپ کے دورِحکومت میں یہ تعلقات مزید گہرے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا منصب سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے بیرونی دورے کے لیے سعودی عرب کا چناؤ کیا تھا، جس میں دونوں ممالک کے درمیان سو بلین ڈالر کے تجارتی معاہدے ہوئے تھے۔ ٹرمپ کے دور میں سعودی عرب کے حوالے سے بنائی گئی پالیسیوں میں بے شمار واضح تبدیلیاں آئیں اور اب یہ وقت آیا ہے کہ امریکا پورے مشرقِ وسطیٰ کو سعودی نظر سے ہی دیکھتا ہے۔
محمد بن سلمان نے بادشاہت کے تقریباً تمام اختیارات ہاتھ میں آنے سے قبل وزیردفاع کے طور پر یمن کا محاذ سنبھالا ہوا تھا۔ وہ جواں سالہیں۔ شاید اسی لیے انھیں یقین ہے کہ وہ کئی دہائیوں تک سعودی عرب کے فرماں روا رہیں گے۔ اس سے قبل دورۂ برطانیہ میں، برطانوی عوام کو متاثر نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ یمن میں سعودی کردار کو دیکھتے ہوئے، برطانوی عوام نے ان کا ریڈ کارپیٹ استقبال کرنے پر وزیراعظم تھریسامے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
دورے سے قبل ہی برطانیہ میں ہزاروں آن لائن پٹیشنز دائر کی گئیں جن میں محمد بن سلمان کا دورہ منسوخ کرنے کی درخواست کی گئی۔ لیکن نہ صرف وہ دورہ ہوا بلکہ دونوں ممالک کے حکمرانوں کی امیدوں کے مطابق ثمرآور بھی رہا۔ یمنی تنازعے کے سب سے بڑے فریق سے جنگ کے خاتمے کی کوئی بھی یقین دہانی حاصل کیے بنا دورہ کامیاب قرار پایا۔
واضح رہے کہ جب سے یمن کی جنگ شروع ہوئی ہے سعودی عرب کو برطانیہ نے چھ بلین پونڈ کے ہتھیاروں کی فروخت کرکے اپنی اسلحہ انڈسٹری کو چار چاند لگائے ہیں۔ اس دورے میں بھی مزید نوے بلین ڈالرز کے اسلحے کی خرید کے معاہدے کیے گئے ہیں۔ یمن کی جنگ وہ جنگ ہے، جس میں باغیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن کی آڑ میں ایک قوم اپنے خاتمے کے قریب ہے، ایک تہذیب نیست و نابود ہو رہی ہے۔
انسانیت کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے کے بجائے محمد بن سلمان نے انٹرویو میں اپنا سارا زور صرف اس بات کو ثابت کرنے میں صرف کیا کہ اس جنگ کا مکمل ذمے دار ایران ہے۔ دنیا کے لیے حیرت اور خوشی کا مقام تو اس وقت ہوتا جب وہ یہ کوشش کرتے کہ چاہے یمن تنازعہ کا ذمے دار کوئی بھی ہو، اب عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر اس مسئلے کے پائیدار حل کو فوری بنیادوں پر تلاش کیا جائے۔
ان کے اسی رویے کے باعث برطانوی عوام ان کے دورے کے خلاف تھے۔ حیرت تو خود برطانویوں پر بھی ہے جو محمد بن سلمان کے دورے کو روکنے کے لیے سراپا احتجاج تو ہوئے لیکن اپنی حکومت کے خلاف کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی، کوئی سوال نہیں اٹھایا کہ ایک ایسے ملک کو لگاتار اسلحہ کس قانون کے تحت فروخت کیا جا رہا ہے جو دورجدید کی ایک بھیانک جنگ کا براہ راست فریق ہے۔ جنگ کی شدت بھی اس قدر کہ جس میں دو ملین افراد گھروں سے اور دس ہزار افراد زندگیوں سے محروم کیے جا چکے ہوں۔
ان سب باتوں سے ہٹ کر یہ اپنی جگہ ایک سچ ہے کہ سعودی عرب کا تیل پر انحصار کم سے کم کرنے کے لیے وژن 2030 کا سنہری سپنا ایم بی ایس کے ذہن میں ہی بیدار ہوا۔ ساتھ ہی ان کے دور میں خواتین کے حوالے سے نئے قوانین بنائے گئے، جن کی رو سے اب خواتین پہلے کی نسبت زیادہ آزادی سے آگے بڑھ سکتی ہیں اور ان کی آنکھوں میں بھی دیپ جلیٍ ہیں۔ خواتین کے حوالے سے ہی کی جانے والی بے شمار اصلاحات پر وائٹ ہاؤس میں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ دورے کا سب سے بڑا مقصد امریکی عوام کو سعودی عرب کے نئے چہرے سے روشناس کروانا ہے۔ اس دورے کو اگر ماہرین پبلک ریلیشن اسٹریٹجی سے تعبیر کر رہے ہیں تو ایسا غلط بھی نہیں۔
اصولوں کے تضاد کو نظرانداز کرنا ان خوش کن امیدوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہوگی جو سعودی عرب کے معاشرے اور سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں سے چاروں اور بندھ گئی ہیں۔ سعودی خواتین کو لباس کی پسند تک کے معاملے میں آزاد تصور کرنے والے حکمران اپنے خاندان کے بعض افراد کو اپنی بادشاہت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے ان کے لیے آزاد زندگی کو پسند نہیں کرتے، دو سو سے زائد سرمایہ داروں، شہزادوں اور شاہی خاندان میں موجود اپنے مخالفین کو بدعنوانی کے پھندے میں جکڑ کر انھیں قید کیا اور ان کے اثاثے ضبط کرلیے گئے۔
بدعنوانی کی یہی سزا ہونی بھی چاہیے، لیکن ساتھ ہی حکمران کو اپنی ذات کے لیے کیے جانے والے وہ بے پناہ اخراجات عین حق لگتے ہیں جن پر مہذب دنیا حیران اور غریب دنیا پریشان ہے۔ محمد بن سلمان نے فخر سے انٹرویو میں کہا ''یہ اخراجات میرا ذاتی معاملہ ہیں''۔ یعنی وہ اپنے معاملات کا کسی کو جواب دہ تصور ہی نہیں کرتے۔
ایک ہزار 857 کروڑ ڈالر سے فرانس میں خریدا ہوا ان کا محل اور 45 کروڑ ڈالر میں خریدا گیا ڈاؤنچی کا فن پارہ تو ان کے شاہی تفاخر کی ہلکی سی جھلک ہیں، پورا منظرنامہ حیران اور پریشان کرتا ہے۔ یہ شاہانہ طرزعمل اس وقت زیادہ قابل تنقید قرار پاتا ہے جب یمن میں بچوں کی ایک بڑی تعداد فاقوں سے اموات کا شکار ہو رہی ہو۔ لیکن شاہوں کی پرشکوہ امارت کو ان باتوں سے گزند کہاں پہنچتی ہے؟
بہرحال، اب دیکھنا تو صرف یہ ہے کہ محمد بن سلطان کا بدلا ہوا سعودی عرب ان تمام تضادات کے ساتھ تبدیلی کے سفر میں دنیا کا کتنا ساتھ دے پائے گا؟