1940 سے 2018 تک

1940 قرارداد پاکستان کا سال اور انصاف کے حصول کا سال کہا جاتا ہے۔



قلم کی حرمت اور سچائی کی قیمت وہی لوگ جانتے ہیں جو باضمیر ہوتے ہیں اور قلم کو معاشرے کے افراد کی خاطر تلوار کی طرح تھامے رہتے ہیں اور ''قلمی جہاد'' کرتے ہیں، ہماری تاریخ میں ایسے شاعر ادیب صحافی گزرے ہیں ہر زبان کے جو پاکستان میں بولی جاتی ہے یا بولی جاتی تھی کہ ان کا نام لیتے ہی سب سے پہلے ایمان کی روشنی اور صداقت اور سچائی نظر آتی ہے۔

بدقسمتی سے یا ان لوگوں کی خوش قسمتی سے اس چھانگا مانگا حکومت کے دور میں بلکہ ادوار میں قلم فروشی کا کاروبار ہمیشہ عروج پر رہا ہے وجہ یہ ہے کہ برائی اوپر سے نیچے اگر سفر کرے تو قوم کی تباہی لازم ہے اور اگر نیچے سے اوپر جاتے ہوئے اس کا تدارک کردیا جائے تو یہ قانون کی حکمرانی کہلاتی ہے۔ اس قانون کی حکمرانی کے سامنے نہ ٹرمپ چلتا ہے نہ کوئی اور وقت کا دھارا سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔

1940 قرارداد پاکستان کا سال اور انصاف کے حصول کا سال کہا جاتا ہے، کہا جاتا ہے اور وہاں سے 2018 قانون کی حکمرانی کی کوشش اور صاحب اقتدار لوگوں کا قانون کو پامال کرنے کا سال کہا جاسکتا ہے اور سال گزشتہ کو بھی اس کے ساتھ ہی شمار کرنا چاہیے۔

اس وقت کی اور اس کے بعد 60 تک کی صحافت کو دیکھ لیجیے اور آج دیکھ لیجیے۔ اس وقت بھی سچ کو سچ بیان کرنے والوں کو سزا ملتی تھی اور آج بھی صاحب اقتدار گولیاں برسا کر ایک درجن افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں بے گناہ شہریوں کو حق اور انصاف کا مطالبہ کرنے پر شہید کردیتے ہیں۔ اس عمل کے تحت سرکاری قاتلوں کو مراعات سے نوازتے ہیں۔

کچھ قلم اس وقت بھی بکتے تھے اور کون اور کہاں سے تھے یہ آپ خود سوچ لیجیے اور اب کچھ قلم سچ لکھ رہے ہیں اور بقیہ نے مفادات کو ذاتی مفادات پر ترجیح دے کر قوم کو ایک تاریک راستے پر ڈالنے کی پوری کوشش کی ہے۔

اس وقت ملک میں بالکل صاف طور پر دو ادارے کام قومی مفادات کے لیے کرتے نظر آرہے ہیں ۔ کیونکہ ایک ادارے نے سیلری آمر خاندان کی گرفت کر رکھی ہے جو ملک کی دولت کے نگراں تھے اور اس میں خردبرد کے مرتکب قرار پائے ہیں اور دولت کے انبار بھی جو غریب عوام کا پیسہ ہے ان کو نہیں بچا سکے۔

خاندان کے ایک فرد سے دوسرے فرد تک اور حواریوں سمیت یہ سب ایک جیسے حمام کے افراد ہیں اور وقت نے ان کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا ہے ہزار داؤ پیچ کے باوجود خاندانی حکومتکو خطرات لاحق ہیں۔ اقتدار بہت ظالم چیز ہے یہ اگر درست راستے پر چلے تو اپنا اور دوسروں کا کڑا احتساب کرتا ہے اور معاشرہ پرامن اور ترقی پذیر ہوتا ہے اور اگر خودغرضی پر محیط ہو تو صدام حسین اور شہنشاہ ایران جیسا انجام ہوتا ہے جنھوں نے لاڑکانہ سے دھمکی دی تھی کہ اگر پاکستان ٹھیک نہیں چلا تو ایران پاکستان پر قبضہ کرلے گا اس وقت وہ لاڑکانہ میں بھٹو کے مہمان تھے۔ یہ ایک بالواسطہ دھمکی تھی پاکستان کے سیاستدانوں کو مگر کہاں ہے بھٹو؟ کہاں ہے شہنشاہ ایران؟ وقت نے دونوں کا حساب کردیا۔ کوئی نہیں بچتا سب وقت برد ہوجاتے ہیں۔

عدلیہ پاکستان کے عوام کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور حکومت اور پارٹی عوام کو جوتے کے تلے رکھنا چاہتے ہیں جیساکہ عام طور پر 65 یا ستر سال سے اور خاص طور پر اس پارٹی کے اقتدار کے 30 سال میں ہوا ہے۔

مگر بعض قلم کار بلکہ بین الاقوامی سیاح اور کالم نگار ڈھونڈ ڈھونڈ کر اداروں کی وہ خامیاں بیان کر رہے ہیں جن کے وہ ذمے دار نہیں، چھانگا مانگا جج بھی اسی پارٹی کی ایجاد ہیں یہ بات کالم نگار بھول گئے۔ ایک آمر کا تربیت کردہ بلکہ دریافت کردہ شخص جو 30 سال اس ملک پر حکمران رہا اردگان بننے کی کوشش کر رہا ہے، ترک قوم بھی اب پچھتا رہی ہے اپنے فیصلے پر اور 2013 اور اب 2018 میں عوام نے وہی فیصلے کیے تو پھر عوام کا اللہ حافظ ہے۔

کالم نگار بہت کمال کے ساتھ کرپشن کے الزام زدہ اداروں اور مسلم لیگ ن کی قیادت کو ایک ہی صف میں لے آئے، کوئی بھی کرپشن زدہ ادارہ اگر غلط بھی ہے تو وہ ایک انفرادی معاملہ ہے مسلم لیگ ن کی قیادت نے الزام کے مطابق قوم کو دھوکہ دیا ہے اور لوٹا ہے ۔اب آپ لکھو گے کہ یہ کام کسی اور نے کسی اور طریقے سے کیا ہے تو پکڑا کیوں نہیں 30 سال میں خود کیوں شریک ہوگئے؟ اس وقت صرف دو چیزیں اہم ہیں ملک اور عوام۔ مودی کے ساتھیوں کو نہ ملک سے دلچسپی ہے نہ عوام سے، ووٹ کا تقدس دراصل اقتدار کی ہوس ہے جس میں حکمران خاندان اور ان کے حواری شریک ہیں۔

عوام کے سامنے مظلوم بننے والے عوام ہی نہیں پاکستان کے معاشی نظام کو نقصان پہنچانے والے ہیں۔ قرضوں سے ملک ترقی نہیں کرتے، خود انحصاری سے کرتے ہیں اور وہ ذاتوں تک محدود ہوگئی ہے۔ بڑا اور صاف فیصلہ کرنا چاہیے تھا جے آئی ٹی اور احتساب عدالت نے انصاف میں لگتا ہے تاخیر کردی اور ٹھیک نہیں نکالا اس وجہ سے ہی تو وہ عوام میں ''کیوں نکالا'' اور پھر ''کیوں نکالا'' کے نعرے لگاتے پھر رہے ہیں۔

سوائے قیام پاکستان کے چند سالوں کے جب سے غلام محمد کا سایہ پاکستان پر پڑا، پاکستان مشکلات میں ہے ملک میں اب کئی غلام محمد عوام کا خون چوسنے کو آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ ان کے لیے بلدیہ کا شکنجہ اور گاڑی چاہیے اور یہ کون فراہم کرسکتا ہے عوام جانتے ہیں ان کے لیے صاف پانی، دواؤں اور غذا کی درست فراہمی کی جنگ کون لڑ رہا ہے پاکستان کی عدلیہ ،جس نے اپنا راستہ خود درست کیا ہے۔

ہم ان کالم نگار دوستوں سے عرض کریں گے ملک اور حکومت اور عوام یہ آپ کے متعین کردہ اصول ہونے چاہئیں قوم کو لطیفے اور کہانیاں نہ سناؤ، مستقبل کی نوید دو، رہنمائی کرو، دنیا کی زمین ایک جگہ ختم ہوجاتی ہے پھر وہی سمندر ہے یہ تو آپ نے خود دیکھ لیا ہے۔

پاکستان کی ترقی کا مطلب پورے ملک کی ترقی ہے کسی مخصوص علاقے یا زبان کے بولنے والوں کی ترقی نہیں اور ساٹھ فیصد آبادی کے ووٹ کیبرتری کے خلاف بھی آپ کو کام کرنا ہے ان کو بھی کچھ نہیں ملا ، صوبوں میں بقیہ بہت لوگ ہیں جو عوام کے مفادات کے خلاف اور حکمرانوں کے مفاد کے لیے نہ جانے کتنی مرتبہ خود کو فروخت کرچکے ہیں کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے اس میں ٹوپی، عمامہ سب شامل ہیں۔ یہ علامتی لفظ ہیں ٹوپیوں کے مختلف رنگ اور ڈیزائن ہیں اور عمامے پگڑیوں کی بہت قسمیں مگر ذاتی مفاد کے لیے یہ سب ایک ہیں اور ایک رہیں گے۔

عدلیہ اور عوام کو فیصلہ کرنا ہے ان حکمرانوں کا بھی غاصبوں اور جھوٹوں کا بھی، مردوں پر سیاست کرنیوالوں کا بھی۔ ان کا فیصلہ یعنی عوام اور عدالت کا فیصلہ ہی پاکستان کا مقبول فیصلہ ہوگا رنگ، نسل، زبان، علاقے سے بالاتر ہوکر فیصلہ!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔