’’کفن چور‘‘
نتیجہ یہ کہ عام لوگ ان کو ’’شے فی الذات‘‘ تصور کرتے ہوئے ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
ہم ایک ایسے سماج میں رہتے ہیں، جو حقیقت میں بدعنوانوں، رشوت خوروں، ڈاکوؤں، جابروں، ظالموں، لٹیروں، دہشتگردوں اور استحصالیوں کا سماج ہے۔ اس سماج میں کردار تشکیل دیے جاتے ہیں، ان کے اوصاف متعین کیے جاتے ہیں، ان کرداروں سے متعلق اقدار کی منفیت اور اثباتیت کا تعین کیا جاتا ہے، ان کرداروں کو حکمران جماعتیں نام نہاد 'عظیم' نظریاتی دانشوروں کے خیالات کی آڑ میں مستحکم کرتی ہیں۔ مختلف قسم کی آئیڈیالوجیز سے ان کرداروں کو برائی کا منبع و محور ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
رائے عامہ کی جہت متعین کی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ عام لوگ ان کو ''شے فی الذات'' تصور کرتے ہوئے ان سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ تعلیمی اداروں، 'فلاحی 'تنظیموں، پاگل خانوں، اسپتالوں کو اس کام کے لیے متحرک کیا جاتا ہے کہ یہ ان پر ظلم و دہشت مسلط کرنے کا جواز اداروں کو فراہم کریں تاکہ وہ انھیں بھیانک قرار دے کر 'برائی 'کو ایک قدر کے طور پر متعین کرسکیں۔ اس طرح یہ کردار کچھ اس طریقے سے متشکل ہوتے ہیں کہ سماج میں بسنے والے افراد ان کرداروں کے حقیقی پس منظر میں، ان کے ظہور کے مآخذات کا تجزیہ کیے بغیر ان کو حکمرانوں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کی آئیڈیالوجیز کے چشموں سے دیکھنے لگتے ہیںتاہم ایک اہم بات کو حکمران اور ان کے وجود کو جواز فراہم کرنیوالے 'دانشور' فراموش کردیتے ہیں کہ فلسفے اور آئیڈیالوجی کی نوعیت اور سطح خواہ کتنی ہی گہری کیوں نہ ہو، ا ن کا اصل مقصد حقیقی سماجی تضادات کو مخفی رکھنا ہوتا ہے۔
ان تضادات کے ظہور کوغالب آئیڈیالوجی کی نفی تصور کرنے کی بجائے ان تضادات کو ہی ایک نوع کے شر کی صورت میں پیش کرنا ہوتا ہے تاہم جدلیاتی منطق اور اعلیٰ ا دب و آرٹ' خوبصورت' آئیڈیالوجی اور فلسفوں میں مضمر ان خیالات کے استحصالی کردار کا انکشاف کرتے ہوئے ان سماجی تضادات و کرداروں کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ شعر و ادب کی اس اعلیٰ روایت سے تعلق رکھنے والے لوگ سماج میں موجود شَر کا مرکز و محور گردانے جانے والے کرداروں کو جمالیاتی پیرائیوں میں منعکس کرتے ہیں اوران کی حقیقی اشکال کو سامنے لاتے ہیں۔ سماج اورزندگی کو بامعنی سمجھنے والے شعراء کی ان کرداروں پر نظر پڑتے ہی، نظریاتی دانشوروں کی تمام تر سعی کے باوجود، ان کرداروں کی ایک مختلف اور بامعنی تصویر سامنے آتی ہے۔
'کفن چور' استحصالی سماج کا ایک مظلوم و مقہور کردار ہے، جو شہزاد نیّر کی نظم کا عنوان بھی ہے۔ پاکستانی سماج کا ایک ایسا استعاراتی کردار کہ جس پر سیاسی نظریات اور سماجی تصورات کی گرد پڑی ہوتی ہے، اور اس کی حقیقی شناخت و کردار مسلسل ابہام کا شکار رہتاہے لیکن مذکورہ نظم میںنظریات کی معنویت کو استعاراتی معنوی زاویوں کے تحت نہ صرف عیاں کیا گیا ہے بلکہ اسے توڑکر اس کردار کے حقیقی مافہیاکو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ 'کفن چور' ایک ترکیبی استعارہ ہے جس نے خود پر مسلط تمام نظریاتی بندشوں کی معنویت کو خود پر منکشف کردیا ہے۔
دو بامعنی الفاظ کی ترکیب کو اگرالگ الگ استعارے کی صورت میں پیش کیا جائے تو اس کی معنوی جہت بالکل مختلف ہوگی۔ مثال کے طور پر 'چور' سماج کا ایک منفی کردار ہے، جب کہ' کفن' خواہ چور پر بھی ہو، پاکیزگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اس نظم میںان کی ترکیبی وحدت سے یہ کردار دو نوں ہی مفاہیم کو سمیٹتاہوا زندگی سے جڑی معنویت کو عیاں کرتاہے۔ سماج میں غالب اقدار کے ٹھیکیداروں کے نزدیک 'کفن چور' ایک قابلِ نفرت کردار ہے جب کہ مظلوم و مقہور اوراستحصالی نظریات کا شکار لوگوں کے لیے 'کفن چور' ایک بامعنی استعارہ ہے۔ ان کی قوت کا سرچشمہ ہے۔ مذکورہ نظم میں یہ کردار ''شے فی الذات'' نہیں ہے کہ جسے جانا نہیں جاسکتا یاجو سماج میں آزادانہ طور پر تشکیل پاتا ہے۔نہ ہی اس کی حقیقی شناخت کو ہمیشہ کے لیے آئیڈیالوجی کے غلاف میں مخفی رکھا جاسکتا ہے۔مذکورہ نظم کے پہلے دو بند غربت و افلاس کا شکار 'کفن چور' کے لیے زندگی کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں اور اس کی اس حالت اور کیفیت کا بیان ہیں، جو استحصالی سماجی نظریات نے متعین کررکھی ہیں:
کچھ نہیں، گھر میں مرے کچھ بھی نہیں/کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا/لقمہء نانِ جویں، خون کو دھکّا دیتا /من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر/کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں!...رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا/جسم کے بند مساموں میں اُترتی ٹھنڈک /سنگ ِمرمر سی ہوئیں خون ترستی پوریں/ہاتھ لرزاں تھے، امیدوں نے مگر تھام لیے/ پائوں چلتے ہی رہے شہرِ خموشاں کی طرف!
دونوں بند بامعنی امیجری کو خلق کرکے مظلوم و مقہور انسان کی زندگی کے لیے 'کفن' کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔ یہاں استعارہ برائے استعارہ نہیں بلکہ استعارہ زندگی کی معنویت سے جڑا ہواہے۔ ایک طرف موت ہے جو 'کفن' میں مقید ہے، دوسری طرف قریب المرگ زندگی ہے، جو 'کفن' کے عدم حصول سے موت میں بدل سکتی ہے۔'کفن' موت کی علامت ہے، مگر یہاں ' کفن' زندگی کا استعارہ بن کر سماجی اقدار کی نفی کرتا ہے۔پہلے دو بندوں میں سب سے بنیادی اور اہم استعارہ یا سگنی فائر 'حرارت' ہے ۔
حرارت، کفن کے بغیر ممکن نہیں ہے لہذا کفن بھی زندگی کا استعارہ ہے۔ کفن اور حرارت ایک معنوی وحدت کو سمیٹے ہوئے ہیں۔ دونوں استعارے خون کی گردش کو قائم رکھ کر زندگی یعنی سگنی فائڈ کو متعین کرتے ہیں۔ حرارت زندگی کا استعارہ ہے اور کفن موت کی علامت ہے ۔ اس طرح کفن کا کردار زندگی کے لیے بامعنی ہے، جسے عام طور پر موت کی معنویت کے لیے محدود کیا جاتا ہے۔ آسان الفاظ میں یوں کہ کفن کے بغیر حرارت نہیں، اور اگر حرات نہیں تو زندگی نہیں! کفن اور حرارت کاباہمی ربط دونوں کو بامعنی بناتا ہوا سگنی فائڈ (زندگی) میں بدل دیتا ہے۔ غریب انسان کے لیے ہمارے سماجی منظر نامے میں یہ تعلق 'بلاجواز' (Arbitrary ( نہیں، سماجی زندگی سے جڑی ہوئی لازمیت کی عکاسی کرتا ہے۔
اس تعلق کی عدم تکمیل کا مطلب زندگی کا خاتمہ ہے۔ لہذا یہاں پر سماج کے' منفی کردار' کے لیے زندگی کی احتیاج بامعنی ہے اور یہ احتیاج صرف'کفن' سے پوری ہوتی ہے، اگرچہ مفہوم منفی ہے، مگر معنوی سطح کی توسیع کا باعث ہے۔ ان مفاہیم میں انسانی زندگی کو' بامعنی' تسلیم نہ کرنے کا مطلب 'انصاف' سمیت کئی انسانی اقدار کی نفی کرتے ہوئے سماج میںدہشت، ظلم اور فسطائیت کے راج کو تسلیم کرنا ہے۔ نظم کے آخری بند کی پہلی تین سطور کچھ یوں ہیں: پردئہ خاک میں لپٹے ہوئے بے جان وجود!/ باعث ِ ننگ ِ زمیں ہوں، مگر اک بات بتا/جسم مٹی ہو تو کپڑوں کی ضرورت کیا ہے؟
شاعر نے 'کفن چور' کی خواہش و احساس کو انتہائی گہرائی میں محسوس کرتے ہوئے کفن چور کی جگہ پر کھڑے ہوکر کفن چوری کرنے کا جواز تلاش کرلیا ہے۔ سماجی اقدار کی روایتی ترتیب تبدیل ہوگئی ہے۔جو شخص موت کی آغوش میں جاچکا ہے، اسے اس کفن سے کیا لینا دینا جو زندہ کے لیے زندگی کا جواز فراہم کرسکتا ہے۔کفن خاک کو خاک میں ملنے سے نہیں روک سکتا۔
دیکھ پیوندِ زمیں ! میرے تنِ عریاں پر/داغِ افلاس کا پیوند۔۔۔۔ اجازت دے دے/ مر کے مرتے ہوئے انسان کو زندہ کر دے
کفن ہو یا نہ ہو کیا فرق پڑتا ہے!لہذا مرے ہوئے انسان کا 'کفن' اس 'کفن چور' کے لیے پیوندِ زمیں ہے۔ جسم خاک ہے اور خاک میں مل جاتا ہے۔ یہاں کفن کے لیے ''پیوند ِ زمیں'' کی ترکیب بامعنی ہے۔ افلاس کا شکار انسان اس' پیوند' سے اپنی زندگی کو بچا سکتا ہے۔ کفن کو پیوند سے تشبیہ دے کر تقدیسی اقدار کی لاتشکیل کا عمل بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ آخری تینوں سطور خصوصی توجہ کی متقاضی ہیں اور اس نظم کا ماحصل ہیں:
ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے/ ورنہ بھوکی ہے بہت خاک ، کہاں دیکھے گی/ جسم کھا جائے گی ، پوشاک کہاںدیکھے گی!