غذائی قلت ایمرجنسی
سندھ حکومت کا افسر شاہی نظام،اسٹیٹس کو اور جمود کا شکار ہوچکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ اس وقت ایک شدید بحران میں داخل ہونے والا ہے اور شاید اس کی مثال آج سے پہلے اس دھرتی پرکہیں نہ ملے، اس آنے والے بحران سے سندھ حکومت بخوبی واقف ہے۔
سندھ حکومت مختلف پروگرامز اور ورلڈ ڈونرزکے ساتھ اس حوالے سے کام بھی کر رہی ہے مگرکیا وجہ ہے کہ یہ بحران شدید سے شدید ہوتا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ ریکارڈز پر مانتے ہیں کہ سندھ میں اسٹنٹ بچوں کی تعداد 48% ہے جب کہ یونیسیف اور دوسرے بین الاقوامی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر اسٹنٹ بچوں کی تعداد پاکستان میں 57.5% ہے۔
غذائی قلت (Malnutrition) کی شرح آن ریکارڈ مجموعی طور پر 15% پر ہے اور بین الاقوامی اداروں کے مطابق 23% ہے۔ یہ بحران پاکستان کے تمام صوبوں کے درمیان صرف سندھ میں تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے اور اس بحران کی شدت سندھ کے شہری نہیں بلکہ دیہی علاقوں میں ہے۔
دیکھا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو پاکستان پیپلز پارٹی کے اصل ووٹرز ہیں ۔ Body Mass Index (BMI) کے ٹیسٹ کے تحت سندھ میں 52.5% عورتوں کے جسم ایک معقول صحت کے مطابق مناسب ساخت نہیں رکھتے اور 23.7% خواتین انڈر ویٹ (کم وزنی) کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے اصول کے مطابق اگرکسی جگہ 15% غذائی قلت ہو تو وہاں ایمرجنسی ڈیکلیئر کر دی جاتی ہے۔
مجھے اس بات کا بھی شبہ ہے کہ شاید حکومت نے Undeclared ایمرجنسی نافد کی بھی ہو لیکن اگر حکومت نے خاموشی سے یہ قدم اٹھایا ہے تو یہ بین الاقوامی اصولوں سے انحراف ہے کیونکہ اس طرح کی ایمرجنسی کو شفاف طور پر Declare کرنا چاہیے تاکہ اس میں Transparency پیدا کی جا سکے۔ ہمارے تمام ترقیاتی، صحت عامہ اور رفاہی پروجیکٹس اس لیے ناکام ہو جاتے ہیں کیونکہ ہم ان میں شفافیت پیدا نہیں کر سکتے۔
ہم نے ان پروگرامزکو مزید فعال اورکامیاب بنانے کے لیے ایک اور طریقہ بھی اختیارکیا کہ پبلک، پرائیویٹ سیکٹرکی آپس میں شراکت کی۔ اس شراکت سے کچھ بہتر نتائج بھی نکلے جیسے کہ اسپتالوں کی کارکردگی قدرے بہتر ہوئی مگر یہ شراکت تعلیم کے شعبے میں کچھ خاص بہتری نہ لاسکی کہ ہمارے اسکولوں کی حالت ابتر سے ابتر ہے۔ یہ بھی بتاتا چلوں کہ سندھ یرقان جیسی مہلک بیماری کی لپیٹ میں ہے۔ سندھ کی کل آبادی کا 20% حصہ اس بیماری کا شکار ہے۔
یرقان کی روک تھام کے لیے حکومت نے جو قدم اٹھائے ہیں، ان صحت عامہ پروگرامز میں بہت سے خلاء موجود ہیں جسکی وجہ سے کوئی مناسب مشاورت (Consultancy) لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہی ہے اور اب یہ بیماری ہمارے سندھ میں وباء کی صورت اختیار کر رہی ہے۔
بالکل اسی طرح صحت عامہ کے حوالے سے حکومتی پروگرامز میں ransparency T نہ ہونے کی وجہ سے سندھ میں غذائی قلت اور اسٹنٹ بچوں کی تعداد میں اضافہ در اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بات اگر سرکاری اسکولوں کی کی جائے تو سرکاری اسکولوں میں کون سے بچے داخلہ لیتے ہیں یا پھر سرکاری اسپتالوں میں کون جاتا ہے؟
یہ ہمارے ملک کا غریب طبقہ ہے جو سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھاتا ہے اور سرکاری اسپتالوں میں بحالت مجبوری جاتا ہے، بڑے بڑے سسٹم بنائے گئے اسکولوں میں استادوں کی حاضری کے لیے جیسا کہ بائیو میٹرک سسٹم تک سرکاری اسکولوں میں نصب کیا گیا لیکن گھوسٹ اساتذہ نے ان سسٹمزکو بھی ناکارہ بنا دیا۔
حکومت لاکھوں روپے کا بجٹ دوائیوں کی مد میں سرکاری اسپتالوں کے لیے صرف کرتی ہے لیکن کیا یہ بجٹ ایمانداری سے اس مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے، سرکاری اسپتالوں میں لوگوں کو مناسب دوائیں فراہم کی جاتی ہیں! آج کے ہی سندھی اخبار میں کہیں میں پڑھ رہا تھا کہ سندھ حکومت نے تھرکے ضرورت مند لوگوں کے لیے لگ بھگ تین لاکھ گندم کی بوریاں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا جس میں تقریبا 80 ہزار بوریوں کی گندم خراب ہو چکی ہے کیونکہ سندھ حکومت نے بوریاں تو دے دیں مگر ان بوریوں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے کوئی مناسب انتظام نہ کیا۔
بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کا اگر ہم غور سے جائزہ لیں تو سندھ کی تقریبا آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ حکومت کے صحت عامہ اور رفاہی پروگرامزکی ناکامی کی اہم وجہ ہمارے سسٹم میں کرپشن ہے۔ یہ کرپشن ہمارے سسٹم میں اس قدر شدید ہوچکی ہے کہ ہم ایک بہت بڑے بحران کو دعوت دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر امرتا سین نے قحط کے حوالے سے بڑی ریسرچ کی ہے۔ ہمارے پاس پیدا ہونے والی غذائی قلت میں قحط کے آثار ہیں۔
ڈاکٹر امرتا سین بتاتی ہیں کہ چین میں 1960 ء کی دہائی میں جو غذائی قلت پیدا ہوئی تھی اس میں ایک کروڑکے قریب لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کی وجہ چین میں کوئی خشک سالی نہ تھی بلکہ چین کی حکومتی پالیسیز تھیں اور غیر شفافیت کی وجہ سے ایک چھوٹی سی غذائی قلت شدت اختیارکرگئی۔ اتنے لوگوں کی جانیں ضایع ہونے کے باوجود چین کی حکومت نے آخر تک اس بات پر پردہ رکھا اور یہی کہتے رہے کہ یہاں سب کچھ ٹھیک ہے یعنی آخر تک وہ State of denial میں رہے۔کبھی مان کر نہیں دیا۔
1940 ء کی دہائی میں بنگال شدید قحط کا شکار ہوا اس کی وجہ بھی ڈاکٹر امرتا سین نے انگریزوں کی ناقص حکومتی پالیسیز بتایا ہے جس میں لاکھوں لوگوں کی جانیں ضایع ہوئیں۔ سندھ میں پیدا ہونے والی غذائی قلت کا بحران بھی حکومت کی ناقص پالیسیوں کی بناء پر ہے۔ یہاں تک کہ سندھ میں 90% لوگوں کو شفاف پینے کا پانی میسر نہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے ان حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے جسٹس امیر مسلم ہانی کی سربراہی میں ایک واٹرکمیشن بھی بنایا۔
یہ واٹرکمیشن سندھ میں صاف پانی کے بحران کے حوالے سے کام کر رہا ہے جو کہ دراصل سندھ حکومت کی ذمے داری تھی۔سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پہلے سندھ میں ایجوکیشن ایمرجنسی نافذ کی لیکن شاید ناقص سسٹم کے آگے ان کو اپنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ غرضیکہ سندھ حکومت کے شروع کیے ہوئے تمام رفاہی پروجیکٹس دیرپا نہ رہ سکے۔
سندھ حکومت کا افسر شاہی نظام،اسٹیٹس کو اور جمود کا شکار ہوچکا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بحران اور شدت اختیارکرے ایک جامع پالیسی ترتیب دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس پالیسی کے تحت غذائی قلت ایمرجنسی کو شفافیت کے ساتھ Declare کرنے کی ضرورت ہے اور اس امرکے لیے تمام سول سوسائٹی کو آن بورڈ لیا جائے تاکہ اس ایمرجنسی کی شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے۔