جہل کا دیوتا
جہل کے دیوتا نے انگڑائی لی اور فیصلہ ہوا کہ زیادتی کے بدلے زیادتی کی جائے۔
بھگت کبیر نے کہا تھا ''دو چیزیں لامتناہی ہیں، ایک کائنات، دوسرا جہل۔
بد قسمتی سے جہل کے لامتناہی ہونے کی مثالیں ہمیں اپنے اردگرد اس کثرت سے دکھائی دیتی ہیں کہ نہ تو اُن کی گنتی رکھی جاسکتی ہے، نہ ہی اُن کی درستی کے لیے انفرادی سطح پرکچھ کیا جا سکتا ہے ۔ بس مذمت کیجیے، افسوس کا اظہار کریں اور آگے بڑھ جائیں۔
جہل کی تازہ مثال ٹوبہ ٹیک سنگھ کے علاقے پیر محل میں دکھائی دی ۔ ایک شخص نے اپنے محلے کی لڑکی کی آبروریزی کی ، پنچایت بیٹھی۔ جہل کے دیوتا نے انگڑائی لی اور فیصلہ ہوا کہ زیادتی کے بدلے زیادتی کی جائے ۔ فیصلے کے احترام میں ملزم کی بہن کی ساتھ متاثرہ لڑکی کے بھائی نے زیادتی کی ۔ مظلوم بہنوں نے ظالم بھائیوں کا بوجھ ڈھویا۔ دونوں فریقین نے اسٹامپ پیپر پر دستخط کیے اور جہل کے دیوتا نے اطمینان سے سر ہلایا۔
جہل کا ایسا ہی مظاہرہ ستمبر 2017 میں دیکھنے میں آیا تھا ۔ بہاول نگر کے چک نور محمد بھنگراں کے رہایشی فیاض نے گاؤں کی ایک لڑکی سے کورٹ میرج کر لی۔خبر سنتے ہی بااثر زمیندار کے جسم میں جہل کے دیوتا کی روح سما گئی۔ فیاض کی بہن کو ونی کرنے کا حکم ہوا ۔ پہلے اُسے برہنہ کرکے گاؤں میں گھمایا گیا، پھر زمیندار کے ڈیرے پر چار روز تک اس کی آبروریزی کی گئی، اس دوران اس کی چیخیں موبائل فون پر اس کے ماں باپ کو سنائی جاتی رہیں ۔یہ ٹیکنالوجی کا عروج تھا۔ جہل کا دیوتا مطمئن و مسرورتھا ۔
اب ملتان چلتے ہیں۔ جولائی 2017 کا ذکر ہے۔ایک نوجوان نے 12سالہ لڑکی سے زیادتی کی۔ پنچایت نے انصاف کرنے کی ٹھانی۔فیصلہ ہوا، ملزم کی سترہ سالہ بہن کے ساتھ بھی زیادتی کی جائے۔فیصلے پر اہتمام کے ساتھ عمل درآمد کیا گیا۔
19 جولائی کو ملزم کی بہن کو متاثرہ لڑکی کے بھائی نے زیادتی کا نشانہ بنایا اور یوں بھائی نے اپنی بہن کا انتقام لے لیا ، فریقین میں صلح ہو گئی ۔ جہل کے دیوتا نے انگڑائی لی۔ بہاولپور میں بھی گزشتہ برس ایک بہن اپنے بھائی کے گناہ کا بوجھ اٹھا چکی ہے۔ یہ واقعات اس سے پہلے بھی رونما ہوتے آئے ہیں، آج بھی ہورہے ہیں، کل بھی جاری رہیں گے۔ بے شک جہل لامتناہی ہے۔
اِس جہل کو توانائی ملتی ہے لاقانونیت سے۔ دنیا بھر میں جرائم ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں عورتوں اور بچوں کو درندگی، ہوس اور ظلم کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ البتہ ترقی یافتہ ممالک میں قانون کی حکمرانی کے وسیلے گو اِن صدمات کی مکمل تلافی تو نہیں ہوتی، البتہ گناہ گارکے کیفر کردار تک پہنچنے پر کرب کچھ کم ہوجاتا ہے۔ البتہ ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔
بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز روز بہ روز سامنے آرہے ہیں اور معاملہ فقط زیادتی تک محدود نہیں۔ ظالم شکاری، مظلوم شکار کی ویڈیو بناتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر اُسے بلیک میل کیاجاتا ہے۔ قصور میں گلی گلی میں سانحات کے نشان تھے، مگر کاہل قانون اور نااہل انتظامیہ میں روح پھونکنے کے لیے زینب کے خون کی چھینٹیں درکار تھیں۔ تب کہیں جا کر اعلیٰ ترین سیکیورٹی ادارے اُس مجرم تک پہنچے، جو کراچی کی گلیوں میں موبائل چھینے والے مجرموں سے بھی کم ذہانت کا حامل تھا۔
قصور کے ویڈیو اسکینڈلزسے جڑے المیوں کی بازگشت اب بھی وقفے وقفے سے سنائی دیتی ہے۔کل ہی جڑانوالہ میں بچوں سے زیادتی اور نازیبا ویڈیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ،کل نیا کیس سامنے آجائے گا۔یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آتے ہیں ۔کھیتوں سے کٹی پٹی لاشیں ملتی ہیں۔ گاؤں دیہات میں لڑکیوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر ، گلے میں پھندا ڈال کرکسی درخت کے تنا سے لٹکا دیا جاتا ہے۔ملزم عدم ثبوت کی بنا پر چھوٹ جاتے ہیں۔ جہل کا دیوتا محظوظ ہوتا ہے ۔ ہم تاسف سے سر ہلاتے ہیں۔ آگے بڑھ جاتے ہیں۔
یہ طویل داستان ہے، واقعات کا انبار ہے۔ہر واقعے میں آنسو بہانے کا خاصا مواد ، مگر آنسو سستے ہیں۔ بہائے جائیں، نہ بہائے جائیں، کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ فرق پڑے گا قانون کی حکمرانی سے ۔ آگاہی سے۔ تعلیم و تربیت سے۔ پہلے مرحلے میں اعتراف سے کہ ہم بہ طور فرد اور بہ طور معاشرے جہل کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ، کیونکہ ہم نے علم کو ہتھیار نہیں بنایا۔۔۔ ہم نے جہل کو خود پر غالب آنے دیا، کیونکہ ہم علم کے لبادے سے محروم تھے۔۔۔ جہل ہمارے دلوں میں داخل ہوا، کیونکہ ہم نے علم کو دل کی حفاظت کے لیے مستعد نہیں رکھا۔
پہلے مرحلے پر ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری نرگسیت سرا سر جہل ہے۔ہم اپنی قومیت ، عقائد ، اپنی زبان ، اپنی جنس کی وجہ سے نہ تو کسی سے بہتر ہیں ، نہ ہی افضل ۔ جو چیزیں ایک انسان کو دوسرے انسان پر فوقیت دیتی ہے، وہ ہیں علم، عاجزی، تقویٰ، کردار۔ دولت نہیں ، قومی ، مذہبی ، لسانی شناخت نہیں۔
مشرق ، مغرب سے برتر نہیں صاحب ۔ مغرب کی بے راہ روی، وہاں جرائم کی شرح سے متعلق سنائے جانے والے مبالغہ آمیز قصوں،خاندان نظام کی شکست و ریخت کے کھوکھلے دعوؤں اور مغرب کے زوال کی سستی پیش گوئیوں سے نکل آئیں ۔ ہر خطے میں بسنے والا انسان ایک سا ہے۔ وہ یکساں طور پر خیر و شر کے زیر اثر ہے۔ یکساں طور پر نیکی اور بدی کے مابین سفر کرتا ہے۔اللہ نے انسان کو اسی طرز بنا بنایا ہے ۔ اللہ ہی تمام سمتوں کا مالک ہے۔ ہر خطے میں بسنے والا انسان، اُس کی تخلیق ہے۔
مشرق و مغرب کی تقسیم ایک کھوکھلی تقسیم ہے ۔ ہر وہ شے، ہر وہ جواز جو اِس معاشرے کے بدن سے اٹھتے تعفن کو کچھ دیر کے لیے دبا دے، اس کی خامیوں پر پردہ ڈال دے، اُس کے سقم دھندلے دے ، ظلم گھٹا دے، فقط ایک نشہ ہے۔ فقط جہل کے دیوتا کی دین ہے۔
اس ریاست کا مستقبل، جس کے ذمے پورا عالم اسلام کے نہیں، فقط اس ملک کے باسی ہیں، علم سے ، برداشت سے، روشن خیالی سے وابستہ ہے اور اس مستقبل کی سمت بڑھتے پہلے قدم کا نام خود احتسابی ہے۔ یہ تسلیم کرنا کہ میرے بدن پر زخم ہے، جن سے تعفن اٹھتا ہے، یہ تسلیم کرنا کہ میں بیمار ہوں، اور مسلسل گھل رہا ہوں ، علاج کی جانب پہلا قدم ہے ۔
ہر قسم کی نرگسیت ترک کرتے ہوئے، اپنی برتری اور فضلیت کے ہر بت کو توڑ کر، علم، برداشت، روشنی خیالی کے راستے پر چل کر ہی ہم ناخواندگی، ناانصافی ، بے روزگاری ، عدم تحفظ اور شعبۂ صحت کی زبوں حالی کی پانچ گھاٹیاںعبور کرسکتے ہیں ۔ اسی راستے پر چل کر ہم تقسیم در تقسیم ہونے کے گمبھیر مسئلے سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔
اگر ہم نے یہ نہ کیا، تو مظلوم بہنیں اپنے ظالم بھائیوں کے گناہوں کا بوجھ یونہی ڈھوتی رہیں گی ۔