دعا عبادت کا مغز

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن کمالات و امتیازات سے نوازا ان میں سب سے بڑا امتیاز و کمال عبدیت کاملہ کا کمال ہے۔


اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن کمالات و امتیازات سے نوازا ان میں سب سے بڑا امتیاز و کمال عبدیت کاملہ کا کمال ہے۔ فوٹو: فائل

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' دعا عبادت کا مغز ہے۔'' عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندے کا اللہ ربّ العزت کے سامنے خشوع و خضوع کے ساتھ، اللہ ربّ العزت کی حمد و ثنا اور تعریف و عظمت بیان کرنا، اور اپنی بندگی، محتاجی، بے بسی و بے کسی کا اظہار و اقرار کرنا، اسی لیے دعا کو عبادت کا مغز اور جوہر کہا گیا ہے۔ خاتم النبین رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، جس کا مفہوم ہے: '' تمہارے ربّ کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو اور مانگو، میں قبول کروں گا، اور تم کو دوں گا، اور جو لوگ میری عبادت سے متکبرانہ روگردانی کریں گے ان کو ذلیل و خوار ہوکر جہنم میں جانا ہوگا۔''

اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو جن کمالات و امتیازات سے نوازا ان میں سب سے بڑا امتیاز و کمال عبدیت کاملہ کا کمال ہے۔ عبدیت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ کے حضور میں انتہائی عاجزی، بندگی، لاچاری اور محتاجی و مسکینی کا پورا اظہار کرنا، اور یہ یقین کرتے ہوئے کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ و اختیار میں ہے، ان سب کے مجموعہ کا عنوان مقام عبدیت ہے۔ اصول یہ ہے کہ ہر چیز اپنے مقصد کے لحاظ سے کامل یا ناقص سمجھی جاتی ہے، مثلاً گھوڑا جس مقصد کے لیے پیدا کیا گیا ہے یعنی سواری اور تیز رفتاری کے لیے ، اسی طرح گائے یا بھینس کاجو مقصد ہے یعنی دودھ کا حصول، اس کی قدر و قیمت دودھ کی کمی یا زیادتی اسی حساب سے لگائی جائے گی۔

لہٰذا انسان کی تخلیق کا مقصد اس کے پیدا کرنے والے نے عبدیت اور عبادت بتایا ہے۔ اس لیے سب سے افضل و اشرف انسان وہی ہوگا جو اس مقصد میں سب سے اکمل و فائق ہوگا۔ دعا چوں کہ عبدیت کا جوہر اور خاص مظہر ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے وقت بندے کا ظاہر و باطن عبدیت میں ڈوبا ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ کے احوال و اوصاف میں غالب ترین وصف اور بیش قیمت خزانہ ان دعاؤں کا ہے جو مختلف اوقات میں اللہ تعالیٰ سے خود آپ ﷺ نے مانگیں یا امت کو تلقین فرمائیں۔ ان میں سے کچھ دعائیں ہیں جن کا تعلق خاص حالات یا اوقات اور مخصوص مقاصد و حاجات سے ہے اور زیادہ تر وہ ہیں جن کی نوعیت عمومی ہے۔ ان دعاؤں کی قدر و قیمت اور افادیت کا ایک عام عملی پہلو تو یہ ہے کہ ان کے ذریعے دعا کرنے اور اللہ سے اپنی حاجتیں مانگنے کا سلیقہ اور طریقہ معلوم ہوتا ہے اور وہ راہ نمائی ملتی ہے جو کہیں اور سے نہیں مل سکتی۔ احادیث مبارکہ کے ذخیرے میں رسول اللہ ﷺ کی جو سیکڑوں دعائیں محفوظ ہیں ان میں اگر تفکر کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان میں سے ہر دعا معرفت الٰہی کا شاہ کار ہے۔

دعا اپنی کامل عاجزی و بے بسی اور سراپا محتاجی کا مظاہرہ ہے اور یہی کمال عبدیت ہے، اس لیے عافیت کی دعا اللہ تعالیٰ کو سب دعاؤں سے زیادہ محبوب ہے۔ حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ جس کے لیے دعا کا دروازہ کھل گیا یعنی جس کو دعا کی حقیقت نصیب ہوگئی اور اللہ سے مانگنا آگیا اس کے لیے رحمت الٰہی کے دروازے کھل گئے ۔ دعا دراصل ان دعائیہ الفاظ کا نام نہیں ہے جو زبان سے ادا ہوتے ہیں، ان الفاظ کو تو زیادہ سے زیادہ دعا کا لباس یا قالب کہا جاسکتا ہے۔ دعا کی حقیقت انسان کے قلب اور اس کی روح کی طلب اور تڑپ ہے اور حدیث پاک میں اس کیفیت کے نصیب ہونے ہی کو باب دعا کے کھل جانے سے تعبیر کیا گیا ہے، اور جب بندے کو یہ نصیب ہوجائے تو اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا '' جب اللہ سے مانگو اور دعا کرو تو اس یقین کے ساتھ کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا اور عطا فرمائے گا، اور جان لو اور یاد رکھو کہ اللہ اس کی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل ( دعا کے وقت ) اللہ سے غافل اور بے پروا ہو۔'' مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت دل کو پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے اور ربّ رحمن کی کریمی پر نگاہ رکھتے ہوئے یقین کے ساتھ قبولیت کی امید رکھنی چاہیے، تذبذب اور بے یقینی کے ساتھ جو دعا ہوگی وہ بے جان اور روح سے خالی ہوگی۔

جو کوئی یہ چاہے کہ پریشانیوں اور تنگی کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے، تو اس کو چاہیے کہ عافیت اور خوش حالی کے زمانے میں دعا زیادہ کیا کرے۔ جو لوگ صرف پریشانی اور مصیبت کے وقت ہی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اسی وقت ان کے ہاتھ دعا کے لیے اٹھتے ہیں، ان کا رابطہ اللہ کے ساتھ بہت کم زور ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت پر ان کو وہ اعتماد نہیں ہوتا جس سے دعا میں روح اور جان پیدا ہوتی ہے۔

اس کے برعکس جو بندے ہر حال میں اللہ سے مانگنے کے عادی ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کا رابطہ قوی ہوتا ہے اور اللہ کے کرم اور اس کی رحمت پر ان کو بہت زیادہ اعتماد اور بھروسا ہوتا ہے، اس لیے ان کی دعا قدرتی طور پر جان دار رہتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے یہی ہدایت دی ہے کہ بندوں کو چاہیے کہ عافیت اور خوش حالی کے دنوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ دعا کیا کریں اور مانگا کریں، اس سے ان کو وہ مقام حاصل ہوگا کہ پریشانیوں اور تنگی کے پیش آنے پر جب وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو ان کی دعا خاص طور پر قبول ہوگی۔

دعا بندے کی طرف سے اللہ تعالیٰ کے حضور میں استدعا ہے، اور وہ مالک کل اور قادر مطلق ہے، چاہے تو اسی لمحہ دعا کرنے والے بندے کو وہ عطا فرما دے جو وہ مانگ رہا ہے لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ بندے کی خواہش کی ایسی پابندی کرے بل کہ بسا اوقات خود اس بندے کی مصلحت اسی میں ہوتی ہے کہ اس کی دعا جلد پوری نہ ہو۔ لیکن انسان کے خمیر میں جو جلد بازی ہے اس کی وجہ سے وہ چاہتا ہے کہ جو میں مانگ رہا ہوں وہ مجھے فوراً مل جائے، اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ مایوس ہوکر دعا کرنا بھی چھوڑ دیتا ہے، یہ انسان کی وہ غلطی ہے جس کی وجہ سے وہ قبولیت دعا کا مستحق نہیں رہتا اور گویا اس کی یہ جلد بازی ہی اس کی محرومی کا باعث بن جاتی ہے۔

دعا کرنا انبیائے کرام کی سنت ہے، ہر نبی نے ہر حال میں دعا کی ہے۔ قرآن مجید میں انبیا ئے کرام کی بہت سی دعاؤں کو محفوظ کیا گیا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے زندگی کے ہر عمل میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے۔ لہٰذا کبھی بھی دعا میں کوتاہی نہ برتی جائے بل کہ ہمہ وقت دعائیں کرتے رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کو دعا کی تلقین بھی کرنا چاہیے۔ دعا مانگنے سے بندے کو خاص قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے، دعا کے ذریعے بندے کے اندر عجز و انکساری جنم لیتی ہے۔ بارگاہ الٰہی میں دعا ہے کہ اللہ ربّ العزت ہمیں خشوع و خضوع کے ساتھ دعا مانگنے والا بنائے، اور ہماری دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرمائے۔ آمین

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔